الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
16. بَابُ الْيَمِينِ الْغَمُوسِ:
16. باب: قسموں کا بیان۔
حدیث نمبر: Q6675
وَلا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة النحل آية 94 دَخَلًا مَكْرًا وَخِيَانَةً.
‏‏‏‏ اور اللہ نے (سورۃ النحل میں) فرمایا «ولا تتخذوا أيمانكم دخلا بينكم فتزل قدم بعد ثبوتها وتذوقوا السوء بما صددتم عن سبيل الله ولكم عذاب عظيم‏» کہ اپنی قسموں کو آپس میں فساد کی بنیاد نہ بناؤ اس لیے کہ اسلام پر لوگوں کا قدم جمے اور پھر اکھڑ جائے اور اللہ کی راہ سے روکنے کے بدلے تم کو دوزخ کا عذاب چکھنا پڑے، تم کو سخت سزا دی جائے۔ اس آیت میں جو «دخلا» کا لفظ ہے اس کے معنی دغا اور فریب کے ہیں۔ «غمس» کے معنی ڈبو دینا۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: Q6675]
حدیث نمبر: 6675
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا فِرَاسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو نضر نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، کہا ہم سے فراس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کی ناحق جان لینا اور «يمين الغموس‏"‏‏.‏» قصداً جھوٹی قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 6675]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريالإشراك بالله عقوق الوالدين اليمين الغموس ما اليمين الغموس قال الذي يقتطع مال امرئ مسلم هو فيها كاذب
   صحيح البخاريالإشراك بالله عقوق الوالدين اليمين الغموس
   صحيح البخاريالإشراك بالله عقوق الوالدين قتل النفس اليمين الغموس
   جامع الترمذيالإشراك بالله عقوق الوالدين اليمين الغموس
   سنن النسائى الصغرىالإشراك بالله عقوق الوالدين قتل النفس اليمين الغموس
   سنن النسائى الصغرىالإشراك بالله عقوق الوالدين قتل النفس اليمين الغموس
   مشكوة المصابيحالكبائر الإشراك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس واليمين الغموس
   بلوغ المرام اليمين الغموس

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6675 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6675  
حدیث حاشیہ:
كبائر، كبيرة کی جمع ہے۔
مذکورہ حدیث میں چار کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ بعض روایات میں سات اور بعض میں دس بیان ہوئے ہیں۔
یہ تضاد نہیں کیونکہ ایک عدد کا ذکر دوسرے عدد کے منافی نہیں ہوتا۔
(2)
واضح رہے کہ اس قسم میں کفارہ نہیں ہوتا، صرف اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے۔
اگر کسی کا حق مارا ہے تو وہ واپس کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم یمین غموس کو ایسا گناہ شمار کرتے تھے جو کفارے سے بھی نہیں دھل سکتا۔
یمین غموس یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے۔
اس امر میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی۔
(فتح الباري: 679/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6675   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4016  
´کبائر (کبیرہ گناہوں) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبائر (بڑے گناہ) یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4016]
اردو حاشہ:
جھوٹی قسم کھانا عربی میں اس کے لیے لفظ الیمین الغموس استعمال کیا گیا ہے، یعنی گناہ میں ڈبو دینے والی قسم یا آگ میں داخل کرنے والی قسم۔ جس قسم کھانے کا یہ انجام ہو ظاہر ہے کہ وہ قسم جھوٹی ہی ہو سکتی ہے اور یہ وہ قسم ہوتی ہے جس سے کسی کا مال ناحق حاصل کیا جائے، یا کسی کو ناحق نقصان پہنچایا جائے یا اس کے ذریعے سے کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا جائے وغیرہ۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4016   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4872  
´قصاص سے متعلق مجتبیٰ (سنن صغریٰ) کی بعض وہ احادیث جو سنن کبریٰ میں نہیں ہیں آیت کریمہ: جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے (النساء: ۹۳) کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4872]
اردو حاشہ:
جھوٹی قسم عربی میں یَمِین غَمُوس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ایسی قسم جو قسم کھانے والے کو گناہ میں ڈبو دے۔ ظاہر ہے وہ جھوٹی ہی ہوگی جس کے ساتھ کسی کا مال ناحق حاصل کیا گیا ہو۔ قیامت کے دن ایسی قسم آگ ہی میں ڈبوئے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4872   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6870  
6870. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بڑے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی جو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ یا فرمایا: جھوٹی قسم اٹھانا راوی حدیث شعبہ نے شک کیا ہے۔ معاذ نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کا شریک بنانا، جھوٹی قسم اٹھانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ یا فرمایا: کسی کی ناحق جان لینا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6870]
حدیث حاشیہ:
یہ سارے کبیرے گناہ ہیں جن سے توبہ کیے بغیر مر جانا دوزخ میں داخل ہونا ہے۔
باب اور احادیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6870   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6920  
6920. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کا شریک بنانا اس نے پوچھا: اس کے بعد کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: والدین کی نافرمانی کرنا۔ اس نے دریافت کیا، پھر کون سے ہے؟ آپ نے فرمایا: جھوٹی قسم اٹھانا میں نے پوچھا: یمین غموس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جان بوجھ کر اس کے ذریعے سے کسی کا مال ہتھیا لے، حالانکہ وہ اس (قسم) میں جھوٹا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6920]
حدیث حاشیہ:
(1)
اللہ تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کو گندگی سے تشبیہ دی ہے، فرمایا:
بتوں کی گندگی سے بچو۔
(الحج22: 31)
یعنی آستانوں کی آلائش اور بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے انسان گندگی کے ڈھیر سے بچتا ہے، اور اس گندگی کے قریب جانے سے بھی گھن آتی ہے۔
ایک مقام پر شرک کی سنگینی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرے، پھر اسے پرندے اچک لیں جائیں یا ہوا، اسے کسی دور دراز مقام پر لے جا کر پھینک دے۔
(الحج22: 31) (2)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اب اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے آگے جھکے تو گویا ایک بلند تر مخلوق کمتر مخلوق کے سامنے جھک گئی اور جس نے شرک کیا گویا وہ توحید کی بلندیوں سے نیچے گر گیا، اب اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں رہی، اب وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے یا اپنے جیسے مشرکین کے پیچھے لڑھکتا ہے گا جو اسے کبھی کسی در پرجانے کا مشورہ دیں گے، کبھی دوسرے کے آستانے پر جانے کا کہیں گے حتی کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بے ایمان کر کے ہی چھوڑیں گے۔
أعاذنا الله منه
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6920