الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
12. بَابُ مِيرَاثِ الأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةً:
12. باب: بیٹیوں کی موجودگی میں بہنیں عصبہ ہو جاتی ہیں۔
حدیث نمبر: 6741
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ:" قَضَى فِينَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: النِّصْفُ لِلْابْنَةِ وَالنِّصْفُ لِلْأُخْتِ". ثُمَّ قَالَ سُلَيْمَانُ: قَضَى فِينَا وَلَمْ يَذْكُرْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمارے درمیان یہ فیصلہ کیا تھا کہ آدھا بیٹی کو ملے گا اور آدھا بہن کو۔ پھر سلیمان نے جو اس حدیث کو روایت کیا تو اتنا ہی کہا کہ معاذ نے ہم کنبہ والوں کو یہ حکم دیا تھا یہ نہیں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 6741]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريقضى فينا معاذ بن جبل على عهد رسول الله النصف للابنة والنصف للأخت

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6741 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6741  
حدیث حاشیہ:
(1)
علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بہنیں، بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ ہوتی ہیں، یعنی بیٹیوں کا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ بہنوں کو ملے گا۔
اس کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً:
٭ اگر میت کی ایک بیٹی اور ایک بہن ہو تو نصف دینے کے بعد باقی نصف کی حق دار بہن ہے۔
٭اگر میت کی ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک بہن ہے تو بیٹی کو نصف، پوتی کو 1/6، جب دو تہائی پوری ہوگئیں تو باقی ایک تہائی کی وارث بہنیں ہوں گی۔
٭اگر دو بیٹیاں اور ایک بہن ہو تو بیٹیوں کو دو تہائی دیں گے اور باقی ایک تہائی بہن کو دیا جائے گا۔
(2)
اس اجماعی موقف سے صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اختلاف کیا ہے۔
ان کے نزدیک بیٹی کی موجودگی میں بہن وارث نہیں ہوگی بلکہ اگر کوئی دوسرا عصبہ موجود ہے تو بیٹی سے بچا ہوا ترکہ اسے ملے گا بصورت دیگر وہ بیٹی کو بطور رد دے دیا جائے گا۔
بہرحال دلائل کا تقاضا ہے کہ بہنوں کو بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ قرار دیا جائے جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوگا
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6741