اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں فرمایا ”اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جا رہے ہوں گے۔ «مقنع» اور «مقمح» دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ «مهطعين» کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «مهطعين» کے معنی جلدی بھاگنے والا، ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے محمد! لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کر چکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! (عذاب کو) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور مؤخر کر دے، تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاء کی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ذوال نہیں آئے گا؟ اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ انہوں نے برے مکر اختیار کیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لیے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے (مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے) پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاء سے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: Q2440]
ہم سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو معاذ بن ہشام نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔ یونس بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: 2440]
يخلص المؤمنون من النار فيحبسون على قنطرة بين الجنة والنار فيقص لبعضهم من بعض مظالم كانت بينهم في الدنيا حتى إذا هذبوا ونقوا أذن لهم في دخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده لأحدهم أهدى بمنزله في الجنة منه بمنزله كان في الدنيا
إذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار فيتقاصون مظالم كانت بينهم في الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا أذن لهم بدخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2440
حدیث حاشیہ: اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ قتادہ کا سماع ابوالمتوکل سے معلوم ہو جائے۔ (یا اللہ! اپنے رسول پاک ﷺ کے ان پاکیزہ ارشادات کی قدر کرنے والوں کو فردوس بریں عطا فرمائیو۔ آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2440
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2440
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں جن مظالم کا ذکر ہے اس سے مراد وہ مظالم ہوں گے جو ان کی تمام نیکیوں کو فنا نہیں کریں گے یا ایسے مظالم جن کا تعلق بدن کے بدلے سے چکایا جائے گا جیسا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو تھپڑ وغیرہ مارے ہوں گے، ان کا بدلہ لیا جائے گا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن دو پُل ہوں گے: ایک پُل صراط جو جہنم پر ہو گا اور دوسرا وہ پُل جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا۔ ممکن ہے کہ ایک ہی پُل ہو، اس کا ابتدائی حصہ جہنم کے ادھر ہو اور اس کا آخری حصہ جنت کے قریب ہو۔ واللہ أعلم۔ بہرحال اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں دوسروں پر ظلم کرتے رہے۔ ایسے لوگوں کے ذاتی گناہ تو دوزخ کی آگ میں جلا کر ختم کیے جائیں گے لیکن بندوں سے متعلقہ گناہوں کا قصاص لیا جائے گا۔ جب وہ معاملات نمٹا لیں گے تو انہیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کی تلافی اگر دنیا میں نہ کی گئی تو قیامت کے دن بدلہ لے کر کی جائے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2440
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6535
6535. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اہل ایمان جہنم سے چھٹکارا پاجائیں گے تو دوزخ وجنت کے درمیان انہیں ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر دنیا جو ایک دوسرے پر ظلم وستم کیا ہوگا اس کا قصاص اور بدلہ لیا جائے گا حتٰی کہ جب وہ پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں جانے کی اجازت ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اہل جنت میں سے ہر ایک جنت میں اپنا مقام دنیا میں اپنے گھر کی نسبت زیادہ جاننے والا ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6535]
حدیث حاشیہ: اس کی وجہ یہ ہے کہ برزخ میں ہرایک آدمی کو صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے۔ جیسے قرآن وحدیث میں ہے۔ اب یہ جو عبداللہ بن مبارک نے زہد میں نکالا کہ فرشتے دائیں بائیں سے ان کو جنت کے راستے بتلائیں گے یہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ اپنا مکان پہچان لینے سے یہ ضروری نہیں کہ شہر کے سب راستے بھی معلوم ہوں اور بہشت تو بہت بڑا شہر ہی نہیں بلکہ ایک ملک عظیم ہوگا۔ اس کے سامنے ساری دنیا کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن شریف میں فرمایا ﴿عرضُها السمٰواتُ والأرضُ﴾ یعنی جنت وہ ہے جس کے عرض میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ہیں۔ صدق اللہ تبارك و تعالیٰ۔ اسی باب میں دوسری حدیث کی سنت میں امام مالک رحمۃ اللہ بھی ہیں۔ یہ بڑے ہی جلیل القدر اور عظیم المرتبت امام ہیں۔ فقہ اور حدیث میں امام حجاز کہلاتے ہیں۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ان کے شاگرد ہیں اور امام بخاری، مسلم ابوداؤد، ترمذی وغیرہ سبھی کے یہ امام ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے درس میں بیٹھ کر ایک مہینے تک حدیث کا سماع کیا ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور بھی بہت سے زبردست ائمہ و محدثین علم حدیث میں ان ہی کے شاگرد ہیں، استاذ الائمہ اور معلم الحدیث ہونے کا اتنا زبردست شرف ائمہ اربعہ میں سے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ مؤطا امام مالک حدیث کی مشہور کتاب ہے۔ 95 ہجری میں پیدا ہوئے اور چوراسی سال کی عمر پائی 179ھ میں انتقال فرمایا۔ علم حدیث کی بہت ہی زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ رحمة اللہ رحمة واسعة
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6535
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6535
6535. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اہل ایمان جہنم سے چھٹکارا پاجائیں گے تو دوزخ وجنت کے درمیان انہیں ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر دنیا جو ایک دوسرے پر ظلم وستم کیا ہوگا اس کا قصاص اور بدلہ لیا جائے گا حتٰی کہ جب وہ پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں جانے کی اجازت ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اہل جنت میں سے ہر ایک جنت میں اپنا مقام دنیا میں اپنے گھر کی نسبت زیادہ جاننے والا ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6535]
حدیث حاشیہ: (1) جہنم سے چھٹکارا پانے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان پل صراط سے بحفاظت گزر جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے: ”جب مومن جہنم پر رکھے ہوئے پل صراط سے حفاظت کے ساتھ گزر جائیں گے۔ “(صحیح البخاري، المطالم، حدیث: 2440)(2) جس پل پر اہل ایمان کو روک لیا جائے گا وہ جنت کی پل صراط ہی کا ایک حصہ ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی دوسرا پل ہو۔ (3) واضح رہے کہ تمام اہل ایمان کو وہاں نہیں روکا جائے گا بلکہ وہ لوگ جو حساب کے بغیر جنت میں جائیں گے یا جن کے اعمال انہیں جہنم میں لے جائیں گے انہیں وہاں نہیں روکا جائے گا۔ (فتح الباري: 485/11) اگر کسی نے رائی کے دانے کے برابر بھی کسی دوسرے پر ظلم کیا ہو گا تو اسے بھی قصاص دینا پڑے گا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ (الأنبیاء: 47/21)(4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق فرشتے دائیں بائیں سے اہل جنت کو جنت کے راستے بتائیں گے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ وہ خود جنت میں اپنے ٹھکانے کو پہچانتے ہوں گے؟ ممکن ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے فرشتے ان کی رہنمائی کریں، پھر جنت میں داخل ہو کر وہ خود اپنے مقام کو پہچان لیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بشارت اور عزت و تکریم میں مبالغے کے طور پر فرشتے انہیں جنت میں جانے کے بعد بھی راستوں کی رہنمائی کریں کیونکہ اپنا مکان پہچان لینے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جنت کے تمام راستے انہیں معلوم ہوں۔ جنت بہت بڑا شہر ہی نہیں بلکہ ملک عظیم ہے، اس کے سامنے تو پوری دنیا کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 486/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6535