حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3439
´دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا`
«. . . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ " ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَيِ النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ أَلَا إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ . . .»
”. . . عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے، لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہو گی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا : 3439]
� تخريج الحديث:
[107۔ البخاري فى: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب واذكر فى الكتاب مريم 3439۔ مسلم 169]
لغوی توضیح:
«عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ» اٹھے ہوئے یا پھولے ہوئے انگور کے دانے کی مانند۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 107
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3440
´مسیح ابن مریم علیہ السلام`
«. . . وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ رَجِلُ الشَّعَرِ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ . . .»
”. . . اور میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔ اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے، سر سے پانی ٹپک رہا تھا اور دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا: 3440]
� تخريج الحديث:
[108۔ البخاري فى: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب ”واذكر فى الكتاب مريم“ 3440]
لغوی توضیح:
«لِمَّة» وہ بال جو کانوں کی لو سے تجاوز کر جائیں لیکن کندھوں تک نہ پہنچیں۔ اور جب کندھوں تک پہنچ جائیں تو انہیں «جمّه» کہا جاتا ہے۔
«قَطِطًا» سخت گھنگھریالے بال۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 108
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3057
3057. حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3057]
حدیث حاشیہ:
:
ترجمۃ الباب الفاظ اتشهد أني رسول اللہ سے نکلتا ہے کہ بچے کے سامنے اسلام میں طرح پیش کیا جائے‘ آنحضرتﷺ کو ابن صیاد سے چند باتیں دریافت کرنا منظور تھیں‘ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں یہ کہہ دوں کہ تو جھوٹا ہے رسول کہاں سے ہوا‘ تو شاید وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو‘ اس لئے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی پیغمبری کا انکار بھی نکل آیا۔
آنحضرتﷺ نے آیت ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الدخان: 10)
کا تصور فرمایا تھا‘ ابن صیاد نے ”دخان“ کے لفظ سے صرف ”دخ“ بتلایا جیسے شیطانوں کی عادت ہوتی ہے۔
سنی سنائی ایک آدھ بات لے مرتے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے حقیقی دجال کے بارے میں بتلایا کہ وہ کانا ہو گا‘ یہ بڑے دجال کا ذکر ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے‘ جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔
یہ دجال امت میں پیدا ہو چکے ہیں۔
ہندوستان پنجاب میں بھی ایک شخص نبوت کا مدعی بن کر کھڑا ہوا۔
جس نے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کر دیا اور اب تک اس کے مریدین ساری دنیا میں دجل پھیلانے میں مشغول ہیں جو بظاہر اسلام کا نام لیتے ہیں اور در پردہ اپنے فرضی نام نہاد رسول نبی کی رسالت کی تبلیغ کرتے ہیں اور بھی انہوں نے بہت سے غلط عقائد ایجاد کئے ہیں۔
جو سراسر قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔
علمائے اسلام نے بہت سی کتابوں میں اس فرقہ قادیانیہ کا قلع قمع کیا ہے۔
ہمارے مرحوم استاد حضرت مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری ؒنے بھی اس فرقہ کی تردید میں بے نظیر قلمی خدمات انجام دی ہیں۔
اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه وأکرم نزله آمین اس حدیث میں تین قصے ہیں۔
کتاب الجنائز میں یہ حدیث مفصل گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3057
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7127
7127. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے خبردار کرتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو، البتہ میں تمہیں اس کے متعلق ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ یہ ہے کہ وہ کانا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7127]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جتنے پیغمبر گزرے ہیں، سب نے اپنی اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔
کانا ہونا ایک بڑا عیب ہے اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7127
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7407
7407. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس دجال کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی تم پر مخفی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کانا نہیں۔۔۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ فرمایا:۔۔۔۔ اور بلاشبہ مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا جیسے اس کی آنکھ پر ایک ابھر ہوا انگور کا دانہ ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7407]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ اس کی شان کےمطابق اس کی آنکھ ہےاور وہ بے عیب ہےجس کی تاویل جائز نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7407
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3057
3057. حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3057]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث میں دجال کے متعلق تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں۔
امام بخاری ؒ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اگر اقرارکر لے تو اس کا اسلام قبول ہو گا۔
کیونکہ ابن صیاد قریب البلوغ تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
ــ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
“ آپ نے اس انداز سے اس پر اسلام پیش کیا کہ اگر وہ مان لیتا تو اس کا اسلام صحیح تھا۔
اگر بچے کا اسلام قبول نہ ہوتا تو آپ اس پر اسلام پیش نہ کرتے۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے بطور امتحان اس سے چند سوال کیے تاکہ صحابہ کرام ؓ پر اس کا باطل ہونا واضح ہوجائے چنانچہ اس نے خود اقرار کیا کہ اس کے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔
اگر وہ حق ہوتا تو اس کے پاس صرف سچا فرشتہ ہی آتا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ﴾ کا تصور فرمایا ابن صیاد نے دخان کی بجائے صرف "دخ" بتایا جیسا کہ شیاطین کی عادت ہوتی ہے سنی ہوئی ایک آدھ بات لے اڑتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اسے جھوٹا نہیں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو سکے۔
اس لیے آپ نے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی رسالت کا پول بھی کھل گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3057
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3440
3440.۔ (اور آپ ﷺ نے فرمایا:) ”اللہ تعالیٰ نے مجھے آج رات سوتے میں کعبہ کے قریب دکھایا، میں نے ایک شخص کودیکھا جو ایسے گندمی رنگ کاتھا کہ گندمی رنگ والوں میں اس سے بہتر کوئی اور شخص نہ تھا۔ اس کے سر کےبال کان کی لوسے نیچے لٹکے ہوئے دونوں شانوں کےدرمیان پڑے تھے۔ مگر وہ بال سیدھے تھے۔ اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔ میں نے کہا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نےبتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ؑ ہیں۔ پھر میں نے ان کے پیچھے ایک اورشخص کو دیکھا جو بہت سخت پیچ دار (گھنگریالے) بالوں والا، داہنی آنکھ سے کانا اور ابن قطن (کافر) سے بہت ملتا جلتا تھا، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ ایک شخص کے دونوں کندھوں پر رکھے کعبہ کاطواف کررہاتھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ مسیح دجال ہے۔“ عبیداللہ نے نافع سے بیان کرنے میں موسیٰ ؑ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3440]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت عیسیٰ ؑ کا حلیہ بیان ہوا ہے کہ وہ لمبے بالوں والے تھے اور ان کے بال سیدھے تھے جبکہ پہلے (حدیث: 3438 میں)
ان کی صفت:
"جعد" بیان ہوئی ہے جو گھنگریالے بالوں کو کہا جاتا ہے۔
دراصل اس لفظ کے دو معنی ہیں:
ایک بالوں کا وصف اوردوسرا جسم کا کہ وہ مضبوط اور گھٹا ہوا ہو۔
پہلی حدیث میں لفظ جعد سے بالوں کی نہیں بلکہ ان کے جسم کی صفت بیان ہوئی ہے۔
2۔
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا،حالانکہ حرم مکہ میں اس کا داخلہ ممنوع ہے۔
دراصل دجال کا داخلہ مکہ مکرمہ میں اس وقت حرام ہوگا جب وہ خروج کرکے الوہیت کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3440
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7123
7123. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(دجال) دائیں آنکھ سے کانا ہوگا وہ انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7123]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دجال بائیں آنکھ سے کانا اور گھنے بالوں والا ہو گا اس کے ہمراہ جنت اور آگ جنت اور اس کی جنت آگ ہو گی۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7366)
2۔
دراصل دجال کی دونوں آنکھیں عیب دار ہوں گی۔
روایات کے مطابق دائیں آنکھ کی روشنی بالکل نہیں ہو گی جیسا کہ صحیح بخاری کی مذکورہ روایت میں ہے اور بائیں آنکھ پر ناخن کی شکل کا سفید گوشت ہو گا جسے ناخونہ کہا جاتا ہے وہ آنکھ کو اندھا کر دیتا ہے وہ بیک وقت دونوں آنکھوں سے کانا ہو گا۔
دائیں آنکھ کی روشنی بالکل نہیں ہو گی اور بائیں آنکھ عیب دار ہو گی۔
(فتح الباري: 122/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7123
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7127
7127. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے خبردار کرتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو، البتہ میں تمہیں اس کے متعلق ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: وہ یہ ہے کہ وہ کانا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7127]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے کانا ہونے کی خصوصیت سے بیان کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا وصف ہے جس کا ہر آدمی ادراک کر سکتا ہےحتی کہ جاہل آدمی سے بھی یہ عیب پوشیدہ نہیں ہوتا۔
دجال کے کذاب ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ وہ کانا ہو گا۔
یہ عیب بالکل نمایاں واضح ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب سے پاک ہے لہٰذا دجال ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرنے میں جھوٹا ہو گا پھر اس کی بے بسی کا حال یہ ہو گا کہ وہ پانے اس عیب کو کسی صورت میں بھی دور نہیں کر سکے گا۔
یہ ایک ایسی علامت ہے جس کے متعلق کسی نبی نے بھی اپنی امت کو آگا ہ نہیں کیا ہو گا۔
2۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
"تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکے گا۔
" (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7356(159)
اس کا مطلب یہ ہے اللہ رب العالمین کا دیدار اس دنیا میں ناممکن ہے لہٰذا دجال جو اپنے رب کا دعویدار ہے اور اسے تم اس دنیا میں دیکھ رہے ہو اس کے جھوٹے ہونے کی واضح دلیل ہے۔
(فتح الباري: 120/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7127