ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوقیس (عبدالرحمٰن بن عزوان) نے، ان سے ہزیل بن شرحبیل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، لڑکی کو آدھا، پوتی کو چھٹا اور جو باقی بچے بہن کا حصہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 6742]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6742
حدیث حاشیہ: (1) قبل ازیں ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے وراثت کا ایک سوال کیا گیا کہ بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے نصف ہے۔ تم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور وہ بھی اس مسئلے میں میری موافقت کریں گے۔ جب وہ لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انھیں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بتایا گیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6736)(2) سابقہ حدیث کے فوائد میں ہم نے وضاحت کی تھی کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بالآخر اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر عصبات اور ان کی قسمیں بیان کر دی جائیں، چنانچہ میت کے وہ قریبی رشتے دار عصبہ کہلاتے ہیں جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں تمام ترکے کے وارث بنتے ہیں۔ اگر کچھ نہ بچے تو محروم رہتے ہیں۔ عام طور پر خونی رشتے داروں کی تین قسمیں ہیں: ٭عصبہ بالنفس: میت کے وہ مذکر رشتہ دار کہ میت کی طرف اگر ان کی نسبت کی جائے تو درمیان میں کسی مؤنث کا واسطہ نہ آئے اور عصبہ بننے میں کسی دوسرے کے محتاج نہ ہوں۔ ان کی چار جہالت ہیں۔ ٭بیٹا ہونا: میت کا بیٹا، اس کی عدم موجودگی میں پوتا پھر پڑپوتا آخر تک۔ اسے جزء المیت کہا جاتا ہے۔ ٭باپ ہونا: میت کا باپ، اس کی عدم موجودگی میں دادا، پھر پڑ دادا آخر تک۔ اسے أصل المیت کہا جاتا ہے۔ ٭بھائی ہونا: میت کا بھائی، اس کی عدم موجودگی میں بھتیجا آخر تک۔ اسے جزء أب المیت کہا جاتا ہے۔ ٭ چچا ہونا: میت کا چچا اس کی عدم موجودگی میں چچا کا بیٹا آخر تک۔ اسے جزء جد المیت کہا جاتا ہے۔ ٭عصبہ بالغیر، ہر وہ مؤنث جو مقررہ حصہ لیتی ہو اور اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ بنے۔ یہ قسم عصبہ بننے میں کسی دوسرے کی محتاج ہوتی ہے اور وہ دوسرا بھی عصبہ ہوتا ہے۔ یہ چار فرد ہیں: بیٹی، پوتی، حقیقی بہن اور پدری بہن۔ ان میں ترکہ اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ مذکر مؤنث سے دوگنا دیا جائے۔ ٭عصبہ مع الغیر: ہر وہ مؤنث جو کسی دوسری مقررہ حصہ لینے والی مؤنث کی وجہ سے عصبہ بنے۔ اس صورت میں مقررہ حصہ لینے والی عصبہ نہیں بنے گی بلکہ دوسری مؤنث کو عصبہ بنائے گی۔ اس قسم میں صرف حقیقی بہن اور پدری بہن آتی ہے جس وقت اس کے ساتھ میت کی بیٹی یا پوتی ہو۔ (3) واضح رہے کہ وراثت میں اس عصبہ کو مقدم کیا جاتا ہے جو درجے میں میت کے زیادہ قریب ہو، مثلاً: بیٹا، پوتے سے زیادہ حق دار ہوگا، اسی طرح قوی قرابت دار، ضعیف سے مقدم ہوگا، مثلاً: حقیقی بھائی، پدری بھائی سے مقدم ہوگا۔ (4) بیٹا، پوتا،حقیقی بھائی اور پدری بھائی،اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں جبکہ چچا، اس کا بیٹا،حقیقی بھائی کا بیٹا اور پدری بھائی کا بیٹا اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتے ہیں۔ واللہ أعلم.(5) جب حقیقی بہن، بیٹی کی موجودگی میں عصبہ بن جائے تو وہ حقیقی بھائی کی سی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، یعنی جو رشتے دار حقیقی بھائی کی وجہ سے محروم ہوتے ہیں وہ حقیقی بہن کے عصبہ بننے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ (6) ایک مشہور اشکال کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اس اشکال کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں ایک بیٹی، ایک بہن اور ایک سویتلا، یعنی پدری بھائی ہے، بیٹی کو تمام ترکے سے نصف دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کسے ملے گا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت ہے کہ مقررہ حق لینے والوں کو ان کا حق دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث: 6732) اس روایت کا تقاضا ہے کہ باقی ترکہ پدری بھائی کو ملنا چاہیے اور بہن محروم ہے اور مذکورہ عنوان کہ بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا جائے، اس کا تقاضا ہے کہ باقی ماندہ ترکے کی حق دار حقیقی بہن ہے، سویتلا بھائی محروم ہے۔ اس صورت میں کس کو ترجیح دی جائے اور کیوں؟ فتاویٰ ثنائیہ میں مذاکرۂ علمیہ کے عنوان سے اس اشکال اور اس کے حل کو پیش کیا گیا ہے جو صفحہ 510 تا 518 جلد: 2 میں ہے ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کا مفہوم علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس میں لفظ "ذكر اوليٰ'' کی صفت ہے رجل کی نہیں۔ اوليٰ کے معنی قریب کے ہیں، اس بنا پر حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ باقی ماندہ ترکہ میت کے اس مذکر قریبی رشتے دار کا ہے جو صلب (باپ) کی طرف سے ہو، نہ اس کے لیے جو بطن (ماں) کی جانب سے ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ میراث کی نفی اس قریبی رشتے دار سے کی گئی ہے جو ماں کی طرف سے ہے، مثلاً: ماموں وغیرہ اور لفظ ذکر سے میراث کی نفی عورت سے ہے اگر چہ وہ میت کی جانب باعتبار صلب کے منسوب ہو، جیسے: پھوپھی وغیرہ۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ مذکورہ صورت میں بہن کو محروم کرتے ہیں وہ قرآن مجید کی اس آیت سے دلیل لیتے ہیں: ”اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہی ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا۔ “(النساء 4: 176) ان کا کہنا ہے کہ بیٹی (اولاد) کی موجودگی میں بہن کو نصف دینا بظاہر قرآن کے خلاف لگتا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ بیٹی کو حصہ دینے کے بعد باقی قریبی مذکر رشتے دار کا ہے، اس لیے بہن مذکر رشتے دار نہیں کہ اسے بیٹی سے بچاہوا دیا جائے۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ میت نے اگر بیٹی اور سویتلا بھائی چھوڑا ہو تو اس امر پر اجماع ہے کہ بیٹی کو نصف اور باقی نصف سوتیلے بھائی کو لے گا، حالانکہ یہ بھی بظاہر قرآن کے خلاف ہے، تاہم آیت ولد سے مراد وہ ولد ہے جو کل ترکے کا وارث ہو، وہ ولد مراد نہیں جو کل کا نہیں بلکہ کچھ حصے کا مالک ہے، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے کیونکہ اگر کسی نے بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑی ہو تو بالاتفاق نصف بیٹی کو اور باقی پوتے اور پوتی میں تقسیم ہوگا، پوتے کے مذکر ہونے کی وجہ سے بقیہ ترکہ تمام کا تمام اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ اس کی بہن کو بھی وارث بنایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اپنے عموم پر نہیں بلکہ کسی خاص صورت سے متعلق ہے،وہ یہ ہے کہ اگر کوئی بیٹی، چچا اور پھوپھی چھوڑے تو اس صورت میں بیٹی کو نصف دینے کے بعد بقیہ صرف چچا کو دیا جائے گا، پھوپھی اس میں شریک نہ ہوگی۔ (فتح الباري: 20/12) بہر حال ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا ہوا مال عصبہ کو ملتا ہے اور عصبہ کی تین قسمیں ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ بسا اوقات کئی ایک عصبات ایک صورت میں جمع ہو جاتے ہیں، مثلاً: ٭عصبہ بنفسہ: عصبہ بالغیر اور عصبہ مع وغیرہ جمع ہو جائیں، جیسے ماں، بیٹا، بیٹی اور بہن تو اس صورت میں ماں کا حصہ نکالنے کے بعد باقی بیٹا اور بیٹی تقسیم کریں گے بہن محروم ہوگی۔ ٭عصبہ بنفسہ قریب اور عصبہ بنفسہ بعید جمع ہو جائیں تو جو رشتہ دار میت کے زیادہ قریب ہوگا وہ باقی ماندہ ترکے کا حق دار ہوگا، جیسے ماں، بیٹا اور بھائی، تو اس صورت میں ماں کا حصہ نکالنے کے بعد بیٹا وارث ہوگا کیونکہ وہ عصبہ بنفسہ قریب ہے اور بھائی محروم ہوگا کیونکہ بنفسہ بعید ہے۔ ٭عصبہ بنفسہ بعید اور عصبہ مع الغیر جمع ہو جائیں تو بھی اقرب کا لحاظ رکھا جائے گا، جیسے: بیٹی، بہن اور سویتلا پدری بھائی تو بیٹی کو مقررہ حصہ دینے کے بعد باقی بہن کو دیا جائے گا کیونکہ وہ سویتلے بھائی کی بنسبت میت کے زیادہ قریب ہے۔ گویا پہلی دو صورتوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث پر عمل ہوگا اور آخری صورت میں بہن کو عصبہ بنانے پر عمل ہوگا۔ (8) بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق اگر بیٹی کے ساتھ بہن نہ ہو تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر عمل کیا جائے گا اور اگر بیٹی کے ساتھ بہن ہو تو عصبۂ قوی کے پیش نظر بقیہ ترکہ اسے دیا جائے گا، نیز علمائے فرائض کا قاعدہ ہے کہ جب بہن عصبہ مع الغیر بن جائے تو اسے حقیقی بھائی کی پوزیشن حاصل ہو جاتی ہے، جیسے: حقیقی بھائی کی موجودگی میں سویتلا بھائی محروم ہوتا ہے، اسی طرح بہن کے عصبہ مع الغیر ہونے کی صورت میں سویتلا بھائی محروم ہوگا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6742
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2890
´صلبی (حقیقی) اولاد کی میراث کا بیان۔` ہزیل بن شرحبیل اودی کہتے ہیں ایک شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن (یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پوتی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پوچھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2890]
فوائد ومسائل: 1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جوا ب آیت میراث میں مذکور ہے۔ (فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ۔ )(النساء:11) اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں۔ اور دوسے زیادہ ہوں۔ تو انہیں ترکہ سے دو تہائی ملے گا۔ لہذا ایک لڑکی کو نصف دینے کے بعد پوتی کو صرف چھٹا حصہ ملے گا۔ یوں دونوں مل کر دو لڑکیوں کی جگہ پر کردیں گی۔
2۔ صلبی اولاد سے مراد بیٹا بیٹی پوتا اور پوتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2890
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2721
´(میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان۔` ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کر لو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2721]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اجتہادی مسائل میں اختلاف رائے ہوجاتا تھا لیکن وہ اس کی بنیاد پر باہمی مخالفت اور دشمنی کا رویہ نہیں اپناتے تھے۔
(2) اجتہادی رائے کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی نص قابل عمل ہے۔ اجتہاد کی اہمیت صرف اسی وقت تک ہے جب عالم کو پیش آمدہ مسئلے میں قرآن وحدیث کی نص معلوم نہ ہو۔
(3) دونوں صحابۂ کرام ؓ کی رائے کی بنیاد غالباً اس اصول پر تھی کہ قریب کی موجودگی میں دور کا وارث محروم ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو محروم قراردیا۔ اور بیٹی سے بچا ہوا حصہ بہن کو دلوایا۔
(4) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنی رائے کی بنیاد ارشاد نبوی پر رکھی اور وہ اصول بیان فرمایا جودوسرے صحابۂ کرام ؓ کو معلوم نہ تھا۔
(5) اگر وارث صرف دوبیٹیاں ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہے۔ بیٹیوں کی عدم موجودگی میں پوتیوں کا یہی حصہ ہے۔ جس طرح ایک بیٹی کا حصہ نصف ہے، اسی طرح بیٹی کی عدم موجودگی میں ایک پوتی کا حصہ نصف ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں ایک بیٹی اور ایک پوتی کی صورت میں بیٹی کا حصہ نصف ہے، اور بیٹی اورپوتی کا مجموعی حصہ دوتہائی ہے، لہٰذا دو تہائی میں سے نصف بیٹی کو دے کر باقی چھٹا حصہ پوتی کو ملتا ہے۔
(6) اس صورت میں بیٹی اور پوتی کو برابر حصہ نہیں ملتا کیونکہ ان کا درجہ، یعنی میت سے تعلق برابر نہیں۔
(7) بیٹی، بیٹیوں یا پوتی، پوتیوں کی موجودگی میں بہن عصبہ ہے۔
(8) تقلید سراسر گمراہی ہے، خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے امام یا صحابی ہی کی کیوں نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2721
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2093
´بیٹی کے ساتھ پوتی کی وراثت کا بیان۔` ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا: بیٹی کو آدھی میراث اور حقیقی بہن کو باقی حصہ ملے گا، انہوں نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، وہ بھی ہماری طرح جواب دیں گے، وہ آدمی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آیا، ان سے مسئلہ بیان کیا اور ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ نے جو کہا تھا اسے بھی بتایا، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: اگر میں بھی ویسا ہی جواب دوں تب ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2093]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: کل ترکہ کے (12) حصے فرض کریں گے جن میں سے: مرنے والے کی بیٹی کے لیے کل ترکہ کا آدھا =6 حصے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ =2حصے اور مرنے والے کی بہن کے لیے باقی ترکہ =4 حصے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2093