حدیث حاشیہ: 1۔
اس آیت میں عذاب کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں:
۔
سماوی عذاب:
۔
مثلاً:
طوفان، بارش، کڑک بجلی کا گرنا، تیز آندھی آنا اور پتھروں کی بارش وغیرہ۔
۔
ارضی عذاب۔
مثلاً:
دریاؤں کا سیلاب، آتش فشاں پہاڑوں کا پھٹنا، زلزلے اور زمین میں دھنس جانا وغیرہ۔
۔
فرقہ بازی:
خواہ یہ مذہبی قسم کی ہو یا سیاسی یا قبائلی، یہ تینوں قسم کے عذاب پہلی امتوں پر آتے رہے ہیں، البتہ اس اُمت کے لیے پہلی دو قسم کے عذابوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جو قبول ہو گئی اور پہلی دو قسم کا عذاب اس اُمت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے نہیں آئے گا، البتہ جزوی طور پر آسکتا ہے۔
2۔
تیسری قسم کا عذاب امت میں موجود ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے مسلمانوں کو مغلوب قوم بنا رکھا ہے اور یہ عذاب سرکشی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کا نتیجہ ہے۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ذات باری تعالیٰ کے لیے
(وَجْهُ) کا اثبات کیا ہے لیکن اس کا چہرہ لوگوں کے چہرے جیسا نہیں۔
ایک حدیث میں ہے:
”اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے اس کے چہرے پر کبریائی کی چادر رکاوٹ ہے۔
“ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 448(180)
اگر اللہ تعالیٰ کبریائی کی چادر کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی کرنیں حد نگاہ تک ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 445(179)
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محترم چہرے کے طفیل اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
قرآنی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے صفت (وَجْهُ)
ثابت کرنے پر سلف صالحین کا اجماع ہے اس بنا پر صفت (وَجْهُ)
کو بلاتحریف، بلاتعطیل، بلاتکییف اور بلا تمثیل ثابت کرنا ضروری ہے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا حقیقی چہرہ ہے جو اس ذات باری تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔
اس صفت کو تسلیم کرنا، اس پر ایمان لانا گویا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 280/1)