اور ابن سیرین نے بیان کیا کہ علماء، جانور کے لات مار دینے پر تاوان نہیں دلاتے تھے لیکن اگر کوئی لگام موڑتے وقت جانور کو زخمی کر دیتا تو سوار سے تاوان دلاتے تھے اور حماد نے کہا کہ لات مارنے پر تاوان نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی شخص کسی جانور کو اکسائے (اور اس کی وجہ سے جانور کسی دوسرے کو لات مارے) تو اکسانے اولے پر تاوان ہو گا۔ شریح نے کہا کہ اس صورت میں تاوان نہیں ہو گا جبکہ بدلہ لیا ہو کہ پہلے اس نے جانور کو مارا اور پھر جانور نے اسے لات سے مارا۔ حکم نے کہا اگر کوئی مزدور کسی گدھے کو ہانک رہا ہو جس پر عورت سوار ہو پھر وہ عورت گر جائے تو مزدور پر کوئی تاوان نہیں اور شعبی نے کہا کہ جب کوئی جانور ہانک رہا ہو اور پھر اسے تھکا دے تو اس کی وجہ سے اگر جانور کو کوئی نقصان پہنچا تو ہانکنے والا ضامن ہو گا اور اگر جانور کے پیچھے رہ کر اس کو (معمولی طور سے) آہستگی سے ہانک رہا ہو تو ہانکنے والا ضامن نہ ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: Q6913]
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے محمد بن زیاد سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بےزبان جانور کسی کو زخمی کرے تو اس کی دیت کچھ نہیں ہے، اسی طرح کان میں کام کرنے سے کوئی نقصان پہنچے، اسی طرح کنویں میں کام کرنے سے اور جو کافروں کا مال دفن کیا ہوا ملے اس میں پانچواں حصہ سرکار میں لیا جائے گا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 6913]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6913
حدیث حاشیہ: (1) حیوانات کے نقصان کا تاوان حسب ذیل طریقے سے ہوگا: ٭اگر کسی کا جانور اچانک کھل گیا اور کسی کا کھیت چر گیا تو نقصان کا تاوان جانور کے مالک سے نہیں لیا جائے گا۔ ٭ اگر اس نے قصداً کھولا یا اس کو کھل جانے کا علم ہوا لیکن اس نے باندھنے کی کوشش نہیں کی یا چرواہا ساتھ تھا مگر اس کے باوجود کھیت چر گیا تو مالک سے تاوان لیا جائے گا۔ ٭کوئی شخص اپنے جانور عام راستے سے لے جا رہا تھا، اس دوران میں جانوروں نے کسی کا کھیت کچل دیا یا اس میں بیٹھنے سے بہت سے پودے ضائع ہو گئے تو مالک کو نقصان کا تاوان دینا ہوگا۔ ٭اگر لات چلانے، پیر جھاڑنے یا دم ہلانے سے کوئی نقصان ہوا تو اس صورت میں تاوان نہیں لیا جائے گا کیونکہ یہ جانور کی فطرت ہے، اس سے جانور کو روکا نہیں جا سکتا۔ ٭اگر کوئی جانور لوگوں کو سینگ مارتا ہے یا کسی نے کتا پالا جولوگوں کو کاٹتا ہے، اسے تنبیہ کی گئی کہ اپنے جانور یا کتے کو قابو کرو، اس نے سستی سے کام لیا تو اس صورت میں جانور کے مارنے یا کتے کے کاٹنے سے نقصان کا تاوان دینا پڑے گا۔ ٭ بکریوں کے دو چرواہے ہیں ایک آگے اور دوسرا پیچھے، اس صورت میں جو نقصان ہوگا وہ دونوں سے لیا جائے گا۔ (2) بے جان سواریوں، مثلاً: سائیکل، موٹر سائیکل، بس، ویگن، ریل اور ہوائی جہاز کا حکم بھی مندرجہ بالا صورتوں کے مطابق ہوگا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6913
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 290
´چوپایہ کسی آدمی کا نقصان کر دے تو مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”جرح العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار. وفي الركاز الخمس.“» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چوپایہ جانور (اگر نقصان کرے تو) رائیگاں ہے (اس کا کوئی بدلہ نہیں) کنویں اور معدنیات کا بھی یہی حکم ہے اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ (اللہ کے لئے نکالنا) ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 290]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ868/2، 869، ح 1687، ك 43 ب 18 ح 12، التمهيد 19/7، الاستذكار: 1616 ● و أخرجه البخاري 1499، ومسلم1710، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اگر چوپایہ جانور کسی آدمی کا نقصان کر دے تو اس کے مالک سے بدلہ نہیں لیا جائے گا بشرطیکہ اس نقصان میں جانور کے مالک کی کوتاہی اور شرارت کا دخل نہ ہو۔ ابن محیصہ الانصاری رحمہ اللہ (ثقہ تابعی) سے باسند صحیح مروی ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے کسی کے باغ کو نقصان پہنچایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن کو حفاظت کرنا، مال (اور زمین) کے مالکوں کا کام ہے اور رات کو حفاظت کرنا جانوروں کے مالکوں کا کام ہے۔ [سنن ابن ماجه: 2332] ● اگر حرام بن سعد بن محیصہ نے یہ روایت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے تو سند صحیح ہے ورنہ مرسل (ضعیف) ہے۔ اس وجہ سے اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ ➋ اگر کوئی آدمی کسی شخص کے کنویں میں گر جائے تو کنویں کے مالک پر کوئی جرمانہ اور تاوان نہیں ہے بشرطیکہ کنویں کے مالک کا اس کے گرنے یا گرانے میں کوئی ہاتھ نہ ہو۔ ➌ اگر کسی شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفن شدہ خزانہ مل جائے تو وہ اس سے زکوٰۃ کے بجائے پانچواں حصہ (خُمُس) نکال کر اللہ کے راستے میں (خلیفہ کے بیت المال یا نصاب زکوٰاۃ کی آٹھ قسموں میں) صرف کرے گا۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 19
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 502
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”معدنیات میں خمس یعنی پانچواں حصہ ہے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 502]
لغوی تشریح: «وَفِي الرِّكَازِ» اس میں ”واؤ“ پہلے جملے پر عطف کے لیے ہے اور وہ جملہ ہے: «اَلْعَجُمَاءُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعُدِنٌ جُبَارٌ» مصنف نے اختصار کے پیش نظر اتنا حصہ چھوڑدیا ہے۔ اور «اَلرِّكَاز» کے ”را“ کے نیچے کسرہ ہے۔ اس سے مراد جاہلیت کے زمانے کا زمین میں مدفون خزانہ جو بغیر کسی کثیر عمل و مشقت کے حاصل ہو۔ ٘ «اَلْخُمُسُ»”خا“ اور ”میم“ دونوں پر ضمہ ہے۔ کسی چیز کے پانچ برابر حصے کئے جائیں تو ان میں سے ایک پانچواں حصہ (خمس) کہلاتا ہے۔ اور یہ مبتدا مؤخر ہے اور اس کی خبر پہلا جملہ «فَي الرِّكَازِ» ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز کے مال میں زکاۃ نہیں بلکہ اس کی حیثیت اموال غنیمت کی سی ہے اور اس میں «خُمُس» واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی تمام مال کا مالک وہ شخص ہو گا جسے یہ خزانہ ملے۔
فائدہ: مدفون خزانہ اگر کسی انسان کو مل جائے تو جس وقت ملے اسی وقت اس میں سے خمس، یعنی کل مال کا پانچواں حصہ فی سبیل اللہ تقسیم کر دے۔ اس میں زکاۃ نہیں بلکہ زکاۃ سے کئی گنا زیادہ، یعنی کل مال میں سے بیس فیصد اللہ کی راہ میں بانٹنا ہے۔ رکاز ملنے کی صورت میں، اس میں سے صدقہ خیرات کرنے کی مقدار اس لیے زیادہ ہے کہ یہ مال بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتا ہے۔ «والله اعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 502
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2497
´کان کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنوئیں میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے، کان میں کوئی دب کر مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎ اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2497]
اردو حاشہ: (1) عجماء کے معنیٰ ہیں: گونگا۔ چونکہ جانور ہمارے لحاظ سے بے زبان ہیں، لہٰذا انھیں عجماء یا گونگے ہی کہا جاتا ہے۔ جانور مالک سے بھاگ جائے یا چرتے پھرتے کوئی نقصان کر دے، مثلاً کسی کو سینگ مار دے یا ٹانگ لگا دے یا کوئی اس سے گر پڑے اور زخم آجائے تو جانور کے مالک پر کوئی تاوان نہ ڈالا جائے گا کیونکہ جانور ان مسائل میں بے سمجھ ہیں اور مالک پاس نہیں، یا اگر ہو بھی تو اس کا کوئی قصور نہیں، البتہ اگر اس نقصان میں مالک کا کوئی دخل ہو، مثلاً اس نے خود جانور کو کسی کے پیچھے لگایا یا روکنے کی کوشش ہی نہیں کی یا عادی نقصان پہنچانے والا جانور قصداً کھلا چھوڑا (مثلاً: کاٹنے والا کتا یا کوئی درندہ رکھا اور کھلا چھوڑا) تو اس پر نقصان کا تاوان ڈالا جا سکتا ہے ہے۔ اسی طرح اگر جانور رات کو کھلا چھوڑ دے اور وہ کسی کی فصل پر چر جائے یا دن کے وقت اس کی موجودگی میں جانور کسی کی فصل چر جائے تو وہ نقصان بھی جانور کے مالک کے ذمے ہوگا۔ (2) کان یا کنواں کھودتے وقت یا اس میں کام کرتے وقت کوئی شخص کان یا کنواں گرنے سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔ اسی طرح کوئی شخص کان یا کنویں میں گر کر زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک سے کوئی تاوان وصول نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ اس کا کوئی جرم ثابت ہوا۔ (3) بعض کا کہنا ہے کہ مدفون خزانہ کسی سرکاری جگہ سے ملے تو بیت المال کو خمس ادا کیا جائے گا، باقی اس کو جسے ملا۔ اگر اپنی ذاتی جگہ سے ملا تو اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ جونسی بھی زمین ہو، مدفون خزانہ ملنے پر خمس ادا کیا جائے گا۔ حدیث میں کسی خاص زمین کا تعین نہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2497
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4593
´اگر بے زبان جانور کسی کو زخمی کر دے اور آدمی کان یا کنواں اپنی زمین میں کھدوائے اور اس میں کوئی مر جائے تو ان چیزوں میں تاوان لازم نہ ہو گا۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4593]
فوائد ومسائل: 1: جانور بے شعور اور ناسمجھ مخلوق ہے، اس کے کاٹ کھانے یا لات مار دینے میں اس مالک کا قصور نہیں، الا جب وہ اس کے قریب ہو اور اس کو ضبط رکھنے پر قادر ہو، یا یقین ہو کہ لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پھر بھی وہ اسے کھلا چھوڑ دے۔ امام ابو داودؒ کے قوم کا یہی مفہوم ہے۔
2: مزدور کو جب معلوم ہو کہ اس نے معدنی کان میں کام کرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اسی طرح کسی اور جگہ پت چڑھنا ہے اور وہ اپنی رضا مندی سے کام کرے تو اتفاقی حادثہ کی وجہ سے مالک قصوروارنہیں ہو گا۔
3: اپنی زمین میں کسی نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں جا گرے تو مالک کا کوئی قصور نہیں سمجھا جائے گا، بخلاف اس کے کہ کسی عام گزرگاہ پر کھودے یا پھر اس پر باڑا وغیرہ نہ لگائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4593
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4594
´پھیل جانے والی آگ کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ باطل ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4594]
فوائد ومسائل: اگر کسی نے اپنی زمین یا گھر وغیرہ میں آگ جلائی اور پھر وہ پھیل گئی یا کوئی چنگاری اڑ کر دوسرے کا نقصان کر گئی تو آگ جلانے والا اس کا ذمہ دا ر نہ سمجھا جائے گا، الا یہ کوئی واضح قصور ہو مثلا اپنا کام کرکے اسے ویسے ہی چھوڑ دیا اور بھجایا یا دبایا نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4594
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2676
´جن چیزوں میں نہ دیت ہے نہ قصاص ان کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ بیکار ہے، اور کنواں بیکار ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2676]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہدر کے معنی رائیگاں ہونا، بیکار، لغو، بے فائدہ اور بے مقصد ہوجانا، اسی طرح رائیگاں کرنا، بے کار اور بے مقصد بنانا ہیں، یعنی یہ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ مویشی کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا جانور چھوٹ کر بھاگ جائے اور اسی اثنامیں کسی کو زخمی کردے یا ہلاک کردے تو جانور کےمالک پر اس کی ذمے داری نہیں ہوگی۔ اس سے قصاص یا دیت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
(2) معدنی چیزیں نکالنے کے لیے جو کان کھودی جاتی ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مزدور کان میں کام کررہا ہے کہ اوپر سے پتھرگرا ہی پیچھے سے پتھر گر کر راستہ بے ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مزدور فوت ہو گیا اس صوورت میں کام کا مالک قاتل شمار نہیں ہوگا۔ اس پر قتل خطا والی دیت بھی لازم نہیں ہوگی۔
(3) کنویں کے ہدر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش میں کنویں میں گرپڑے یا کوئی اور ایسا حادثہ پیش آ جائے تو کنویں کا مالک ذمے دار نہیں ہوگا۔
(4) آگ ہدر ہونے کی یہ صورت ہے کہ ایک شخص نے اپنی کسی ضرورت سے آگ جلائی، ہوا سے اس کی چنگاریاں اڑکر کسی کی چیز پر پڑگئیں جن کو روکنا آگ جلانے والے کے بس میں نہ تھا۔ اس صورت میں آگ سے پہنچنے والے نقصان کی ذمے داری آگ جلانے والے پر نہیں ہوگی، اور اس سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2676
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 642
´جانوروں کا زخم رائیگاں ہے یعنی اس میں تاوان نہیں اور مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ۲؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا“۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 642]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہو گی۔
2؎: یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔
3؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے، اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے، اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے، رہا معدن (کان) تووہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی، جمہور کی یہی رائے ہے، حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 642
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1377
´چوپائے اگر کسی کو زخمی کر دیں تو اس کے زخم کے لغو ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بےزبان (جانور) کا زخم رائیگاں ہے، کنویں اور کان میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎، اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے۔“ مؤلف نے اپنی سند سے بطریق «عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1377]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: یعنی ان کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1377
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4465
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیوان کا زخمی کرنا رائیگاں ہے اور کنویں سے نقصان کا تاوان نہیں ہے اور کان سے پہنچنے والے نقصان کا ڈنڈ نہیں ہے اور جاہلیت کے دفینہ پر پانچواں حصہ ادا کرنا ہو گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4465]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) العَجمَاءُ: أَعجَم کا مونث ہے، چوپایہ، حیوان۔ (2) جَراحٌ: زخمی کرنا۔ (3) جَرحٌ، جُرحٌ: زخم، مقصد حیوان کا نقصان پہنچانا وہ زخم کی صورت میں ہو یا کسی اور طرح۔ (4) جُبَارٌ: رائیگاں ہے، اس پر معاوضہ یا تاوان نہیں ہے، الركاز: جاہلیت کا دفینہ۔ فوائد ومسائل: (1) حیوان سے پہنچنے والا نقصان رائیگاں ہے، حیوان اگر کسی کا نقصان کرتا ہے، شخصی طور پر اس کو زخمی کرتا ہے یا اس کا مالی نقصان کرتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں (1) وہ حیوان گھر سے یا مالک سے بھاگ آیا ہے، اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے، اس صورت میں اگر وہ کسی قسم کا نقصان کرتا ہے تو احناف کے نزدیک اس پر کسی قسم کا تاوان نہیں ہے، دن کا وقت ہو یا رات کا لیکن فقہائے حجاز امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک، اگر وہ کسی کی کھیتی کا نقصان کرتا ہے تو اگر رات کا وقت ہے تو مالک پر تاوان پڑے گا، اگر دن کا وقت ہے تو پھر تاوان نہیں ہے اور امام لیث کے نزدیک مالک کے ذمہ ہر حالت میں تاوان ہے۔ (المغني، ج 12، ص 541) ۔ صحیح بات یہ ہے، اگر اس میں مالک کی کوتاہی کا دخل ہے تو تاوان ہے، وگرنہ کسی حالت میں تاوان نہیں ہے۔ (2) اگر مالک حیوان کے ساتھ ہے یا کوئی اس کے ساتھ ہے تو پھر اگر وہ کسی چیز کو روندتا ہے، وہ مال ہو، شخص ہو یا کھیتی تو سوار اس کا ذمہ دار ہے، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کا یہی نظریہ ہے، لیکن امام مالک کے نزدیک اس پر تاوان نہیں ہے، اگر حیوان، عام راستہ پر جا رہا ہے اور اس کے ساتھ انسان موجود ہے اور جانور اپنے کسی عضو مثلا ٹانگ، ہاتھ، سر، منہ سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ ضامن ہے، اگر حیوان دولتی (ٹانگ) مارتا ہے یا دم مارتا ہے تو ضامن نہیں ہے، لیکن امام شافعی کے نزدیک ہر حالت میں، حیوان کے ساتھ والا ضامن ہے، حیوان کسی عضو سے بھی نقصان پہنچائے اور آج کل کی گاڑیوں کا ڈرائیور، ہر حالت میں ضامن ہے، اگر وہ غفلت اور بے پرواہی سے کام لیتا ہے، لیکن اگر اس کی کوتاہی یا غفلت و بے پرواہی کا دخل نہیں ہے، اچانک کوئی انسان یا حیوان آگے آ گیا ہے، وہ اس کی کوشش کے باوجود، نیچے آ گیا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔ البئر جُبار: کنویں کا نقصان رائیگاں ہے، اگر کنویں کے مالک کا اس نقصان میں دخل نہیں ہے کہ اس نے کنواں اپنی زمین میں کھودا ہے یا بے آباد جگہ میں کھودا ہے اور اس میں کوئی انسان یا حیوان گر جاتا ہے تو مالک اس کا ذمہ دار نہیں ہے، لیکن اگر وہ راستہ میں کنواں کھودتا ہے یا کسی دوسرے کی جگہ میں کنواں کھودتا ہے، یعنی اس کی زیادتی کا دخل ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہے، جمہور کا یہی موقف ہے، احناف کا بھی یہی موقف ہے، اس طرح اگر کسی نے کنواں کھودنے کا کسی کو ٹھیکہ دیا یا اس کے لیے مزدور رکھا اور اس سے کھودنے والے کو نقصان پہنچا تو مالک ذمہ دار نہیں ہے۔ المعدن جبار: کوئی انسان اپنی زمین میں یا بے آباد جگہ میں کان کھودتا ہے اور کوئی شخص اس میں گر کر مر جاتا ہے یا زخمی ہو جاتا ہے تو اس کا مالک ذمہ دار نہیں ہے یا مالک، کان کھودنے کے لیے مزدور رکھتا ہے اور ان کو تمام ضروری سازوسامان مہیا کر دیتا ہے یا یہ مزدور کی اپنی ذمہ داری ہے پھر کان سے مزدور کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا اس پر گر جاتی ہے تو مالک پر تاوان نہیں ہے، ہاں تبرعا اس کو مزدور کا علاج معالجہ کروانا چاہیے۔ في الركاز الخمس: جاہلیت کا دفینہ مل جانے کی صورت میں اس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے گا اور کان (معدن) سے حاصل ہونے والی چیز پر چونکہ، مالک کو محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور مزدوری ادا کرنی ہوتی ہے، اس لیے وہ رکاز کے حکم میں نہیں ہے، ائمہ حجاز، مالک، شافعی اور احمد کا یہی موقف ہے، لیکن احناف کے نزدیک رکاز کا اطلاق معدن (کان) پر بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کا حکم بھی جاہلیت کے دفینہ والا ہے، امام ثوری، اوزاعی اور ابو عبید بن سلام کا بھی یہی موقف ہے اور لغتکی رو سے اس کی گنجائش موجود ہے، لیکن شرعی طور پر یہ رکاز نہیں ہے، لغوی معنی پر شرعی معنی کو ترجیح حاصل ہے۔ ہاں اس پر امام بخاری والا اعتراض صحیح ہے کہ ایک طرف تو معدن کو عام ائمہ کے برخلاف رکاز میں داخل کیا ہے اور دوسری طرف خمس کو ادائیگی سے بچنے کے لیے حیلے نکالے جاتے ہیں اور اس کو پورے مال پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4465
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1499
1499. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جانور کا زخم معاف ہے، کنویں میں گر کر مرجانے میں کوئی معاوضہ نہیں اور کان کابھی یہی حکم ہے، یعنی اس میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے، البتہ دفینہ ملنے پر پانچواں حصہ واجب ہے۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:1499]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ دفینہ جاہلیت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، کیونکہ اسے کافر کا مال قرار دیا گیا ہے جسے کوئی مجاہد حاصل کر لے، اس لیے غنیمت کے مال کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں اور ایک حصہ سرکاری طور پر رکھ لیا جاتا ہے، اسی طرح دفینہ جاہلیت کے چار حصے پانے والے کے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرانا ہو گا۔ رکاز کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں، مثلا: اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اس پر سال گزرنے کی شرط ہے یا نہیں؟ وہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر اموال کو شامل ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ تمام تفصیلات دیگر کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ (2) جب کوئی جانور منہ زور ہو کر کسی کو ہلاک کر دے یا نقصان پہنچائے تو مالک پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔ اگر کسی نے کنواں جاری کیا، اس میں کوئی آدمی گر کر مر گیا تو جاری کرنے والا اس کا ضامن نہیں۔ کان میں اگر کوئی مزدور مر جائے تو کان کا مالک یا مزدوری پر لے جانے والا اس سے بری الذمہ ہے۔ (3) امام بخاری نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر "بعض الناس" کے عنوان سے کلام کیا ہے، اکثر مقامات پر ان حضرات پر تنقید مقصود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے، ایسے مقامات کی تعداد پچیس ہے جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں: نمبر شمار اسم الكتاب رقم الباب رقم الحديث 1 الزكاة باب: 66 2 الهبة باب: 36 3 = باب: 37 4 الشهادات باب: 8 5 الوصايا باب: 8 6 الطلاق باب: 25 7 الأيمان والنذور باب: 21 8 الإكراه باب: 4 9 = باب: 7 10 الحيل باب: 3 6956 11 = = 6958 12 = = 6959 13 = باب: 4 6960 14 = = 6961 15 = باب: 9 16 = باب: 11 6968 17 = = 6970 18 = = 6971 19 = باب: 14 20 = = 6976 21 = = 6977 22 = = 6978 23 = باب: 15 6980 24 الأحكام = 25 = باب: 40 7195 یہ پہلا مقام ہے جہاں پر امام بخاری نے ایسے حضرات کا نوٹس لیا ہے جو ڈھٹائی کے ساتھ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں، ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ والله المستعان (4) امام بخاری ؒ کے نزدیک رکاز دور جاہلیت کے وہ مدفون خزانے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں چھپائے تھے اور رکاز کے مفہوم میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اگر دونوں کا مصداق ایک ہوتا تو حدیث کی عبارت بایں الفاظ ہوتی: ''المعدن جبار و فيه الخمس" معدن میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے اور اس میں پانچواں حصہ ادا کرنا ہے“ جبکہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کا معدن پر عطف ڈالا ہے جو مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔ علامہ عینی ؒ نے احناف کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفيه الخمس اس لیے نہیں کہا کہ اس میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ ضمیر کا مرجع بئر ہے یا معدن۔ علامہ عینی کا یہ جواب بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے کیونکہ بئر کا لفظ دور ہے اور معدن کا لفظ قریب ہے، قریب مرجع کو چھوڑ کر مرجع بعید کی طرف ضمیر کیسے لوٹ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ لفظ بئر مونث سماعی ہے مذکر ضمیر مونث مرجع کی طرف کیسے لوٹ سکتی ہے؟ (رفع الالتباس عن بعض الناس، ص: 17) احناف نے لغت کے بل بوتے پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ معدن اور رکاز ایک ہیں اور دونوں میں خمس ہے، حالانکہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ ابن اثیر لکھتے ہیں: اہل حجاز کی لغت میں رکاز اس خزانے کو کہتے ہیں جو دور جاہلیت کے وقت سے زمین میں مدفون ہو، البتہ اہل عراق کی لغت میں معدن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن حدیث میں اہل حجاز کی تائید ہے۔ (النھایة: 100/2) امت کا تعامل بھی اسی موقف کا مؤید ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے لغوی اعتبار سے جو اعتراض ان حضرات پر کیا ہے وہ اپنی جگہ لاجواب ہے، اس سلسلے میں امام بخاری نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو معدن میں خمس دینے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خمس معدن کے چھپانے کو بھی جائز کہتے ہیں جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔ یہ صریح تناقض ہے۔ اس کا دفاع علامہ عینی نے اس طرح کیا ہے کہ اگر معدن پانے والا محتاج اور فقیر ہو اور بیت المال سے اسے حصہ نہ ملنے کا ظن غالب ہو تو وہ بیت المال سے خمس چھپا کر اپنے آپ پر صرف کر سکتا ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے نقل کیا ہے۔ (عمدةالقاري: 563/6) یہ جواب کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ معدن کے چار حصوں سے اس کا فقر زائل نہیں ہو گا بلکہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے اس سے ہی محتاجی دور ہو گی، اس کے علاوہ امام طحاوی ؒ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اگر اپنے گھر میں کوئی کان پا لیتا ہے تو اس میں خمس وغیرہ ادا کرنا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام طحاوی کی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اعتراض اپنی جگہ پر قائم ہے کہ احناف کے ہاں تناقض پایا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 460/3) ربیعہ بن عبدالرحمٰن کئی لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث ؓ کو معادن قبلیہ الاٹ کی تھیں، ان معادن سے آج تک زکاۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں وصول کیا جاتا۔ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3061) اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معادن کی برآمدات پر خمس نہیں بلکہ زکاۃ ہے۔ اگرچہ اس روایت میں انقطاع ہے، تاہم تائید کے لیے اس قسم کی روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ الغرض رکاز سے مراد زمانہ جاہلیت کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر حاصل ہوا ہو اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وصول کیا جاتا ہے جبکہ معدنیات میں زکاۃ ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ حدیث مذکور اس کی واضح دلیل ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2355
2355. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو کوئی معاوضہ نہیں، اسی طرح کنویں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان اور جانور سے پہنچنے والی تکلیف پر بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اور زمین کے دفینے سے پانچواں حصہ دینا ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2355]
حدیث حاشیہ: (1) ایک شخص نے اپنی زمین میں کنواں کھودا تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں، اگر کسی کی بکری اس میں گر کر مر جاتی ہے تو کنویں کا مالک اس کا ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کی سازش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔ اگر ثابت ہو جائے کہ اس نے دانستہ کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کان میں انسان اور مویشی بھی مر سکتے ہیں، اس پر بھی کوئی تاوان یا انتقام نہیں، نیز جانور اگر کسی کو سینگ مارتا ہے تو اس نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہو گی۔ (2) جب کنویں میں گرنے والے کے خون کا ذمہ دار مالک نہیں ہے کیونکہ اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو حق نہیں تھا تو پانی کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہو گا کہ اس میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں۔ جب پانی اس کی ضروریات ہی پوری کرتا ہے تو دوسروں کی ضروریات پر اسے صرف کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جب کوئی مجبور اور لاچار ہو تو اس پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2355
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6912
6912. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حیوانات کا کسی کو زخمی کرنا قابل معافی ہے۔ کنویں میں گر کر مرجانے پر کوئی دیت نہیں۔ کان میں دب کر مرنے پر کوئی تاوان نہیں۔ اور مدفون خزانہ ملنے پر پانچواں حصہ دینا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6912]
حدیث حاشیہ: (1) اگر کوئی بے آباد کنویں میں گر کر مرجائے تو اس میں کوئی دیت نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کسی نے اپنی ملکیت یا بے آباد جگہ میں کنواں کھودا، اس میں کوئی انسان یا چوپایہ گر کر مرگیا تو کنویں کے مالک پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ اگر کسی نے کنواں کھودنے کے لیے مزدور رکھا، اس پر دیواریں گریں اور وہ ہلاک ہو گیا تو اس میں بھی کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ تاہم اگر کسی نے دھوکے سے کسی کو کنویں میں گرایا یا عام راستے میں کنواں کھودا یا کسی غیر کی زمین میں کنواں بنایا، وہاں اگر کوئی گر کرمر جائے تو کنویں والے پر تاوان ہوگا۔ (2) معدنیات کی کانوں کا بھی یہی مسئلہ ہوگا، ان میں دب کر اگر کوئی مر جاتا ہے یا ان میں کوئی مزدور ہلاک ہو جاتا ہے تو مالک پر کوئی تاوان نہیں ہوگا بلکہ ہر بے جان چیز کا یہی حال ہے، مثلاً: اگر کوئی انسان پھسل کر دیوار سے ٹکرایا اور مر گیا تو دیوار والا برئ الذمہ ہے۔ اگر کوئی کھجور پر چڑھا اور گر کر مرگیا تو مالک پر کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 318/12، 319)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6912