مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4943
4943. حضرت علقمہ بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے چند تلامذہ کے ہمراہ شام کے علاقے میں گیا۔ حضرت ابوالدرداء ؓ نے جب ہماری آمد کا سنا تو ہماری ملاقات کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی قرآن مجید کے قاری بھی ہیں؟ ہم نے عرض کی: جی ہاں۔ پھر فرمایا: تم میں سب سے اچھا قاری کون ہے؟ ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فرمایا: پڑھو۔ میں نے تلاوت شروع کی: ﴿وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ ﴿٣﴾ حضرت ابوالدرداء ؓ نے پوچھا: کیا تم نے خود اپنے استاد محترم کی زبانی اسی طرح سنا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی ﷺ کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے لیکن یہ شام والے حضرات اس کا انکار کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4943]
حدیث حاشیہ:
(اس کی بجائے وہ مشہور قراءت (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ)
پڑھتے تھے۔
)
شام والے مشہور ومتفق علیہ قراءت کرتے تھے مگر حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو دوسرے طرز پر سنا تھا، وہ اسی پر مصر تھے پس خاطی کوئی بھی نہیں ہے۔
سات قراءتوں کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4943
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3287
3287. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام گیا تو لوگوں نے کہا: یہاں حضرت ابودرداء ؓ موجود ہیں۔ (ہم ان سے ملنے گئے تو) انھوں نے پوچھا: کیا تم میں وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبانی شیطان سے محفوظ رکھا ہے؟ مغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی زبانی شیطان سے پناہ دینے کا اعلان کیا ہے، یعنی حضرت عمار بن یاسر ؓ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3287]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ عمار شیطانی اغوا میں نہیں آئیں گے۔
ایسا ہی ہوا کہ عمار خلیفہ برحق یعنی حضرت علی ؓکے ساتھ رہے اور باغیوں میں شریک نہ ہوئے، اس حدیث سے حضرت عمار ؓ کی بڑی فضیلت نکلی، وہ خاص آنحضرت ﷺ کے جاں نثار تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3287
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3287
3287. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام گیا تو لوگوں نے کہا: یہاں حضرت ابودرداء ؓ موجود ہیں۔ (ہم ان سے ملنے گئے تو) انھوں نے پوچھا: کیا تم میں وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبانی شیطان سے محفوظ رکھا ہے؟ مغیرہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی زبانی شیطان سے پناہ دینے کا اعلان کیا ہے، یعنی حضرت عمار بن یاسر ؓ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3287]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث مختصر ہے۔
تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علقمہ ؓ جب شام گئے تو انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے کوئی اچھا ساتھی مل جائے۔
کہتے ہیں:
میں نے دیکھا میرےپہلو میں ایک شیخ محترم بیٹھے ہیں۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابو الدرداء ؓ ہیں۔
پھر انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔
2۔
اس حدیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے کہ حضرت عمار ؓشیطانی اغوا میں نہیں آئیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت عمار ؓ خلیفہ راشد حضرت علی ؓ کے ساتھ رہے اور حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ شریک نہ ہوئے۔
حضرت عمار ؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ شیطان ان پر مسلط نہیں ہوگا۔
ممکن ہے حضرت ابو الدرداء ؓ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہوجس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمار ؓ کے لیے فرمایا:
”انھیں باغی گروہ قتل کرے گا،افسوس کہ حضرت عمارؓ انھیں جنت کی دعوت دیں گے اور وہ انھیں جہنم کی طرف بلائیں گے۔
“ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 447)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3287
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3761
3761. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام پہنچا تو سب سے پہلے میں نے دو رکعت نماز پڑھی اوردعامانگی: اے اللہ!مجھے کسی نیک ساتھی کی رفاقت نصیب ہو، چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ آرہے ہیں۔ جب وہ قریب آگئے تو میں نے(دل میں) کہا: شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: آپ کہاں سے ہیں؟میں نے عرض کیا: کوفہ کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں صاحب نعلین، صاحب وسادہ اور صاحب مطہرہ نہیں ہیں؟کیا تمہارے پاس وہ شخصیت نہیں ہے جسے شیطان مردود سے پناہ مل چکی ہے؟کیا تمہارے ہاں سربستہ راز جاننے والے نہیں ہیں، جن رازوں کو ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا؟پھر فرمایا: ابن ام عبدسورہ لیل کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں؟میں نے کہا: وہ اس طرح پڑھتے ہیں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾ انھوں نے فرمایا: مجھے نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اسی طرح سکھایا تھا لیکن اب اہل شام مجھے اس طرح قراءت کرنے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3761]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن ام عبد سے مراد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں کیونکہ ان کی والدہ ام عبد کے نام سے مشہور تھیں۔
2۔
حضرت ابودرداء ؓ نے اس لیے مذکورہ سوالات کیے کہ علقمہ کو بتایا جائے تمہارے پاس ایسے ایسے علماء موجود ہیں،ان کی موجودگی میں کسی دوسرے سے علم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
3۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ کے جوتے،چھاگل اور تکیہ اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔
آپ کی مسواک کا بھی اہتمام کرتے تھے،آپ کو وضو کراتے،جب آپ غسل فرماتے توپردہ کرتے۔
رسول اللہ ﷺ ان سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا:
”جب تم آؤ تو پردہ اٹھاکراندرچلے آؤ۔
جب تک میں تمھیں منع نہ کرو گھر میں آنے کی اجازت ہے۔
“ بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خادم خاص کی حیثیت حاصل تھی۔
(عمدة القاري: 472/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3761
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4943
4943. حضرت علقمہ بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے چند تلامذہ کے ہمراہ شام کے علاقے میں گیا۔ حضرت ابوالدرداء ؓ نے جب ہماری آمد کا سنا تو ہماری ملاقات کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی قرآن مجید کے قاری بھی ہیں؟ ہم نے عرض کی: جی ہاں۔ پھر فرمایا: تم میں سب سے اچھا قاری کون ہے؟ ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فرمایا: پڑھو۔ میں نے تلاوت شروع کی: ﴿وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ ﴿٣﴾ حضرت ابوالدرداء ؓ نے پوچھا: کیا تم نے خود اپنے استاد محترم کی زبانی اسی طرح سنا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی ﷺ کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے لیکن یہ شام والے حضرات اس کا انکار کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4943]
حدیث حاشیہ:
1۔
اہل شام کے ہاں مشہور قراءت اس طرح ہے (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ)
چونکہ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ)
سن چکے تھے، اس لیے یہ دونوں حضرات کسی دوسرے کی قراءت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
لیکن اس قراءت کو تواتر کا درجہ حاصل نہیں تھا، اس لیے جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف لکھوائے تو آپ نے متواتر قراءت کے علاوہ دیگرقراءت کو حذف کر دیا۔
2۔
مصحف عثمانی میں جمہور کی قراءت پر اتفاق ہوگیا، لیکن شاید حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جمہور کی قراءت نہیں پہنچی ہوگی، اس لیے انھوں نے دوسری قراءت کو تسلیم نہیں کیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4943
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6278
6278. مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے (دوسری سند) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6278]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکیہ لگانے یا گدا بچھانے کا ذکر ہے، لہٰذا اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
شارح مہلب نے کہا ہے کہ اس حدیث سے بڑے شخص کا احترام ثابت ہوتا ہے، نیز بڑا آدمی اپنے شاگرد کے گھر جا کر اسے دینی تعلیم دے سکتا ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر صاحب خانہ برا محسوس نہ کرے تو اس کے اکرام واحترام کو نظر انداز کر کے مہمان تواضع اختیار کرسکتا ہے۔
(فتح الباري: 82/11)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے تینوں بزرگوں، یعنی حضرت حذیفہ، حضرت عمار اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے مختلف ایسے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں جو ان کے ساتھ مخصوص تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6278