تخریج: «أخرجه الحاكم:1 /60 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وأحمد:2 /118، والبخاري في الأدب المفرد، حديث:549.»
تشریح:
1. اس حدیث میں تکبر سے چلنے کو اللہ کی ناراضی اور غضب کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
2.سچی بات یہی ہے کہ یہ چال وہی لوگ چلتے ہیں جن کے دماغ میں بڑا ہونے کا خیال سمایا ہوتا ہے۔
3. علامہ نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تکبر یہ ہے کہ اپنے آپ کو بلند و بالا سمجھتے ہوئے لوگوں کو حقیر جانا جائے اور حق کا انکار کیا جائے۔
ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے زواجر میں کہا ہے کہ تعاظم اور تکبر دو طرح کا ہوتا ہے: ایک باطن اور دوسرا ظاہر۔
حدیث کا پہلا جملہ باطن کو اور دوسرا جملہ ظاہر کو بیان کر رہا ہے اور دونوں ہی کبیرہ گناہ ہیں اور شرعاً حرام ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔
(صحیح مسلم‘ الإیمان‘ باب تحریم الکبر و بیانہ‘ حدیث:۹۱)