اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ القمر میں) «تجري بأعيننا»”نوح کی کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے پانی پر تیر رہی تھی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: Q7407]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دجال کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ کانا نہیں ہے اور آپ نے ہاتھ سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اور دجال مسیح کی دائیں آنکھ کانی ہو گی، جیسے اس کی آنکھ پر انگور کا ایک اٹھا ہوا دانہ ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7407]
الله ليس بأعور ألا إن المسيح الدجال أعور العين اليمنى كأن عينه عنبة طافية وأراني الليلة عند الكعبة في المنام فإذا رجل آدم كأحسن ما يرى من أدم الرجال تضرب لمته بين منكبيه رجل الشعر يقطر رأسه ماء واضعا يديه على منكبي رجلين وهو يطوف بالبيت فقلت من هذا فق
الله تبارك و ليس بأعور ألا إن المسيح الدجال أعور عين اليمنى كأن عينه عنبة طافية قال وقال رسول الله أراني الليلة في المنام عند الكعبة فإذا رجل آدم كأحسن ما ترى من أدم الرجال تضرب لمته بين منكبيه رجل الشعر يقطر رأسه ماء واضعا يد
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3439
´دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا` «. . . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ " ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَيِ النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ أَلَا إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ . . .» ”. . . عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے، لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہو گی . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا : 3439]
� تخريج الحديث: [107۔ البخاري فى: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب واذكر فى الكتاب مريم 3439۔ مسلم 169] لغوی توضیح: «عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ» اٹھے ہوئے یا پھولے ہوئے انگور کے دانے کی مانند۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 107
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3440
´مسیح ابن مریم علیہ السلام` «. . . وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ رَجِلُ الشَّعَرِ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ . . .» ”. . . اور میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔ اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے، سر سے پانی ٹپک رہا تھا اور دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا: 3440]
� تخريج الحديث: [108۔ البخاري فى: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب ”واذكر فى الكتاب مريم“ 3440] لغوی توضیح: «لِمَّة» وہ بال جو کانوں کی لو سے تجاوز کر جائیں لیکن کندھوں تک نہ پہنچیں۔ اور جب کندھوں تک پہنچ جائیں تو انہیں «جمّه» کہا جاتا ہے۔ «قَطِطًا» سخت گھنگھریالے بال۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 108
الشيخ ابن الحسن محمدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3440
´سیدنا عیسیٰ بن مریم آسمان پر زندہ ہیں` «. . . مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ . . .» ”. . . میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3440]
فوائد و مسائل: سیدنا عیسیٰ بن مریم آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت جسد عنصری کے ساتھ آسمان سے زمین پر اتریں گے، یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔ اس پر متواتر احادیث اور ائمہ مسلیمن کی تصریحات موجود ہیں: اہل علم کی تصریحات اب نزول عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں کچھ اہل علم کی تصریحات بھی ملاحظہ فرمائیں: ◈ حافظ عبدالرحمٰن بن احمد، ابن رجب رحمہ اللہ (736۔ 795ھ) فرماتے ہیں: «وبالشام ينزل عيسى ابن مريم فى آخر الزمان، وهو المبشر بمحمد صلى الله عليه وسلم، ويحكم به، ولا يقبل من أحد غير دينه، فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير ويضع الجزية، ويصلي خلف إمام المسلمين، ويقول: إن هذه الأمة أئمة بعضهم لبعض .» ”قرب قیامت شام میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان ہی کے نزول کی خوشخبری دی گئی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گے، کسی سے اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور مسلمانوں کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے اور فرمائیں گے: اس امت کے بعض افراد ہی ان کے لیے امام ہیں۔“[لطائف المعارف، ص: 90]
◈ امام، ابوالحسن، علی بن اسماعیل، اشعری رحمہ اللہ (260۔ 324ھ) اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «ويصدقون بخروج الدجال، وان عيسى ابن مريم يقتله .» ” اہل سنت دجال کے خروج اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے اسے قتل کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: «وبكل ما ذكرنا من قولهم نقول، واليه نذهب .» ” اہل سنت کے جو اقوال ہم نے ذکر کیے ہیں، ہم بھی انہی کے مطابق کہتے ہیں اور یہی ہمارا مذہب ہیں۔“[مقالات الاسلاميّين واختلاف المصلين: 1/ 324]
◈ امام، ابومظفر، منصور بن محمد، سمعانی رحمه الله (426-489ھ) فرماتے ہیں: «وقال عليه الصلاة والسلام: رايت المسيح ابن مريم يطوف بالبيت .»[صحيح بخاري: 3440، صحيح مسلم: 169] «فدل على ان الصحيح انه فى الاحياء» ” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے (خواب میں) مسیح ابن مریم کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔“[صحيح بخاري: 3440، صحيح مسلم: 169] اس سے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔“[تفسير السمعاني: 325/1]
◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔ 852ھ) فرماتے ہیں: «ان عيسي قد رفع، وهو حي على الصحيح» ” سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا تھا اور صحیح قول کے مطابق وہ زندہ ہیں۔“[فتح الباري شرح صحيح البخاري: 375/6]
◈ شارح صحیح بخاری، علامہ، محمود بن احمد، عینی حنفی (762۔ 855ھ) لکھتے ہیں: «ولا شك ان عيسي فى السماء، وهو حي، ويفعل الله فى خلقه ما يشاء .» ”اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عیسٰی علیہ السلام آسمان میں ہیں اور زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہے کرتا ہے۔“[عمدة القاري: 24/ 160]
◈ حافظ، ابوفدا، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (700۔ 774ھ) فرماتے ہیں: «وهذا هو المقصود من السياق الإخبار بحياته الآن فى السماء، وليس الأمر كما يزعمه أهل الكتاب الجهلة أنهم صلبوه، بل رفعه الله إليه، ثم ينزل من السماء قبل يوم القيامة، كما دلت عليه الاحاديث المتواترة .» ” حدیث کے سیاق سے یہ خبر دینا مقصود ہے کہ اب عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں۔ جاہل اہل کتاب جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے دی تھی، تو ایسا بالکل نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھا لیا تھا۔ قیامت سے پہلے آپ آسمان سے تریں گے، جیسا کہ متواتر احادیث بتاتی ہیں۔“[البداية والنهاية: 19/ 218، طبعة دار هجر]
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 72، حدیث/صفحہ نمبر: 22
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4757
´خوارج کے قتل کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی لائق شان حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ”میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا نہ ہو، نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا، لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتا رہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ کانا ہو گا اور اللہ کانا نہیں ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4757]
فوائد ومسائل: دجال کا لفظ دجل سے اسم مبالغہ ہے اور معنی ہیں قیامت سے پہلے ایک شخص ظاہر ہو گا جو مختلف شعبدہ بازیوں سے لوگوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا اور اپنی الوہیت کا دعوی کرے گا۔ اس کا یہ فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہو گا۔ اس کی ظاہر علامات اور اس کے اعمال کا بیان احادیثکی سب کتب میں موجود ہے۔ آخر میں اس کا قتل سید نا حضرت عیسی ؑکے ہاتھوں سے ہو گا۔
1: دجال کا سب سے بڑا دجل اور فتنہ مختلف شعبدے دکھا کر اپنی الوہیت کا اقرارکرانا ہو گا۔
2: اللہ عزوجل صفت عین (آنکھ) سے وصوف ہے اور اس کی آنکھیں ہیں اور دجال کا عیب یہ بتایا گیا ہے کہ وہ داہنی آنکھ سے کانا ہو گا۔ وصف باری تعالی کی بابت قرآن مجید میں ہے: اللہ کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ بلا شبہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اللہ عزوجل کی تمام صفات پر ہم اہل السنتہ والجماعتہ کا ایمان ہے، ہم ان کو کوئی تاویل نہیں کرتے۔ ہم نہ ان کو معطل سمجھتے ہیں نہ انکار کرتے ہیں اور نہ تشبیہ دیتے ہیں، بلکہ یہ ویسی ہی ہیں جیسی اس کی ذات والاشان کے لائق ہیں ان کی حقیقت کی ٹوہ میں لگنا اور ان کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔ اس لیے کہ ہماری عقل اور ادارک اس کو پا ہی نہیں سکتے۔ ٹوہ لگانے سے محض پر یشان خیالی پیدا ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4757
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2235
´دجال کی نشانیوں کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی شان کے لائق اس کی تعریف کی پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے ڈرا رہا ہوں اور تمام نبیوں نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے، نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے، لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جسے کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی، تم لوگ اچھی طرح جان لو گے کہ وہ کانا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں“، زہری کہتے ہیں: ہمیں عمر بن ثابت انصاری نے خبر دی کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2235]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی دجال دنیا میں ربوبیت کا دعویدار ہوگا اور ساتھ ہی کانا بھی ہوگا، جب کہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ کو کوئی مرنے سے قبل دنیا میں نہیں دیکھ سکتا، وہ ہر عیب سے پاک ہے، دجال کے کفر سے وہی لوگ آگاہ ہوں گے جو اس کے عمل سے بیزار ہوں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2235
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 426
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کے سامنے مسیح دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے۔ خبردار رہنا! مسیح دجال کی دائیں آنکھ کانی ہے، گویا کہ وہ پھولا ہوا انگور ہے۔ ابنِ عمر ؓ نے کہا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے آج رات اپنے آپ کو خواب میں کعبہ کے پاس دیکھا، تو اچانک میری نظر ایک آدمی پر پڑی جو گندمی رنگ، انتہائی خوبصورت گندمی رنگ مرد جو کبھی تم نے دیکھا ہے، اس کے سر کے بال کندھوں کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:426]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس واقعہ میں مسیح دجال، آپ ﷺ کو زندگی کے اس مرحلہ میں طواف کرتے دکھایا گیا ہے جب کہ وہ اپنے آخری روپ میں نہیں تھا، جس دور میں اس کے لیے مکہ اور مدینہ میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ جب قیامت کے قریب اس کا ظہور ہوگا تو وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، اور عیسیٰؑ کو دیکھ کر نمک کی طرح پگھلے گا۔ اس لیے یہ حدیث اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کہ دجال مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، کیونکہ اس کا تعلق قرب قیامت سے ہے۔ (فتح الباري، بحوالہ فتح الملھم: 333)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 426
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7361
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کا نا نہیں ہے خبردار!مسیح دجال کی دائیں آنکھ کانی ہے، گویا آنکھ پھولا ہوا نگور ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7361]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مسیح دجال کی دونوں آنکھیں عیب دار ہیں، دائیں آنکھ پھولی ہوئی کانی ہے اور بائیں آنکھ ممسوح روشنی سے محروم ہے، اس لیے طافیتہ اگر دائیں ہے تو'' یا'' کے ساتھ ہے اگر بائیں ہے تو طافئہ، ہمزہ کے ساتھ ہے اور اس کی آنکھوں کے درمیان ك، ف، ر (کافر) لکھا ہوگا، اس وجہ سے ہر مومن آدمی اس کو شناخت کر لے گا، ابن صیاد میں بھی پھولی ہوئی آنکھ والی بات تھی، اس لیے بعض دفعہ اس کے بارے میں یہی دجال ہونے کا شبہ پیدا ہو جاتا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7361
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3057
3057. حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3057]
حدیث حاشیہ: : ترجمۃ الباب الفاظ اتشهد أني رسول اللہ سے نکلتا ہے کہ بچے کے سامنے اسلام میں طرح پیش کیا جائے‘ آنحضرتﷺ کو ابن صیاد سے چند باتیں دریافت کرنا منظور تھیں‘ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں یہ کہہ دوں کہ تو جھوٹا ہے رسول کہاں سے ہوا‘ تو شاید وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو‘ اس لئے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی پیغمبری کا انکار بھی نکل آیا۔ آنحضرتﷺ نے آیت ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾(الدخان: 10) کا تصور فرمایا تھا‘ ابن صیاد نے ”دخان“ کے لفظ سے صرف ”دخ“ بتلایا جیسے شیطانوں کی عادت ہوتی ہے۔ سنی سنائی ایک آدھ بات لے مرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے حقیقی دجال کے بارے میں بتلایا کہ وہ کانا ہو گا‘ یہ بڑے دجال کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے‘ جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ یہ دجال امت میں پیدا ہو چکے ہیں۔ ہندوستان پنجاب میں بھی ایک شخص نبوت کا مدعی بن کر کھڑا ہوا۔ جس نے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کر دیا اور اب تک اس کے مریدین ساری دنیا میں دجل پھیلانے میں مشغول ہیں جو بظاہر اسلام کا نام لیتے ہیں اور در پردہ اپنے فرضی نام نہاد رسول نبی کی رسالت کی تبلیغ کرتے ہیں اور بھی انہوں نے بہت سے غلط عقائد ایجاد کئے ہیں۔ جو سراسر قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔ علمائے اسلام نے بہت سی کتابوں میں اس فرقہ قادیانیہ کا قلع قمع کیا ہے۔ ہمارے مرحوم استاد حضرت مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری ؒنے بھی اس فرقہ کی تردید میں بے نظیر قلمی خدمات انجام دی ہیں۔ اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه وأکرم نزله آمین اس حدیث میں تین قصے ہیں۔ کتاب الجنائز میں یہ حدیث مفصل گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3057
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7127
7127. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے خبردار کرتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو، البتہ میں تمہیں اس کے متعلق ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ یہ ہے کہ وہ کانا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7127]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جتنے پیغمبر گزرے ہیں، سب نے اپنی اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ کانا ہونا ایک بڑا عیب ہے اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7127
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3057
3057. حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3057]
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث میں دجال کے متعلق تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری ؒ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اگر اقرارکر لے تو اس کا اسلام قبول ہو گا۔ کیونکہ ابن صیاد قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ــ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ “ آپ نے اس انداز سے اس پر اسلام پیش کیا کہ اگر وہ مان لیتا تو اس کا اسلام صحیح تھا۔ اگر بچے کا اسلام قبول نہ ہوتا تو آپ اس پر اسلام پیش نہ کرتے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے بطور امتحان اس سے چند سوال کیے تاکہ صحابہ کرام ؓ پر اس کا باطل ہونا واضح ہوجائے چنانچہ اس نے خود اقرار کیا کہ اس کے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو اس کے پاس صرف سچا فرشتہ ہی آتا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ﴾ کا تصور فرمایا ابن صیاد نے دخان کی بجائے صرف "دخ" بتایا جیسا کہ شیاطین کی عادت ہوتی ہے سنی ہوئی ایک آدھ بات لے اڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اسے جھوٹا نہیں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو سکے۔ اس لیے آپ نے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی رسالت کا پول بھی کھل گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3057
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3440
3440.۔ (اور آپ ﷺ نے فرمایا:)”اللہ تعالیٰ نے مجھے آج رات سوتے میں کعبہ کے قریب دکھایا، میں نے ایک شخص کودیکھا جو ایسے گندمی رنگ کاتھا کہ گندمی رنگ والوں میں اس سے بہتر کوئی اور شخص نہ تھا۔ اس کے سر کےبال کان کی لوسے نیچے لٹکے ہوئے دونوں شانوں کےدرمیان پڑے تھے۔ مگر وہ بال سیدھے تھے۔ اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔ میں نے کہا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نےبتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ؑ ہیں۔ پھر میں نے ان کے پیچھے ایک اورشخص کو دیکھا جو بہت سخت پیچ دار (گھنگریالے) بالوں والا، داہنی آنکھ سے کانا اور ابن قطن (کافر) سے بہت ملتا جلتا تھا، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ ایک شخص کے دونوں کندھوں پر رکھے کعبہ کاطواف کررہاتھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ مسیح دجال ہے۔“ عبیداللہ نے نافع سے بیان کرنے میں موسیٰ ؑ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3440]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حضرت عیسیٰ ؑ کا حلیہ بیان ہوا ہے کہ وہ لمبے بالوں والے تھے اور ان کے بال سیدھے تھے جبکہ پہلے (حدیث: 3438 میں) ان کی صفت: "جعد" بیان ہوئی ہے جو گھنگریالے بالوں کو کہا جاتا ہے۔ دراصل اس لفظ کے دو معنی ہیں: ایک بالوں کا وصف اوردوسرا جسم کا کہ وہ مضبوط اور گھٹا ہوا ہو۔ پہلی حدیث میں لفظ جعد سے بالوں کی نہیں بلکہ ان کے جسم کی صفت بیان ہوئی ہے۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا،حالانکہ حرم مکہ میں اس کا داخلہ ممنوع ہے۔ دراصل دجال کا داخلہ مکہ مکرمہ میں اس وقت حرام ہوگا جب وہ خروج کرکے الوہیت کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3440
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7123
7123. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(دجال) دائیں آنکھ سے کانا ہوگا وہ انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7123]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال بائیں آنکھ سے کانا اور گھنے بالوں والا ہو گا اس کے ہمراہ جنت اور آگ جنت اور اس کی جنت آگ ہو گی۔ “(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7366) 2۔ دراصل دجال کی دونوں آنکھیں عیب دار ہوں گی۔ روایات کے مطابق دائیں آنکھ کی روشنی بالکل نہیں ہو گی جیسا کہ صحیح بخاری کی مذکورہ روایت میں ہے اور بائیں آنکھ پر ناخن کی شکل کا سفید گوشت ہو گا جسے ناخونہ کہا جاتا ہے وہ آنکھ کو اندھا کر دیتا ہے وہ بیک وقت دونوں آنکھوں سے کانا ہو گا۔ دائیں آنکھ کی روشنی بالکل نہیں ہو گی اور بائیں آنکھ عیب دار ہو گی۔ (فتح الباري: 122/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7123
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7127
7127. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے خبردار کرتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو، البتہ میں تمہیں اس کے متعلق ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ یہ ہے کہ وہ کانا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7127]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے کانا ہونے کی خصوصیت سے بیان کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا وصف ہے جس کا ہر آدمی ادراک کر سکتا ہےحتی کہ جاہل آدمی سے بھی یہ عیب پوشیدہ نہیں ہوتا۔ دجال کے کذاب ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ وہ کانا ہو گا۔ یہ عیب بالکل نمایاں واضح ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب سے پاک ہے لہٰذا دجال ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرنے میں جھوٹا ہو گا پھر اس کی بے بسی کا حال یہ ہو گا کہ وہ پانے اس عیب کو کسی صورت میں بھی دور نہیں کر سکے گا۔ یہ ایک ایسی علامت ہے جس کے متعلق کسی نبی نے بھی اپنی امت کو آگا ہ نہیں کیا ہو گا۔ 2۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: "تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکے گا۔ " (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7356(159) اس کا مطلب یہ ہے اللہ رب العالمین کا دیدار اس دنیا میں ناممکن ہے لہٰذا دجال جو اپنے رب کا دعویدار ہے اور اسے تم اس دنیا میں دیکھ رہے ہو اس کے جھوٹے ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (فتح الباري: 120/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7127