محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا، ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ لڑکا نجیب (عمدہ نسب کا) ہو، اس نکاح کو نکاح استبضاع (نطفہ حاصل کرنے کا نکاح) کہا جاتا تھا۔ نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا، جب سب جمع ہو جاتے تو کہتی: تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے، اور میں نے بچہ جنا ہے، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں! یہ تیرا بچہ ہے، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی، یہ بدکار عورتیں ہوتیں، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہو جاتے، اور قیافہ شناس کو بلاتے، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا، وہ بچہ اس کا ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا، تو جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانہ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2272]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5127
5127. نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المو منین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک صورت تو یہی تھی جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا س کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجتا، پھر اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا، دوسری صورت یہ تھی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی: تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرلے، اس مدت میں شوہر خود اس سے جدا رہتا اور اس سے ہم بستر نہ ہوتا، پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے اس نے منہ کالا کیا تھا، اس نے بعد اگر خاوند کی طبیعت چاہتی تو اس سے صحبت کرتا، اور ایسا اس لیے کرتے تھے تا کہ ان کا لڑکا اچھا اور خوبصورت پیدا ہو۔ یہ نکاح ''نکاح ستبضاع'' کہلاتا تھا۔ تیسری صورت یہ تھی کہ چند آدمی جو دس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5127]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم نکاح کی جو اسلام کے زمانہ میں بھی باقی رہی ہے بیا ن کی کہ ایک مرد عورت کے ولی کو پیغام بھیجتا وہ مہر ٹھہرا کر اس کا نکاح کر دیتا۔ معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5127
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5127
5127. نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المو منین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک صورت تو یہی تھی جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا س کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجتا، پھر اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا، دوسری صورت یہ تھی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی: تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرلے، اس مدت میں شوہر خود اس سے جدا رہتا اور اس سے ہم بستر نہ ہوتا، پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے اس نے منہ کالا کیا تھا، اس نے بعد اگر خاوند کی طبیعت چاہتی تو اس سے صحبت کرتا، اور ایسا اس لیے کرتے تھے تا کہ ان کا لڑکا اچھا اور خوبصورت پیدا ہو۔ یہ نکاح ''نکاح ستبضاع'' کہلاتا تھا۔ تیسری صورت یہ تھی کہ چند آدمی جو دس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5127]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دور جاہلیت کے صرف چار نکاحوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ نکاح کی تین قسمیں اور تھیں جنھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان نہیں کیا اور وہ یہ ہیں: ٭ خفیہ نکاح: جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وہ خفیہ طور پر آشنا بنانے والی نہ ہوں۔ “(النساء: 25) دور جاہلیت میں لوگ کہتے تھے کہ خفیہ بدکاری میں کوئی حرج نہیں، البتہ علانیہ بدکاری قابل مذمت ہے۔ ٭نکاح متعہ: عارضی طور پر چند دنوں کے لیے نکاح کرنا۔ اسے اسلام نے ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا ہے۔ ٭نکاح بدل: دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے سے کہتا تو اپنی بیوی میرے حوالے کر دے، میں اپنی بیوی تیرے حوالے کر دیتا ہوں۔ چونکہ یہ نکاح بے غیرتی اور بے حیائی پر مشتمل تھے۔ اس لیے اسلام نے حرام کر دیا۔ صرف نکاح کی پہلی صورت کو برقرار رکھا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی پہلی صورت سے عنوان ثابت کیا ہے کہ نکاح سرپرست کے اختیار میں ہے کیونکہ حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ ایک مرد عورت کے سرپرست کو پیغام نکاح بھیجتا اور وہ حق مہر ٹھہرا کر اپنی زیر پرورش کا اس سے نکاح کر دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5127