تخریج: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء أن الوتر ليس بحتم، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، والحاكم:1 /300، ووافقه الذهبي، أبوسحاق مدلس وعنعن.»
تشریح:
یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جو وتر کے وجوب کے قائل نہیں۔
بعض محققین نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عاصم بن ضمرہ کوفی متکلم فیہ ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اعدل الاقوال ذکر کیا ہے کہ وہ صدوق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں انھوں نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کی تحسین و تصحیح نقل کر کے کوئی کلام نہیں کیا۔
البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ نیز مسند احمد میں بھی اس کے شواہد ہیں جنھیں الموسوعۃ الحدیثیہ والوں نے قوی قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ / ۸۱) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔