کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن»”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا»”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم»”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: Q5127]
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے۔ ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرا لے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں۔ پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو۔ یہ نکاح ”استبضاع“ کہلاتا تھا۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پر چند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جنا ہے۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں! یہ بچہ تمہارا ہے۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پر جھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا۔ اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہوتے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کا ناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہوتا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اور وہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جاتا، اس سے کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5127]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5127
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم نکاح کی جو اسلام کے زمانہ میں بھی باقی رہی ہے بیا ن کی کہ ایک مرد عورت کے ولی کو پیغام بھیجتا وہ مہر ٹھہرا کر اس کا نکاح کر دیتا۔ معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5127
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5127
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دور جاہلیت کے صرف چار نکاحوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ نکاح کی تین قسمیں اور تھیں جنھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان نہیں کیا اور وہ یہ ہیں: ٭ خفیہ نکاح: جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وہ خفیہ طور پر آشنا بنانے والی نہ ہوں۔ “(النساء: 25) دور جاہلیت میں لوگ کہتے تھے کہ خفیہ بدکاری میں کوئی حرج نہیں، البتہ علانیہ بدکاری قابل مذمت ہے۔ ٭نکاح متعہ: عارضی طور پر چند دنوں کے لیے نکاح کرنا۔ اسے اسلام نے ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا ہے۔ ٭نکاح بدل: دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے سے کہتا تو اپنی بیوی میرے حوالے کر دے، میں اپنی بیوی تیرے حوالے کر دیتا ہوں۔ چونکہ یہ نکاح بے غیرتی اور بے حیائی پر مشتمل تھے۔ اس لیے اسلام نے حرام کر دیا۔ صرف نکاح کی پہلی صورت کو برقرار رکھا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی پہلی صورت سے عنوان ثابت کیا ہے کہ نکاح سرپرست کے اختیار میں ہے کیونکہ حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ ایک مرد عورت کے سرپرست کو پیغام نکاح بھیجتا اور وہ حق مہر ٹھہرا کر اپنی زیر پرورش کا اس سے نکاح کر دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5127
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2272
´زمانہ جاہلیت والوں کے نکاحوں کا بیان۔` محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2272]
فوائد ومسائل: اہل اسلام کے معروف نکاح اور ملک یمن کے علاوہ (متعہ وغیرہ) جتنے بھی انداز ہیں سب حرام ہیں نیز ولی کے بغیر کسی عورت کا نکاح جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2272