ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہئے کہ اس سے (اس دنیا میں) معاف کرا لے۔ اس لیے کہ آخرت میں روپے پیسے نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے (معاف کرا لے) کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس (مظلوم) بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6534]
من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه
رحم الله عبدا كانت لأخيه عنده مظلمة في عرض أو مال فجاءه فاستحله قبل أن يؤخذ وليس ثم دينار ولا درهم فإن كانت له حسنات أخذ من حسناته وإن لم تكن له حسنات حملوا عليه من سيئاتهم
من ظلم أخاه بمظلمة فليتحلله اليوم قبل أن يؤخذ من حسناته ليس ثمة دينار ولا درهم فإن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم يكن له عمل صالح أخذت من سيئات صاحبه فألقيت عليه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6534
حدیث حاشیہ: حقوق العباد ہرگز معاف نہ ہوں گے جب تک بندے وہ حقوق نہ چکا دیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6534
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6534
حدیث حاشیہ: حقوق العباد کا معاملہ بہت سنگین ہے، اسے کسی صورت میں معاف نہیں کیا جائے گا۔ اگر صاحب حق معاف کر دے تو الگ بات ہے بصورت دیگر اس کا بدلہ لیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں ہے: ”اگر کسی جہنمی کا کسی جنتی کے ذمے کوئی حق ہو گا تو اہل جنت کو جنت میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی حتی کہ اس کا بدلہ لے لیا جائے، اگر کسی نے دوسرے کو بلاوجہ تھپڑ رسید کیا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ “ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم تو وہاں ننگے بدن اور برہنہ پاؤں جائیں گے تو یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”برائیوں اور نیکیوں کے ذریعے سے حساب چکایا جائے گا۔ “(مسند أحمد: 495/3) بہرحال انسان کو حقوق العباد کے معاملے میں بہت حساس ہونا چاہیے۔ کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتے وقت اس حدیث کو ضرور پیش رکھنا چاہیے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6534
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2449
2449. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کسی نے دوسرے کی عزت یا کسی اور چیز پرظلم کیا ہووہ اس سے آج ہی معاف کرالے پہلے اس سے کہ وہ دن آئے جس میں درہم ودینار نہیں ہوں گے، پھر اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے لے لیا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔“ ابو عبداللہ(امام بخاری) فرماتے ہیں: اسماعیل بن ابی اویس کو مقبری اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ قبرستان کے ایک کنارے پررہتے تھے۔ اور سعید مقبری بنو لیث کاآزاد کردہ غلام ہے۔ اس کا پورا نام سعید بن ابی سعید ہے، اور اس کے باپ ابو سعید کا نام کیسان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2449]
حدیث حاشیہ: مظلمہ ہر اس ظلم کو کہتے ہیں جسے مظلوم از راہ صبر برداشت کرلے، کوئی جانی ظلم ہو یا مالی سب پر لفظ مظلمہ کا اطلاق ہوتا ہے، کوئی شخص کسی سے اس کا مال زبردستی چھین لے تو یہ بھی مظلمہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ ظالموں کو اپنے مظالم کی فکر دنیا ہی کر لینی چاہئے۔ کہ وہ مظلوم سے معاف کرالیں، ان کا حق ادا کردیں ورنہ موت کے بعد ان سے پورا پورا بدلہ دلایا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2449
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2449
2449. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کسی نے دوسرے کی عزت یا کسی اور چیز پرظلم کیا ہووہ اس سے آج ہی معاف کرالے پہلے اس سے کہ وہ دن آئے جس میں درہم ودینار نہیں ہوں گے، پھر اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے لے لیا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔“ ابو عبداللہ(امام بخاری) فرماتے ہیں: اسماعیل بن ابی اویس کو مقبری اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ قبرستان کے ایک کنارے پررہتے تھے۔ اور سعید مقبری بنو لیث کاآزاد کردہ غلام ہے۔ اس کا پورا نام سعید بن ابی سعید ہے، اور اس کے باپ ابو سعید کا نام کیسان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2449]
حدیث حاشیہ: (1) اگر کوئی شخص کسی کا حق ضبط کر لیتا ہے، بعد ازاں وہ معافی مانگ کر اسے راضی کر لیتا ہے تو معافی لینے والے کو دنیا و آخرت میں معافی ہو جائے گی اگرچہ اس نے معافی لیتے وقت ظلم کی نوعیت اور حق کی مقدار بیان نہ کی ہو۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ معافی تب ہو گی جب وہ ظلم کی وضاحت کرے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا لیکن حدیث میں معافی کا اطلاق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب معاف کر دیا جائے تو اس کی مقدار بیان کرے یا نہ کرے دونوں طرح صحیح ہے۔ (2) ہمارا رجحان یہ ہے کہ حقوق دو طرح کے ہیں: اخلاقی، مثلاً: غیبت اور عیب جوئی وغیرہ۔ اس قسم کے حقوق کے لیے معافی لیتے وقت وضاحت ضروری نہیں کیونکہ بعض اوقات وضاحت سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ دوسرے مالی حقوق ہیں، اگر حق دار اس کا مطالبہ کرے تو وضاحت کر دی جائے بصورت دیگر انہیں مجمل رکھا جا سکتا ہے اور معافی کے بعد اس کا عنداللہ کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (3) قرآن کریم میں ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾”اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔ “(فاطر18: 35) یہ قرآنی نص مذکورہ حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ ظالم پر جو مظلوم کی برائیاں ڈالی جاتی ہیں وہ دراصل اس ظالم کی کمائی کا نتیجہ ہوں گی۔ (فتح الباري: 127/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2449