ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حفصہ نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے میرے سامنے سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت پڑھی «أن لا يشركن بالله شيئا» یہ کہ ”وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی“ آخر تک۔ اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ سے منع کیا پھر ہم میں سے ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ فلاں عورت نے کسی نوحہ میں میری مدد کی تھی (میرے ساتھ مل کر نوحہ کیا تھا) اور میں اسے اس کا بدلہ دینا چاہتی ہوں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں کہا، پھر وہ گئیں اور واپس آئیں (میرے ساتھ بیعت کرنے والی عورتوں میں سے) کسی عورت نے اس بیعت کو پورا نہیں کیا، سوا ام سلیم اور ام العلاء اور معاذ رضی اللہ عنہم کی بیوی ابوسبرہ کی بیٹی کے یا ابوسبرہ کی بیٹی اور معاذ کی بیوی کے اور سب عورتوں نے احکام بیعت کو پورے طور پر ادا نہ کر کے بیعت کو نہیں نبھایا۔ غفر اللہ لھن اجمعین۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ/حدیث: 7215]
نهانا عن النياحة فقبضت امرأة منا يدها فقالت فلانة أسعدتني وأنا أريد أن أجزيها فلم يقل شيئا فذهبت ثم رجعت فما وفت امرأة إلا أم سليم وأم العلاء وابنة أبي سبرة امرأة معاذ أو ابنة أبي سبرة وامرأة معاذ
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7215
حدیث حاشیہ: روایت میں ہاتھ کھینچنے سے مراد یہ ہے کہ بیعت کی شرطیں قبول کرنے میں اس نے توقف کیا۔ بیعت پر قائم رہنے والی وہ پانچ عورتیں یہ ہیں۔ ام سلیم اور ام العلاء‘ ابی سبرہ کی بیٹی اور معاذ کی عورت اور ایک عورت اور یہ سب نوحہ کرنے سے رک گئیں۔ یہ راوی کا شک ہے کہ ابو سبرہ کی بیٹی وہ معاذ کی جورو تھی یا معاذ کی جورو اس کے سوا تھی۔ حافظ نے کہا صحیح یہ ہے کہ صحیح واؤ عطف کے ساتھ ہے کیونکہ معاذ کی جورو ام عمر رضی اللہ عنہ بنت خلاد تھی۔ نسائی کی روایت میں صاف یوں ہے آپ نے فرمایا جا اس کا بدلہ کرآ وہ گئی پھر آئی اور آپ سے بیعت کی شاید یہ نوحہ اس قسم کا نہ ہو گا جو قطعاً حرام ہے یا یہ اجازت خاص طور سے اس عورت کے لیے ہو کی بعض مالکیہ کا یہ قول ہے کہ نوحہ حرام نہیں ہے مگر نوحہ میں جاہلیت کے افعال حرام ہیں جیسے کپڑے پھاڑنا‘ منہ یا بدن نوچنا‘ خاک اڑانا۔ بعضوں نے کہا اس وقت تک نوحہ حرام نہیں ہوا تھا۔ قسطلانی نے کہا صحیح یہ ہے کہ پہلے نوحہ جائز تھا پھر مکروہ تنزیہی ہوا پھر مگر وہ تحریمی۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7215
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7215
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی اجنبی اور غیر محرم عورت کو نہیں چھوا لیکن جب بیعت کے لیے عہدوپیمان لیتے اور وہ اس عہد کی پابندی کرلیتی تو فرماتے: ”جاؤ، میں نے تم سے بیعت کرلی ہے۔ “(صحیح مسلم، الأمارة، حدیث: 4835(1866) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ہوں۔ “(سنن نسائي، البیعة، حدیث: 4186) جس آیت کا حدیث میں ذکر ہے اس کا پورا ترجمہ یہ ہے: ”اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بعیت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کوقتل کریں گی، اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی نیک امر میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی توآپ ان سے بیعت کرلیں اور ان کے لیے اللہ سے معافی مانگیں۔ اللہ تعالیٰ یقیناً بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ “(الممتحنة: 12/60) 2۔ حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ بنت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے آئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عہد لیا کہ وہ بدکاری نہیں کریں گی۔ اس نے حیا کرتے ہوئے اپنا ہاتھ سرپررکھ لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اللہ کی بندی! بیعت کرلو، اللہ کی قسم! ہم نے اسی بات پر بیعت کی تھی۔ اس نے کہا: تب میں بھی بیعت کرتی ہوں۔ (مسندأحمد: 151/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7215
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 475
´مرنے والوں پر نوحہ، بین، چیخنا، واویلا، منہ نوچنا وغیرہ حرام افعال ہیں` ”سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے موقع پر یہ عہد لیا تھا کہ ہم میت پر نوحہ نہیں کریں گی۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 475]
فوائد و مسائل: اس سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ مرنے والوں پر نوحہ اور بین کرنا، چیخنا لانا، واویلا کرنا، گریباں چاک کرنا اور منہ نوچنا وغیرہ حرام افعال ہیں۔ ➋ غم سے آنکھوں کا اشک بار ہونا اور آنسووں کا بےاختیار بہہ نکلنا حرام نہیں، گویا آنکھوں کا فعل حرام نہیں بلکہ زبان کا فعل حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 475
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2163
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے ساتھ یہ عہد بھی لیاکہ ہم نوحہ نہیں کریں گی لیکن ہم میں سے کسی عورت نے پانچ عورتوں، ام سلیم، ام العلاء، معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ابوسبرہ کی بیٹی معاذ کی بیوی، یا ابوسبرہ کی بیٹی اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کے سوا کسی نے اس عہد کا حق ادا نہیں کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2163]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ابوسبرۃ کی بیٹی الگ عورت ہے۔ کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کا نام تو ام عمرو بنت خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔ اور پانچویں عورت خود ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےساتھ بیعت کرنے والی عورتوں میں سے انہیں پانچ نے اس عہد کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اور ان کے علاوہ اور بے شمار مسلمان عورتوں نے بھی نوحہ ترک کردیا تھا۔ لیکن کچھ عورتین ان میں کچھ کمزوری تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2163
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1306
1306. حضرت اُم عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نبی ﷺ نے ہم سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی۔ مگر اس عہد کو صرف پانچ عورتوں نے پورا کیا، یعنی اُم سلیم ؓ، ام علاء، ابو سبرہ ؓ کی بیٹی جو معاذ کی بیوی تھیں اور مزید دو عورتیں یا یوں کہا کہ ابو سبرہ کی دختر، معاذ کی زوجہ اور ایک کوئی دوسری عورت۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1306]
حدیث حاشیہ: حدیث کے راوی کو یہ شک ہے کہ یہ ابوسبرہ کی وہی صاحبزادی ہیں جو معاذ ؓ کے گھر میں تھیں یا کسی دوسری صاحبزادی کا یہاں ذکر ہے اور معاذ کی جو بیوی اس عہد کا حق ادا کرنے والوں میں تھیں وہ ابوسبرہ کی صاحبزادی نہیں تھیں۔ معاذ کی جورو ام عمرو بنت خلاد تھی۔ آنحضرت ﷺ وقتاً فوقتاً مسلمان مردوں‘ عورتوں سے اسلام پر ثابت قدمی کی بیعت لیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ ﷺ نے عورتوں سے خصوصیت سے نوحہ نہ کرنے پر بھی بیعت لی۔ بیعت کے اصطلاحی معنی اقرار کرنے کے ہیں۔ یہ ایک طرح کا حلف نامہ ہوتا ہے۔ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جن کا تفصیلی بیان اپنے موقع پر آئے گا۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو پھر بھی کمزوریوں کا مسجمہ ہے۔ صحابیات کی شان مسلم ہے پھر بھی ان میں بہت سی خواتین سے اس عہد پر قائم نہ رہا گیا جیسا کہ مذکور ہوا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1306
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4892
4892. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ ”وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔۔“ اور ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔ (آپ کی اس ممانعت پر) ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ فلاں عورت نے (نوحہ کرنے میں) میری مدد کی تھی، اب میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں۔ نبی ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس لوٹ آئی تو آپ ﷺ نے اسے بیعت کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4892]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو اجازت دی۔ یہ ایک خاص حکم تھا جو حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو دیا گیا ورنہ نوحہ عموماً حرام ہے اس کی حرمت میں احادیث صحیحہ وارد ہیں اور بعض مالکیہ کا قول ہے کہ نوحہ حرام بلکہ شاذ اور مردود ہے۔ قسطلانی نے کہا پہلے نوحہ مباح تھا پھر مکروہ تنزیہی ہوا پھر حرام ہوا اور ممکن ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے بیعت کرتے وقت مکروہ تنزیہی ہوا، اس لئے آپ نے اجازت دی ہو، اس کے بعد حرام ہو گیا ہو۔ حافظ نے کہا نوحہ کرنا مطلقاً حرام ہے اور یہی تمام علماء کا مذہب ہے تو ﴿وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ﴾ سے یہ مراد ہوگا کہ نوحہ نہ کریں یا غیر مرد کریں یا شوہروں کی نا فرمانی نہ کریں اگر یہ معنی ہو کہ اچھی بات میں تیری نا فرمانی نہ کریں تب تو عورتوں مردوں سب کے لئے یہ حکم عام ہوگا جیسے آگے کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لیلۃ العقبہ میں انصار سے انہیں شرطوں پر بیعت لی تھی اور انصار کے ہر مرد و عورت نے بخوشی ان شرطوں پر بیعت کر کے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ہم شرطوں سے پھرنے والے اور بیعت سے منہ موڑنے والے نہیں ہیں، اللہ پاک انصار کو ان کی وفا داری کی بہترین جزائیں بخشے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4892
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1306
1306. حضرت اُم عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نبی ﷺ نے ہم سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی۔ مگر اس عہد کو صرف پانچ عورتوں نے پورا کیا، یعنی اُم سلیم ؓ، ام علاء، ابو سبرہ ؓ کی بیٹی جو معاذ کی بیوی تھیں اور مزید دو عورتیں یا یوں کہا کہ ابو سبرہ کی دختر، معاذ کی زوجہ اور ایک کوئی دوسری عورت۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1306]
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث میں نوحہ خوانی پر بڑی سخت وعید اور زجروتوبیخ ہے، کیونکہ پہلی حدیث میں نوحہ کرنے والی عورتوں کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم ہے۔ اس سے مراد حقیقتا مٹی ڈالنا ہو سکتا ہے جیسا کہ حدیث (1304) میں حضرت عمر ؓ کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ نوحہ کرنے والی عورتوں کو پتھر مارتے اور ان کے منہ میں مٹی ڈالتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ان عورتوں کو نامراد قرار دینا ہو، کیونکہ ناکام آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں مٹی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (2) مصیبت کے وقت نوحہ خوانی یا سینہ کوبی کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس امتناعی حکم کے لیے خواتین اسلام سے بیعت لیتے تھے، جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے جاہلی نوحہ و ماتم نہ کرنے کا عہد لیا تھا، مگر پانچ عورتوں کے علاوہ کسی نے بھی اس عہد کو پورا نہ کیا۔ اس سے مراد صرف وہ عورتیں ہیں جنہوں نے حضرت ام عطیہ ؓ کے ساتھ اس وقت بیعت کی تھی۔ ان کے نام یہ ہیں: ام سلیم، ام العلاء، ام کلثوم، ام عمرو اور ہند بنت سہل۔ ممکن ہے کہ ان میں ام عطیہ ؓ بھی شامل ہوں کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ میرے اور ام سلیم کے علاوہ کسی نے بھی اس عہد کو پورا نہیں کیا۔ لیکن ایک روایت میں وہ خود فرماتی ہیں کہ حرہ کے دن انہوں نے صحابہ کرام ؓ کی شہادت پر نوحہ کیا تھا، اس لیے وہ خود کو ان میں شمار نہ کرتی تھیں۔ ممکن ہے کہ حرہ کے واقعہ تک خود کو شامل کرتی ہوں اور اس کے بعد وہ اس کی پاسداری نہ کر سکی ہوں۔ (فتح الباري: 226/3) والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1306
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4892
4892. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ ”وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔۔“ اور ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔ (آپ کی اس ممانعت پر) ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ فلاں عورت نے (نوحہ کرنے میں) میری مدد کی تھی، اب میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں۔ نبی ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس لوٹ آئی تو آپ ﷺ نے اسے بیعت کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4892]
حدیث حاشیہ: 1۔ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان کا ہاتھ پکڑنا یا ان سے مصافحہ کرنا جائز نہیں، البتہ مردوں سے بیعت لیتے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا درست ہے۔ پہلے ایک حدیث میں اس امر کی وضاحت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کرتے وقت کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا۔ آپ ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4891) 2۔ ویسے تو عورت کا میت پر رونا دھونا اور اس کے محاسن بیان کرنا نوحہ کہلاتا ہے لیکن اسلام میں دو مزید چیزیں بھی نوحے میں شامل ہیں۔ ایک یہ کہ کسی خاص گھر یا مسجد میں تعزیت کے لیے جمع ہونا۔ دوسرا یہ کہ میت کے گھر والوں کی طرف سے تعزیت کے لیے آنے والوں کا کھانا تیار کرنا چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ الجبلی فرماتے ہیں اہل میت کے گھر جمع ہونے اور دفن کے بعد ان کے ہاں کھانا تیار کرنے کو ہم نوحہ شمار کرتے تھے۔ (مسند أحمد: 204/2) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ خوانی کو دور جاہلیت کی یاد قراردیتے ہوئے فرمایا ہے۔ ” نوحہ کرنے والی اگر توبہ کرنے سے پہلے مرجائے تو قیامت کے دن اسے گندھک کی قمیص اور خارش کی اوڑھنی پہنائی جائے گی۔ “(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2160۔ (934)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4892