الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
38. بَابُ مَنْ أُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةٌ:
38. باب: کسی کے لیے گاؤ تکیہ لگانا یا گدا بچھانا (جائز ہے)۔
حدیث نمبر: 6278
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، أَنَّهُ قَدِمَ الشَّأْمَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ذَهَبَ عَلْقَمَةُ إِلَى الشَّأْمِ فَأَتَى الْمَسْجِدَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا، فَقَعَدَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَ:" أَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي كَانَ لَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ: يَعْنِي حُذَيْفَةَ، أَلَيْسَ فِيكُمْ أَوْ كَانَ فِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّيْطَانِ: يَعْنِي عَمَّارًا، أَوَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّوَاكِ وَالْوِسَادِ: يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ، كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1، قَالَ: 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0، فَقَالَ: مَا زَالَ هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يُشَكِّكُونِي، وَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے اور ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ ملک شام گئے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی پھر یہ دعا کی اے اللہ! مجھے ایک ہم نشین عطا فرما۔ چنانچہ وہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کی مجلس میں جا بیٹھے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا۔ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ کہا کہ اہل کوفہ سے، پوچھا کیا تمہارے یہاں (نفاق اور منافقین کے) بھیدوں کے جاننے والے وہ صحابی نہیں ہیں جن کے سوا کوئی اور ان سے واقف نہیں ہے؟ ان کا اشارہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں (یا یوں کہا کہ) تمہارے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دی تھی؟ اشارہ عمار رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں مسواک اور گدے والے نہیں ہیں؟ ان کا اشارہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ «والليل إذا يغشى‏» کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ «والذكر والأنثى‏» پڑھتے تھے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ لوگ کوفہ والے اپنے مسلسل عمل سے قریب تھا کہ مجھے شبہ میں ڈال دیتے حالانکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود اسے سنا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6278]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريوالليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى
   صحيح البخارييقرأ والليل إذا يغشى
   صحيح البخاريكيف قرأ ابن أم عبد والليل فقرأت والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى
   صحيح البخاريكيف يقرأ عبد الله والليل إذا يغشى فقرأت عليه والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى
   صحيح البخاريأجاره الله على لسان نبيه يعني عمارا
   صحيح مسلمأفيكم أحد يقرأ على قراءة عبد الله فقلت نعم أنا قال فكيف سمعت عبد الله يقرأ هذه الآية والليل إذا يغشى
   صحيح مسلمهل تقرأ على قراءة عبد الله بن مسعود قال قلت نعم قال فاقرأ والليل إذا يغشى
   جامع الترمذيكيف سمعت عبد الله يقرأ هذه الآية والليل إذا يغشى
   مسندالحميديسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها كذلك ﴿ والذكر والأنثى﴾

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6278 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6278  
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکیہ لگانے یا گدا بچھانے کا ذکر ہے، لہٰذا اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
شارح مہلب نے کہا ہے کہ اس حدیث سے بڑے شخص کا احترام ثابت ہوتا ہے، نیز بڑا آدمی اپنے شاگرد کے گھر جا کر اسے دینی تعلیم دے سکتا ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر صاحب خانہ برا محسوس نہ کرے تو اس کے اکرام واحترام کو نظر انداز کر کے مہمان تواضع اختیار کرسکتا ہے۔
(فتح الباري: 82/11)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے تینوں بزرگوں، یعنی حضرت حذیفہ، حضرت عمار اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے مختلف ایسے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں جو ان کے ساتھ مخصوص تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6278   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2939  
´سورۃ اللیل میں «واللیل إذا یغشی والذکر والأنثی» کی قرأت کا بیان۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء رضی الله عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا: کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشى» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے انہیں «والليل إذا يغشى والذكر والأنثى» ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا: اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2939]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشہورقراء ت ہے ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى،
وَمَا خَلَقَ الذَّكَرِ وَالأُنْثَى﴾
حدیث میں مذکور قراء ت اس میں مذکوراشخاص ہی کی ہے،
ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے،
عثمان رضی اللہ عنہ کے قراء ت شاید اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1916  
علقمہ سے روایت ہے کہ ہم شام آئے تو ہمارے پاس حضرت ابو دارداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لا ئے اور انھوں نے پو چھا: کیا تم میں سے کوئی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت میں پڑھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں میں پڑھتا ہوں۔ انھوں نے پوچھا: تم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ آیت کیسے پڑھتے سنا ہے۔ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ میں نے کہا: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ و الذَّكَرَ‌ وَالْأُنثَىٰ﴾ انھوں نے کہا: اور میں نے بھی اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1916]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآءت میں ﴿وَمَا خَلَقَ﴾ کا لفظ نہیں تھا لیکن دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قرآءت میں یہ لفظ تھا اس لیے مصحف عثمانی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اکثریت کی قرآءت کو اختیار کیا گیا ہے گویا:
﴿وَمَا خَلَقَ﴾ کا لفظ بعد میں اترا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1916   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1918  
علقمہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم کن لوگوں سے ہو؟ میں نے کہا: اہل عراق سے، انھوں نے پوچھا: ان کے کن لوگو ں سے؟ میں نے کہا: اہل کو فہ سے، انھوں نے پوچھا: کیا تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت کے مطا بق پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ پڑھو۔ میں نے پڑھا ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَالنَّهَارِ‌ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَ الذَّكَرَ‌ وَالْأُنثَىٰ﴾ وہ ہنس پڑے پھر کہا: میں نے رسول... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1918]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اہل کوفہ کی تعلیم کے لیے وہاں بھیجا تھا اس لیے کوفہ کے اہل علم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کی قرآءت کے مطابق پڑھتے تھے اور اہل شام کی قرآءت اور تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1918   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4943  
4943. حضرت علقمہ بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے چند تلامذہ کے ہمراہ شام کے علاقے میں گیا۔ حضرت ابوالدرداء ؓ نے جب ہماری آمد کا سنا تو ہماری ملاقات کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی قرآن مجید کے قاری بھی ہیں؟ ہم نے عرض کی: جی ہاں۔ پھر فرمایا: تم میں سب سے اچھا قاری کون ہے؟ ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فرمایا: پڑھو۔ میں نے تلاوت شروع کی: ﴿وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ ﴿٣﴾ حضرت ابوالدرداء ؓ نے پوچھا: کیا تم نے خود اپنے استاد محترم کی زبانی اسی طرح سنا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی ﷺ کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے لیکن یہ شام والے حضرات اس کا انکار کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4943]
حدیث حاشیہ:
(اس کی بجائے وہ مشہور قراءت (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ)
پڑھتے تھے۔
)

شام والے مشہور ومتفق علیہ قراءت کرتے تھے مگر حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو دوسرے طرز پر سنا تھا، وہ اسی پر مصر تھے پس خاطی کوئی بھی نہیں ہے۔
سات قراءتوں کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4943   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3287  
3287. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام گیا تو لوگوں نے کہا: یہاں حضرت ابودرداء ؓ موجود ہیں۔ (ہم ان سے ملنے گئے تو) انھوں نے پوچھا: کیا تم میں وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبانی شیطان سے محفوظ رکھا ہے؟ مغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی زبانی شیطان سے پناہ دینے کا اعلان کیا ہے، یعنی حضرت عمار بن یاسر ؓ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3287]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ عمار شیطانی اغوا میں نہیں آئیں گے۔
ایسا ہی ہوا کہ عمار خلیفہ برحق یعنی حضرت علی ؓکے ساتھ رہے اور باغیوں میں شریک نہ ہوئے، اس حدیث سے حضرت عمار ؓ کی بڑی فضیلت نکلی، وہ خاص آنحضرت ﷺ کے جاں نثار تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3287   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3287  
3287. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام گیا تو لوگوں نے کہا: یہاں حضرت ابودرداء ؓ موجود ہیں۔ (ہم ان سے ملنے گئے تو) انھوں نے پوچھا: کیا تم میں وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبانی شیطان سے محفوظ رکھا ہے؟ مغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی زبانی شیطان سے پناہ دینے کا اعلان کیا ہے، یعنی حضرت عمار بن یاسر ؓ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3287]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث مختصر ہے۔
تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علقمہ ؓ جب شام گئے تو انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے کوئی اچھا ساتھی مل جائے۔
کہتے ہیں:
میں نے دیکھا میرےپہلو میں ایک شیخ محترم بیٹھے ہیں۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابو الدرداء ؓ ہیں۔
پھر انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔

اس حدیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے کہ حضرت عمار ؓشیطانی اغوا میں نہیں آئیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت عمار ؓ خلیفہ راشد حضرت علی ؓ کے ساتھ رہے اور حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ شریک نہ ہوئے۔
حضرت عمار ؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ شیطان ان پر مسلط نہیں ہوگا۔
ممکن ہے حضرت ابو الدرداء ؓ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہوجس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمار ؓ کے لیے فرمایا:
انھیں باغی گروہ قتل کرے گا،افسوس کہ حضرت عمارؓ انھیں جنت کی دعوت دیں گے اور وہ انھیں جہنم کی طرف بلائیں گے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 447)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3287   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3761  
3761. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام پہنچا تو سب سے پہلے میں نے دو رکعت نماز پڑھی اوردعامانگی: اے اللہ!مجھے کسی نیک ساتھی کی رفاقت نصیب ہو، چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ آرہے ہیں۔ جب وہ قریب آگئے تو میں نے(دل میں) کہا: شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: آپ کہاں سے ہیں؟میں نے عرض کیا: کوفہ کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں صاحب نعلین، صاحب وسادہ اور صاحب مطہرہ نہیں ہیں؟کیا تمہارے پاس وہ شخصیت نہیں ہے جسے شیطان مردود سے پناہ مل چکی ہے؟کیا تمہارے ہاں سربستہ راز جاننے والے نہیں ہیں، جن رازوں کو ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا؟پھر فرمایا: ابن ام عبدسورہ لیل کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں؟میں نے کہا: وہ اس طرح پڑھتے ہیں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾ انھوں نے فرمایا: مجھے نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اسی طرح سکھایا تھا لیکن اب اہل شام مجھے اس طرح قراءت کرنے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3761]
حدیث حاشیہ:

ابن ام عبد سے مراد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں کیونکہ ان کی والدہ ام عبد کے نام سے مشہور تھیں۔

حضرت ابودرداء ؓ نے اس لیے مذکورہ سوالات کیے کہ علقمہ کو بتایا جائے تمہارے پاس ایسے ایسے علماء موجود ہیں،ان کی موجودگی میں کسی دوسرے سے علم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ کے جوتے،چھاگل اور تکیہ اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔
آپ کی مسواک کا بھی اہتمام کرتے تھے،آپ کو وضو کراتے،جب آپ غسل فرماتے توپردہ کرتے۔
رسول اللہ ﷺ ان سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا:
جب تم آؤ تو پردہ اٹھاکراندرچلے آؤ۔
جب تک میں تمھیں منع نہ کرو گھر میں آنے کی اجازت ہے۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خادم خاص کی حیثیت حاصل تھی۔
(عمدة القاري: 472/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3761   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4943  
4943. حضرت علقمہ بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے چند تلامذہ کے ہمراہ شام کے علاقے میں گیا۔ حضرت ابوالدرداء ؓ نے جب ہماری آمد کا سنا تو ہماری ملاقات کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی قرآن مجید کے قاری بھی ہیں؟ ہم نے عرض کی: جی ہاں۔ پھر فرمایا: تم میں سب سے اچھا قاری کون ہے؟ ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فرمایا: پڑھو۔ میں نے تلاوت شروع کی: ﴿وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ ﴿٣﴾ حضرت ابوالدرداء ؓ نے پوچھا: کیا تم نے خود اپنے استاد محترم کی زبانی اسی طرح سنا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی ﷺ کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے لیکن یہ شام والے حضرات اس کا انکار کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4943]
حدیث حاشیہ:

اہل شام کے ہاں مشہور قراءت اس طرح ہے (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ)
چونکہ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ)
سن چکے تھے، اس لیے یہ دونوں حضرات کسی دوسرے کی قراءت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
لیکن اس قراءت کو تواتر کا درجہ حاصل نہیں تھا، اس لیے جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوائے تو آپ نے متواتر قراءت کے علاوہ دیگرقراءت کو حذف کر دیا۔

مصحف عثمانی میں جمہور کی قراءت پر اتفاق ہوگیا، لیکن شاید حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جمہور کی قراءت نہیں پہنچی ہوگی، اس لیے انھوں نے دوسری قراءت کو تسلیم نہیں کیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4943