4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1307
وعن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«العجلة من الشيطان» أخرجه الترمذي وقال: حسن.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جلد بازی و عجلت پسندی شیطانی کام ہے۔ “ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1307]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في التأني والعجلة، حديث:2012، وقال: غريب.* عبدالمهيمن ضعيف (تقريب).»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1307
تخریج: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في التأني والعجلة، حديث:2012، وقال: غريب.* عبدالمهيمن ضعيف (تقريب).»
تشریح: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم جلد بازی قابل مذمت حرکت ہے‘ اس لیے کہ ایسا کرنے سے امور کے انجام پر غور و فکر کرنے اور ان میں خوب چھان بین کرنے کاموقع نہیں ملتااور اسی کے نتیجے میں انسان ہلاکت کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔ بہر نوع اس سے بچنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1307
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1307
تخریج: «ضعيف» [ترمذي 2012] شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے دیکھئے: [ضعيف الترمذي 2098] بلوغ المرام میں ترمذی سے اس کا حسن ہونا نقل فرمایا ہے۔ میرے پاس ترمذی کے تمام نسخوں میں صرف یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور بعض اہل الحدیث نے (اس کے راوی) عبدالمھیمن بن عباس بن سہل کے بارے میں کلام کیا ہے اور اسے حافظے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے: «الاناة من الله والعجلة من الشيطان»”ٹھہر کر کام کرنا اللہ کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“
فوائد: ➊ آہستہ روی اور سوچ سمجھ کر کام کرنے کی فضیلت: یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے، مگر آہستہ روی اور سوچ سمجھ کر کام کرنے کی فضیلت میں دوسری صحیح احادیث بھی موجود ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عبد القیس کے اشج (سردار) سے فرمایا: «ان فيك خصلتين يحبهما الله: الحلم والاناة»[صحيح مسلم، الايمان 6 ] ”یقیناً تم میں دو خصلتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے۔ بردباری اور ٹھہر کر سوچ سمجھ کر کام کرنا۔“ عبداللہ بن سرجس المزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «السمت الحسن والتؤدة والاقتصاد جزء من اربعة وعشرين جزءا من النبوة "، قال: وفي الباب عن ابن عباس، وهذا حديث حسن غريب.» ”اچھی وضع قطع اور ٹھہر کر کام کرنا اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔“
➋ جلدی سے پرہیز میں اور آہستہ روی اختیار کرنے میں کیا حکمت ہے: انسان کو زندگی میں جو اہم معاملات پیش آتے ہیں انہیں سلجھانے اور درست طریقے سے چلانے کے لیے تین چیزیں نہایت ضروری ہیں۔ ان میں سے ایک چیز اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فہم و فراست کے ساتھ خود ان میں غور کرنا ان کے فائدے اور نقصان کا موازنہ کرنا ان کے نتائج پر غور کرنا غرض اپنی پوری کوشش کے ساتھ صحیح نتیجے تک پہنچنا ہے۔ دوسری چیز مشورہ کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ»[3-آل عمران:159 ] ”ان کے ساتھ معاملے میں مشورہ کر۔“ اور فرمایا: «وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ»[42-الشورى:38 ] ”ان کے کام آپس میں مشورے سے ہوتے ہیں۔“ اکیلے آدمی کی سوچ اتنی جامع نہیں ہو سکتی جتنی دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر جامع بنتی ہے انسان کو مشورے سے اس کام میں پوری بصیرت حاصل ہو جاتی ہے۔ تیسری چیز استخارہ ہے یعنی اپنے پورے غور و فکر اور مشورے کے بعد جب کسی کام کا ارادہ پکا ہو جائے تو اسے اللہ کے سپرد کرنے کے لیے استخارہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے آپ نے ہر کام کے ارادے کے وقت دو رکعت پڑھ کر دعائے استخارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ [بخاري: 1162 ] درحقیقت استخارہ اپنے کاموں کو اللہ کے سپرد کرنے کا نام ہے اور یہی مراد ہے اللہ کے اس فرمان میں: «فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ»[3-آل عمران:159] ”پس تو ان سے درگزر کر اور ان کے لئے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ کر پس جب تو عزم کر لے تو اللہ پر بھروسہ کر بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ اب جو شخص ہر اہم مقام میں ان تینوں چیزوں کو مدنظر رکھے گا اس سے غلطی بہت کم صادر ہو گی اور شیطان کو داؤ لگانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ اسے ساتھیوں کا تعاون اور اللہ کی مدد ہمیشہ حاصل رہے گی اور کبھی ندامت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ اور اگر جلدی کرے گا تو شیطان کو موقعہ مل جائے گا۔ جتنی جلد بازی زیادہ ہو گی اتنا ہی شیطان کا دخل زیادہ ہو گا اگر استخارہ، مشورہ اور غور و فکر تینوں ہی نہ ہوئے تو شیطان کو پورا موقعہ ملے گا اور اگر کوئی ایک چیز رہ گئی تو اس کے مطابق اسے دخل اندازی کا موقعہ ملے گا۔
➌ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے میں دیر نہیں کرنی چاہیے: واضح رہے کہ وہ کام جن کے کرنے کا واضح حکم موجود ہے ان میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان میں دیر کرنا وقت ضائع کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنا ہے۔ اگر ایسے کاموں میں دیر کرے گا تو خطرہ ہے کہ بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق نہ چھین لے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ»[8-الأنفال:24 ] ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشتی ہے (یعنی جہاد۔ اشرف الحواشی) اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے کی تاکید بہت سی آیات و احادیث میں آئی ہے۔ مثلاً فرمایا: «فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ»[5-المائدة:48 ] ”نیکیوں کی طرف آگے بڑھو۔“ اور فرمایا: «وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ»[3-آل عمران:133 ] ”اور جلدی کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں کے اور زمین کے برابر ہے۔“ ان کاموں میں نہ غور و فکر کی ضرورت ہے نہ مشورے کی نہ ہی استخارے کی: درکارِ خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 222
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2012
´سوچ سمجھ کر کام کرنے کا ذکر اور جلد بازی نہ کرنے کا بیان۔` سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوچ سمجھ کر کام کرنا اور جلد بازی نہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2012]
اردو حاشہ: نوٹ: (سندمیں ''عبد المھیمن بن عباس'' ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2012