الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
48. بَابُ الْقِصَاصِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:
48. باب: قیامت کے دن بدلہ لیا جانا۔
حدیث نمبر: 6535
حَدَّثَنِي الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ سورة الأعراف آية 43، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا اس آیت کے بارے میں «ونزعنا ما في صدورهم من غل‏» کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومنین جہنم سے چھٹکارا پا جائیں گے لیکن دوزخ و جنت کے درمیان ایک پل پر انہیں روک لیا جائے گا اور پھر ایک کے دوسرے پر ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا جو دنیا میں ان کے درمیان آپس میں ہوئے تھے اور جب کانٹ چھانٹ کر لی جائے گی اور صفائی ہو جائے گی تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔ پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! جنتیوں میں سے ہر کوئی جنت میں اپنے گھر کو دنیا کے اپنے گھر کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے پر پہچان لے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6535]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارييخلص المؤمنون من النار فيحبسون على قنطرة بين الجنة والنار فيقص لبعضهم من بعض مظالم كانت بينهم في الدنيا حتى إذا هذبوا ونقوا أذن لهم في دخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده لأحدهم أهدى بمنزله في الجنة منه بمنزله كان في الدنيا
   صحيح البخاريإذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار فيتقاصون مظالم كانت بينهم في الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا أذن لهم بدخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6535 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6535  
حدیث حاشیہ:
اس کی وجہ یہ ہے کہ برزخ میں ہرایک آدمی کو صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے۔
جیسے قرآن وحدیث میں ہے۔
اب یہ جو عبداللہ بن مبارک نے زہد میں نکالا کہ فرشتے دائیں بائیں سے ان کو جنت کے راستے بتلائیں گے یہ اس کے خلاف نہیں ہے۔
اس لیے کہ اپنا مکان پہچان لینے سے یہ ضروری نہیں کہ شہر کے سب راستے بھی معلوم ہوں اور بہشت تو بہت بڑا شہر ہی نہیں بلکہ ایک ملک عظیم ہوگا۔
اس کے سامنے ساری دنیا کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن شریف میں فرمایا ﴿عرضُها السمٰواتُ والأرضُ﴾ یعنی جنت وہ ہے جس کے عرض میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ہیں۔
صدق اللہ تبارك و تعالیٰ۔
اسی باب میں دوسری حدیث کی سنت میں امام مالک رحمۃ اللہ بھی ہیں۔
یہ بڑے ہی جلیل القدر اور عظیم المرتبت امام ہیں۔
فقہ اور حدیث میں امام حجاز کہلاتے ہیں۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ان کے شاگرد ہیں اور امام بخاری، مسلم ابوداؤد، ترمذی وغیرہ سبھی کے یہ امام ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے درس میں بیٹھ کر ایک مہینے تک حدیث کا سماع کیا ہے۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور بھی بہت سے زبردست ائمہ و محدثین علم حدیث میں ان ہی کے شاگرد ہیں، استاذ الائمہ اور معلم الحدیث ہونے کا اتنا زبردست شرف ائمہ اربعہ میں سے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔
مؤطا امام مالک حدیث کی مشہور کتاب ہے۔
95 ہجری میں پیدا ہوئے اور چوراسی سال کی عمر پائی 179ھ میں انتقال فرمایا۔
علم حدیث کی بہت ہی زیادہ تعظیم کرتے تھے۔
رحمة اللہ رحمة واسعة
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6535   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6535  
حدیث حاشیہ:
(1)
جہنم سے چھٹکارا پانے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان پل صراط سے بحفاظت گزر جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے:
جب مومن جہنم پر رکھے ہوئے پل صراط سے حفاظت کے ساتھ گزر جائیں گے۔
(صحیح البخاري، المطالم، حدیث: 2440) (2)
جس پل پر اہل ایمان کو روک لیا جائے گا وہ جنت کی پل صراط ہی کا ایک حصہ ہو گا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی دوسرا پل ہو۔
(3)
واضح رہے کہ تمام اہل ایمان کو وہاں نہیں روکا جائے گا بلکہ وہ لوگ جو حساب کے بغیر جنت میں جائیں گے یا جن کے اعمال انہیں جہنم میں لے جائیں گے انہیں وہاں نہیں روکا جائے گا۔
(فتح الباري: 485/11)
اگر کسی نے رائی کے دانے کے برابر بھی کسی دوسرے پر ظلم کیا ہو گا تو اسے بھی قصاص دینا پڑے گا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔
(الأنبیاء: 47/21) (4)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق فرشتے دائیں بائیں سے اہل جنت کو جنت کے راستے بتائیں گے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ وہ خود جنت میں اپنے ٹھکانے کو پہچانتے ہوں گے؟ ممکن ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے فرشتے ان کی رہنمائی کریں، پھر جنت میں داخل ہو کر وہ خود اپنے مقام کو پہچان لیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بشارت اور عزت و تکریم میں مبالغے کے طور پر فرشتے انہیں جنت میں جانے کے بعد بھی راستوں کی رہنمائی کریں کیونکہ اپنا مکان پہچان لینے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جنت کے تمام راستے انہیں معلوم ہوں۔
جنت بہت بڑا شہر ہی نہیں بلکہ ملک عظیم ہے، اس کے سامنے تو پوری دنیا کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 486/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6535   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2440  
2440. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اہل ایمان آگ سے خلاصی پالیں گے توانھیں دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پُل پر روک لیا جائے گا۔ وہاں ان سے ان کے مظالم کابدلہ لیاجائے گاجو انھوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت کے اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!ہر شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو اس سے بہتر طور پر پہچانے گاجس طرح وہ دنیا میں اپنے مسکن کو پہچانتا تھا۔ یونس بن محمد نے کہا: ہمیں شیبان نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: ہم سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2440]
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ قتادہ کا سماع ابوالمتوکل سے معلوم ہو جائے۔
(یا اللہ! اپنے رسول پاک ﷺ کے ان پاکیزہ ارشادات کی قدر کرنے والوں کو فردوس بریں عطا فرمائیو۔
آمین)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2440   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2440  
2440. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اہل ایمان آگ سے خلاصی پالیں گے توانھیں دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پُل پر روک لیا جائے گا۔ وہاں ان سے ان کے مظالم کابدلہ لیاجائے گاجو انھوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت کے اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!ہر شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو اس سے بہتر طور پر پہچانے گاجس طرح وہ دنیا میں اپنے مسکن کو پہچانتا تھا۔ یونس بن محمد نے کہا: ہمیں شیبان نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: ہم سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2440]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں جن مظالم کا ذکر ہے اس سے مراد وہ مظالم ہوں گے جو ان کی تمام نیکیوں کو فنا نہیں کریں گے یا ایسے مظالم جن کا تعلق بدن کے بدلے سے چکایا جائے گا جیسا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو تھپڑ وغیرہ مارے ہوں گے، ان کا بدلہ لیا جائے گا۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن دو پُل ہوں گے:
ایک پُل صراط جو جہنم پر ہو گا اور دوسرا وہ پُل جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا۔
ممکن ہے کہ ایک ہی پُل ہو، اس کا ابتدائی حصہ جہنم کے ادھر ہو اور اس کا آخری حصہ جنت کے قریب ہو۔
واللہ أعلم۔
بہرحال اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں دوسروں پر ظلم کرتے رہے۔
ایسے لوگوں کے ذاتی گناہ تو دوزخ کی آگ میں جلا کر ختم کیے جائیں گے لیکن بندوں سے متعلقہ گناہوں کا قصاص لیا جائے گا۔
جب وہ معاملات نمٹا لیں گے تو انہیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کی تلافی اگر دنیا میں نہ کی گئی تو قیامت کے دن بدلہ لے کر کی جائے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2440