الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4593
´اگر بے زبان جانور کسی کو زخمی کر دے اور آدمی کان یا کنواں اپنی زمین میں کھدوائے اور اس میں کوئی مر جائے تو ان چیزوں میں تاوان لازم نہ ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4593]
فوائد ومسائل:
1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔
امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔
2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔
۔
۔
۔
۔
یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔
3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4593
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4594
´پھیل جانے والی آگ کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ باطل ہے ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4594]
فوائد ومسائل:
اگر کسی نے اپنی زمین یا گھر وغیرہ میں آگ جلائی اور پھر وہ پھیل گئی یا کوئی چنگاری اڑ کر دوسرے کا نقصان کر گئی تو آگ جلانے والا اس کا ذمہ دا ر نہ سمجھا جائے گا، الا یہ کوئی واضح قصور ہو مثلا اپنا کام کرکے اسے ویسے ہی چھوڑ دیا اور بھجایا یا دبایا نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4594
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 642
´جانوروں کا زخم رائیگاں ہے یعنی اس میں تاوان نہیں اور مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ۲؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا“ ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 642]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہو گی۔
2؎:
یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔
3؎:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے،
اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے،
اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے،
رہا معدن (کان) تووہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی،
جمہور کی یہی رائے ہے،
حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 642
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1377
´چوپائے اگر کسی کو زخمی کر دیں تو اس کے زخم کے لغو ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بےزبان (جانور) کا زخم رائیگاں ہے، کنویں اور کان میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎، اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے۔“ مؤلف نے اپنی سند سے بطریق «عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1377]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یعنی ان کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1377
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1499
1499. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جانور کا زخم معاف ہے، کنویں میں گر کر مرجانے میں کوئی معاوضہ نہیں اور کان کابھی یہی حکم ہے، یعنی اس میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے، البتہ دفینہ ملنے پر پانچواں حصہ واجب ہے۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1499]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ دفینہ جاہلیت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، کیونکہ اسے کافر کا مال قرار دیا گیا ہے جسے کوئی مجاہد حاصل کر لے، اس لیے غنیمت کے مال کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں اور ایک حصہ سرکاری طور پر رکھ لیا جاتا ہے، اسی طرح دفینہ جاہلیت کے چار حصے پانے والے کے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرانا ہو گا۔
رکاز کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں، مثلا:
اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اس پر سال گزرنے کی شرط ہے یا نہیں؟ وہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر اموال کو شامل ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ تمام تفصیلات دیگر کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
(2)
جب کوئی جانور منہ زور ہو کر کسی کو ہلاک کر دے یا نقصان پہنچائے تو مالک پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔
اگر کسی نے کنواں جاری کیا، اس میں کوئی آدمی گر کر مر گیا تو جاری کرنے والا اس کا ضامن نہیں۔
کان میں اگر کوئی مزدور مر جائے تو کان کا مالک یا مزدوری پر لے جانے والا اس سے بری الذمہ ہے۔
(3)
امام بخاری نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر "بعض الناس" کے عنوان سے کلام کیا ہے، اکثر مقامات پر ان حضرات پر تنقید مقصود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے، ایسے مقامات کی تعداد پچیس ہے جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں:
نمبر شمار اسم الكتاب رقم الباب رقم الحديث 1 الزكاة باب: 66 2 الهبة باب: 36 3 = باب: 37 4 الشهادات باب: 8 5 الوصايا باب: 8 6 الطلاق باب: 25 7 الأيمان والنذور باب: 21 8 الإكراه باب: 4 9 = باب: 7 10 الحيل باب: 3 6956 11 = = 6958 12 = = 6959 13 = باب: 4 6960 14 = = 6961 15 = باب: 9 16 = باب: 11 6968 17 = = 6970 18 = = 6971 19 = باب: 14 20 = = 6976 21 = = 6977 22 = = 6978 23 = باب: 15 6980 24 الأحكام = 25 = باب: 40 7195 یہ پہلا مقام ہے جہاں پر امام بخاری نے ایسے حضرات کا نوٹس لیا ہے جو ڈھٹائی کے ساتھ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں، ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
والله المستعان (4)
امام بخاری ؒ کے نزدیک رکاز دور جاہلیت کے وہ مدفون خزانے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں چھپائے تھے اور رکاز کے مفہوم میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔
اگر دونوں کا مصداق ایک ہوتا تو حدیث کی عبارت بایں الفاظ ہوتی:
''المعدن جبار و فيه الخمس" معدن میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے اور اس میں پانچواں حصہ ادا کرنا ہے“ جبکہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کا معدن پر عطف ڈالا ہے جو مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔
علامہ عینی ؒ نے احناف کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفيه الخمس اس لیے نہیں کہا کہ اس میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ ضمیر کا مرجع بئر ہے یا معدن۔
علامہ عینی کا یہ جواب بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے کیونکہ بئر کا لفظ دور ہے اور معدن کا لفظ قریب ہے، قریب مرجع کو چھوڑ کر مرجع بعید کی طرف ضمیر کیسے لوٹ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ لفظ بئر مونث سماعی ہے مذکر ضمیر مونث مرجع کی طرف کیسے لوٹ سکتی ہے؟ (رفع الالتباس عن بعض الناس، ص: 17)
احناف نے لغت کے بل بوتے پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ معدن اور رکاز ایک ہیں اور دونوں میں خمس ہے، حالانکہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ ابن اثیر لکھتے ہیں:
اہل حجاز کی لغت میں رکاز اس خزانے کو کہتے ہیں جو دور جاہلیت کے وقت سے زمین میں مدفون ہو، البتہ اہل عراق کی لغت میں معدن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن حدیث میں اہل حجاز کی تائید ہے۔
(النھایة: 100/2)
امت کا تعامل بھی اسی موقف کا مؤید ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
امام بخاری نے لغوی اعتبار سے جو اعتراض ان حضرات پر کیا ہے وہ اپنی جگہ لاجواب ہے، اس سلسلے میں امام بخاری نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو معدن میں خمس دینے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خمس معدن کے چھپانے کو بھی جائز کہتے ہیں جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔
یہ صریح تناقض ہے۔
اس کا دفاع علامہ عینی نے اس طرح کیا ہے کہ اگر معدن پانے والا محتاج اور فقیر ہو اور بیت المال سے اسے حصہ نہ ملنے کا ظن غالب ہو تو وہ بیت المال سے خمس چھپا کر اپنے آپ پر صرف کر سکتا ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے نقل کیا ہے۔
(عمدةالقاري: 563/6)
یہ جواب کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ معدن کے چار حصوں سے اس کا فقر زائل نہیں ہو گا بلکہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے اس سے ہی محتاجی دور ہو گی، اس کے علاوہ امام طحاوی ؒ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اگر اپنے گھر میں کوئی کان پا لیتا ہے تو اس میں خمس وغیرہ ادا کرنا ضروری نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ امام طحاوی کی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اعتراض اپنی جگہ پر قائم ہے کہ احناف کے ہاں تناقض پایا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 460/3)
ربیعہ بن عبدالرحمٰن کئی لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث ؓ کو معادن قبلیہ الاٹ کی تھیں، ان معادن سے آج تک زکاۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں وصول کیا جاتا۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3061)
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معادن کی برآمدات پر خمس نہیں بلکہ زکاۃ ہے۔
اگرچہ اس روایت میں انقطاع ہے، تاہم تائید کے لیے اس قسم کی روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
الغرض رکاز سے مراد زمانہ جاہلیت کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر حاصل ہوا ہو اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وصول کیا جاتا ہے جبکہ معدنیات میں زکاۃ ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ حدیث مذکور اس کی واضح دلیل ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2355
2355. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو کوئی معاوضہ نہیں، اسی طرح کنویں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان اور جانور سے پہنچنے والی تکلیف پر بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اور زمین کے دفینے سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2355]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک شخص نے اپنی زمین میں کنواں کھودا تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں، اگر کسی کی بکری اس میں گر کر مر جاتی ہے تو کنویں کا مالک اس کا ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کی سازش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔
اگر ثابت ہو جائے کہ اس نے دانستہ کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح کان میں انسان اور مویشی بھی مر سکتے ہیں، اس پر بھی کوئی تاوان یا انتقام نہیں، نیز جانور اگر کسی کو سینگ مارتا ہے تو اس نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہو گی۔
(2)
جب کنویں میں گرنے والے کے خون کا ذمہ دار مالک نہیں ہے کیونکہ اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو حق نہیں تھا تو پانی کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہو گا کہ اس میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں۔
جب پانی اس کی ضروریات ہی پوری کرتا ہے تو دوسروں کی ضروریات پر اسے صرف کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جب کوئی مجبور اور لاچار ہو تو اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2355
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6912
6912. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حیوانات کا کسی کو زخمی کرنا قابل معافی ہے۔ کنویں میں گر کر مرجانے پر کوئی دیت نہیں۔ کان میں دب کر مرنے پر کوئی تاوان نہیں۔ اور مدفون خزانہ ملنے پر پانچواں حصہ دینا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6912]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی بے آباد کنویں میں گر کر مرجائے تو اس میں کوئی دیت نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی نے اپنی ملکیت یا بے آباد جگہ میں کنواں کھودا، اس میں کوئی انسان یا چوپایہ گر کر مرگیا تو کنویں کے مالک پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔
اگر کسی نے کنواں کھودنے کے لیے مزدور رکھا، اس پر دیواریں گریں اور وہ ہلاک ہو گیا تو اس میں بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔
تاہم اگر کسی نے دھوکے سے کسی کو کنویں میں گرایا یا عام راستے میں کنواں کھودا یا کسی غیر کی زمین میں کنواں بنایا، وہاں اگر کوئی گر کرمر جائے تو کنویں والے پر تاوان ہوگا۔
(2)
معدنیات کی کانوں کا بھی یہی مسئلہ ہوگا، ان میں دب کر اگر کوئی مر جاتا ہے یا ان میں کوئی مزدور ہلاک ہو جاتا ہے تو مالک پر کوئی تاوان نہیں ہوگا بلکہ ہر بے جان چیز کا یہی حال ہے، مثلاً:
اگر کوئی انسان پھسل کر دیوار سے ٹکرایا اور مر گیا تو دیوار والا برئ الذمہ ہے۔
اگر کوئی کھجور پر چڑھا اور گر کر مرگیا تو مالک پر کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔
(فتح الباري: 318/12، 319)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6912
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6913
6913. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”جانور کسی کو زخمی کرے تو اس کی کچھ دیت نہیں۔ اسی طرح کان میں کام کرنے سے کوئی نقصان پہینچے یا کنویں میں گرنے سے کوئی نقصان آئے تو اس میں بھی کوئی تاوان نہیں۔ اگر کہیں سے مدفون خزانہ آئے تو اس میں پانچواں حصہ بحق سرکار لیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6913]
حدیث حاشیہ:
(1)
حیوانات کے نقصان کا تاوان حسب ذیل طریقے سے ہوگا:
٭اگر کسی کا جانور اچانک کھل گیا اور کسی کا کھیت چر گیا تو نقصان کا تاوان جانور کے مالک سے نہیں لیا جائے گا۔
٭ اگر اس نے قصداً کھولا یا اس کو کھل جانے کا علم ہوا لیکن اس نے باندھنے کی کوشش نہیں کی یا چرواہا ساتھ تھا مگر اس کے باوجود کھیت چر گیا تو مالک سے تاوان لیا جائے گا۔
٭کوئی شخص اپنے جانور عام راستے سے لے جا رہا تھا، اس دوران میں جانوروں نے کسی کا کھیت کچل دیا یا اس میں بیٹھنے سے بہت سے پودے ضائع ہو گئے تو مالک کو نقصان کا تاوان دینا ہوگا۔
٭اگر لات چلانے، پیر جھاڑنے یا دم ہلانے سے کوئی نقصان ہوا تو اس صورت میں تاوان نہیں لیا جائے گا کیونکہ یہ جانور کی فطرت ہے، اس سے جانور کو روکا نہیں جا سکتا۔
٭اگر کوئی جانور لوگوں کو سینگ مارتا ہے یا کسی نے کتا پالا جولوگوں کو کاٹتا ہے، اسے تنبیہ کی گئی کہ اپنے جانور یا کتے کو قابو کرو، اس نے سستی سے کام لیا تو اس صورت میں جانور کے مارنے یا کتے کے کاٹنے سے نقصان کا تاوان دینا پڑے گا۔
٭ بکریوں کے دو چرواہے ہیں ایک آگے اور دوسرا پیچھے، اس صورت میں جو نقصان ہوگا وہ دونوں سے لیا جائے گا۔
(2)
بے جان سواریوں، مثلاً:
سائیکل، موٹر سائیکل، بس، ویگن، ریل اور ہوائی جہاز کا حکم بھی مندرجہ بالا صورتوں کے مطابق ہوگا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6913