الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”یعنی اللہ کو علم ہے اس کا جو کچھ کسی مادہ کے حمل میں ہوتا ہے اور جو کچھ ان کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے“۔
حدیث نمبر: Q4697-2
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ: مَثَلُ الْمُشْرِكِ الَّذِي عَبَدَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ غَيْرَهُ، كَمَثَلِ الْعَطْشَانِ الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى ظِلِّ خَيَالِهِ فِي الْمَاءِ مِنْ بَعِيدٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَتَنَاوَلَهُ وَلَا يَقْدِرُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَخَّرَ: ذَلَّلَ، مُتَجَاوِرَاتٌ مُتَدَانِيَاتٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْمَثُلَاتُ: وَاحِدُهَا مَثُلَةٌ وَهِيَ الْأَشْبَاهُ وَالْأَمْثَالُ، وَقَالَ: إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا، بِمِقْدَارٍ: بِقَدَرٍ، يُقَالُ: مُعَقِّبَاتٌ: مَلَائِكَةٌ حَفَظَةٌ تُعَقِّبُ الْأُولَى مِنْهَا الْأُخْرَى، وَمِنْهُ قِيلَ: الْعَقِيبُ، أَيْ عَقَّبْتُ فِي إِثْرِهِ الْمِحَالِ الْعُقُوبَةُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ: لِيَقْبِضَ عَلَى الْمَاءِ، رَابِيًا: مِنْ رَبَا يَرْبُو، أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ: مِثْلُهُ الْمَتَاعُ مَا تَمَتَّعْتَ بِهِ، جُفَاءً، يُقَالُ: أَجْفَأَتِ الْقِدْرُ إِذَا غَلَتْ فَعَلَاهَا الزَّبَدُ ثُمَّ تَسْكُنُ فَيَذْهَبُ الزَّبَدُ بِلَا مَنْفَعَةٍ فَكَذَلِكَ يُمَيِّزُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ الْمِهَادُ: الْفِرَاشُ، يَدْرَءُونَ: يَدْفَعُونَ دَرَأْتُهُ عَنِّي دَفَعْتُهُ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ: أَيْ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، وَإِلَيْهِ مَتَابِ: تَوْبَتِي، أَفَلَمْ يَيْئَسْ: أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ، قَارِعَةٌ: دَاهِيَةٌ، فَأَمْلَيْتُ: أَطَلْتُ مِنَ الْمَلِيِّ وَالْمِلَاوَةِ وَمِنْهُ مَلِيًّا، وَيُقَالُ لِلْوَاسِعِ الطَّوِيلِ مِنَ الْأَرْضِ مَلًى مِنَ الْأَرْضِ، أَشَقُّ: أَشَدُّ مِنَ الْمَشَقَّةِ، مُعَقِّبَ: مُغَيِّرٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُتَجَاوِرَاتٌ: طَيِّبُهَا وَخَبِيثُهَا السِّبَاخُ، صِنْوَانٌ: النَّخْلَتَانِ أَوْ أَكْثَرُ فِي أَصْلٍ وَاحِدٍ، وَغَيْرُ صِنْوَانٍ: وَحْدَهَا، بِمَاءٍ وَاحِدٍ: كَصَالِحِ بَنِي آدَمَ وَخَبِيثِهِمْ، أَبُوهُمْ وَاحِدٌ، السَّحَابُ الثِّقَالُ الَّذِي فِيهِ الْمَاءُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ، يَدْعُو الْمَاءَ بِلِسَانِهِ، وَيُشِيرُ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَلَا يَأْتِيهِ أَبَدًا، فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا: تَمْلَأُ بَطْنَ كُلِّ وَادٍ، زَبَدًا رَابِيًا: الزَّبَدُ زَبَدُ السَّيْلِ، زَبَدٌ مِثْلُهُ خَبَثُ الْحَدِيدِ وَالْحِلْيَةِ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كباسط كفيه‏» یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتا ہے جیسے پیاسا آدمی پانی کا تصور کر کے دور سے پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اس کو نہ لے سکے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «سخر‏ا» کے معنی تابعدار کیا، مسخر کیا۔ «متجاورات‏» ایک دوسرے سے ملے ہوئے، قریب قریب۔ «المثلات‏»، «مثلة» کی جمع ہے یعنی جوڑا اور مشابہ۔ اور دوسری آیت میں ہے «إلا مثل أيام الذين خلوا‏» مگر مشابہ دنوں ان لوگوں کے جو پہلے گزر گئے «بمقدار‏» یعنی اندازے سے، جوڑ سے۔ «معقبات‏» نگہبان فرشتے جو ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں، اسی سے «عقيب‏.‏» کا لفظ نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «عقبت في إثره» یعنی میں اس کے نشان قدم پر پیچھے پیچھے گیا۔ «المحال» عذاب۔ «كباسط كفيه إلى الماء‏» جو دونوں ہاتھ بڑھا کر پانی لینا چاہے۔ «رابيا‏»، «ربا»، «يربو‏.‏» سے نکلا ہے یعنی بڑھنے والا یا اوپر تیرنے والا۔ «المتاع» جس چیز سے تو فائدہ اٹھائے اس کو کام میں لائے۔ «جفاء‏»، «أجفأت القدر» سے نکلا ہے یعنی ہانڈی نے جوش مارا جھاگ اوپر آ گیا پھر جب ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے تو پھین جھاگ بیکار سوکھ کر فنا ہو جاتاہے۔ حق باطل سے اسی طرح جدا ہو جاتا ہے۔ «المهاد‏» بچھونا۔ «يدرءون‏» دھکیلتے ہیں، دفع کرتے ہیں یہ «درأته» سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کو دور کیا، دفع کر دیا۔ «سلام عليكم‏» یعنی فرشتے مسلمانوں کو کہتے جائیں گے تم سلامت رہو۔ «وإليه متاب‏» میں اسی کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ «أفلم ييأس‏» کیا انہوں نے نہیں جانا۔ «قارعة‏» آفت، مصیبت۔ «فأمليت‏» میں نے ڈھیلا چھوڑا، مہلت دی یہ لفظ «ملي» اور «ملاوة» ‏‏‏‏ سے نکلا ہے۔ اسی سے نکلا ہے جو جبرائیل کی حدیث میں ہے۔ «فلبثت مليا» (یا قرآن میں ہے) «واهجرنى مليا» اور کشادہ لمبی زمین کو «ملا» کہتے ہیں۔ «أشق‏»، «افعل التفصيل» کا صیغہ ہے مشقت سے یعنی بہت سخت۔ «معقب‏ لا معقب‏ لحكمه» میں یعنی نہیں بدلنے والا اور مجاہد نے کہا «متجاورات‏» کا معنی یہ ہے کہ بعضے قطعے عمدہ قابل زراعت ہیں بعض خراب شور کھارے ہیں۔ «صنوان‏» وہ کھجور کے درخت جن کی جڑ ملی ہوئی ہو (ایک ہی جڑ پر کھڑے ہوں)۔ «غير صنوان‏» الگ الگ جڑ پر سب ہی ایک پانی سے اگتے ہیں (ایک ہی ہوا سے ایک ہی زمین میں) آدمیوں کی بھی یہی مثال ہے کوئی اچھا کوئی برا حالانکہ سب ایک باپ آدم کی اولاد ہیں۔ «السحاب الثقال» وہ بادل جن میں پانی بھرا ہوا ہو اور وہ پانی کے بوجھ سے بھاری بھر کم ہوں۔ «كباسط كفيه‏» یعنی اس شخص کی طرح جو دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی کو زبان سے بلائے، ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے اس صورت میں پانی کبھی اس کی طرف نہیں آئے گا۔ «سالت أودية بقدرها‏» یعنی نالے اپنے انداز سے بہتے ہیں یعنی پانی بھر کر «زبدا»، «رابيا‏» سے مراد بہتے پانی کا پھین جھاگ «زبد مثله» سے لو ہے، زیورات وغیرہ کا پھین جھاگ مراد ہے۔ لفظ «معقبات» سے مراد یہ ہے کہ رات کے فرشتے الگ اور دن کے الگ ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4697-2]
حدیث نمبر: Q4697
غِيضَ: نُقِصَ.
‏‏‏‏ «غيض» ای «نقص» کم کیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4697]
حدیث نمبر: 4697
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ: لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ".
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی، کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں ہو گی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4697]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريمفتاح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم أحد ما يكون في غد ولا يعلم أحد ما يكون في الأرحام ولا تعلم نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت وما يدري أحد متى يجيء المطر
   صحيح البخاريمفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله
   صحيح البخاريمفاتيح الغيب خمس ثم قرأ إن الله عنده علم الساعة
   صحيح البخاريمفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما في غد إلا الله ولا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس بأي أرض تموت ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله
   صحيح البخاريمفاتح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4697 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4697  
حدیث حاشیہ:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ علم غیب خاص اللہ کے لئے ہے جو کسی غیر کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھے وہ جھوٹا ہے۔
پیغمبروں کو بھی علم غیب حاصل نہیں ان کو جو کچھ اللہ چاہتا ہے وحی کے ذریعہ معلوم کرا دیتا ہے۔
اسے غیب دانی نہیں کہا جاسکتا۔
حمل کی کمی بیشی کا مطلب یہ ہے کہ پیٹ میں ایک بچہ ہے یا دو بچے یا تین یا چار۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4697   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح بخاری 4697  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض غیب کی اطلاع
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی غیبی خبریں اور علمِ غیب سے متعلق علمائے اہلِ سنت کا موقف کیا ہے؟
الجواب: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ لاَّ يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلاَّ اللهُ﴾
کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے الغیب نہیں جانتا مگر اللہ جانتا ہے۔ [النمل: 65]
اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) قیامت کے بارے میں پوچھنے والے مشرکین سے جو کہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ کہہ دو! اللہ نے جو علم اپنے پاس رکھا ہے اور مخلوق سے اُسے چھُپا دیا ہے اُس الغیب کو آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں جانتا اور قیامت بھی اسی (الغیب) میں سے ہے۔ [تفسير طبري ج20ص 5]
اس آیتِ کریمہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے استدلال کر کے فرمایا:
«وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَي اللهِ الْفِرْيَةَ»
اور جس نے دعویٰ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے جو کل ہو گا تو اس نے اللہ پر بڑا افتراء باندھا، یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا:۔
[كتاب التوحيد لابن خزيمه ص 223 ح 324 وسنده صحيح، المستخرج لابي نعيم الاصبهاني 1/ 242 ح 442 وسنده صحيح، صحيح ابي عوانه ج1ص 154ح 304]
معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے، نیز اُس کا علم ہر وقت ہر چیز کو محیط ہے، وہ «جميع ماكان و جميع ما يكون» کا علم جانتا ہے اور کوئی چیز بھی اُس کے علم سے باہر نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَفَاتِحُ الغَيْبِ خَمْسٌ لاَ يَعْلَمُهَا إِلَّا اللهُ: لاَ يَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ إِلَّا اللهُ، وَلاَ يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ إِلَّا اللهُ، وَلاَ يَعْلَمُ مَتَي يَأْتِي المَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللهُ، وَلاَ تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَلاَ يَعْلَمُ مَتَي تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللهُ»
غیب کی پانچ چابیاں ہیں جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا: کل کیا ہو گا؟ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ارحام میں کیا پو شیدہ ہے؟ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتاکہ بارش کب ہو گی، کسی جاندار کو یہ معلوم نہیں کہ زمین کے کس (حصے پر) اُس کی موت آئے گی اور اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتاکہ قیامت کب آئے گی۔ [صحيح بخاري: 4697]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أُوتِيتُ مَفَاتِيحَ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا الْخَمْسَ»
مجھے ہر چیز کی چابیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے۔
پھر آپ نے سورۂ لقمان [آيت: 34] کی تلاوت فرمائی۔
[مسند احمد 2/ 85۔ 86 ح 5579 وسنده صحيح، المعجم الكبير للطبراني 12/ 360۔ 361 ح 13344]
تنبیہ: شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کو بڑی غلطی لگی ہے کہ انہوں نے ذکر اور عدمِ ذکر والے فلسفے کی رُو سے اس حدیث کو «شاذ أوله» قرار دے کر اپنے سلسلہ ضعیفہ [7/ 348 ح 3335] میں نقل کر دیا۔ جبکہ اُن کے برعکس شیخ احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا: «إسناده صحيح» اس کی سند صحیح ہے۔ [المسند بتحقيق احمد شاكر 7/ 276]

اس حدیث سے دو باتیں صاف ثابت ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ چیزوں کی چابیاں نہیں دی گئیں۔
➋ ان پانچ چیزوں کے علاوہ ہر چیز کی چابیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«أُوتِيَ نَبِيُّكُمْ صلى الله عليه وسلم مَفَاتِيحَ كُلِّ شَيْءٍ غَيْرَ خَمْسٍ»
آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ کے علاوہ سب چابیاں عطاکی گئیں۔ پھر انہوں نے سورۂ لقمان (آیت: 34) کی تلاوت فرمائی۔
[مسند احمد 1/ 386 ح 3659 وسنده حسن، مسند الحميدي بتحقيقي: 125، وقال ابن كثير: وهذا إسناد حسن إلخ]
اس حدیث کے راوی عبداللہ بن سلمہ جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث ہیں۔ دیکھئے: [مسند الحميدي بتحقيقي كا حاشيه ح 57]
عمرو بن مرہ کی روایت کی وجہ سے یہ حدیث عبداللہ بن سلمہ کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔ اس سلسلے میں مفصل دلائل کے لئے کتبِ حدیث کی طرف رجوع فرمائیں۔
ایک آیتِ کریمہ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ الدمشقی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ الْغَيْبَ جَمِيعَهُ . . .»
بے شک اللہ سارا (کُل کا کُل) غیب جانتا ہے۔۔۔
[تفسير ابن كثير 4/ 403، الانبياء: 110]
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
﴿قُلْ لَّآاَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لاَ ضَرًّا اِلاَّ مَا شَآءَ اللهُ - وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَ سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ - وَمَا مَسَّنِيَ السُّوؔءُ﴾
کہہ دیجئے: میں اپنی جان کے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے اور اگر میں الغیب جانتا تو بہت سی خیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ [الاعراف: 188]
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے لکھاہے:
اگر میں وہ جانتا جو ہونے والا ہے اور ابھی تک نہیں ہوا تو خیر کثیر اکٹھی کر لیتا۔ [تفسير طبري 590/5، طبع دارالحديث القاهره]
اب سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء اور رسول بھی اللہ تعالیٰ کی اطلاع اور وحی سے بعض غیب جانتے تھے؟ تو اس کے جواب سے پہلے جلیل القدر مفسرین کرام اور علمائے عظام کے دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:
حوالہ نمبر 1:
اہلِ سنت کے مشہور ثقہ امام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310ھ) نے سورۃ الجن (آیت: 26۔ 27) کی تفسیر میں فرمایا:
«فَلَا يُظْهِرُ عَلَي غَيْبِهِ أَحَدًا، فَيُعْلِمُهُ أَوْ يُرِيهِ إِيَّاهُ ﴿إِلَّا مَنِ ارْتَضَي مِنْ رَسُولٍ﴾ فَإِنَّهُ يُظْهِرُهُ عَلَي مَا شَاءَ مِنْ ذَلِكَ»
پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، تاکہ وہ اسے جان لے یا دیکھ لے، سوائے رسول کے جس پر وہ راضی ہے تو اُسے اس میں سے جو چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔ [تفسير طبري ج29ص 76]

حوالہ نمبر 2:
امام ابن جریر سے تقریباًً دو صدیاں پہلے مفسر قرآن امام قتادہ بن دعامہ البصری رحمہ اللہ (متوفی 117ھ) نے فرمایا:
« ﴿إِلَّا مَنِ ارْتَضَي مِنْ رَسُولٍ﴾ فَإِنَّهُ يُظْهِرُهُ مِنَ الْغَيْبِ عَلَي مَا شَاءَ إِذَا ارْتَضَاهُ»
سوائے جس رسول پر وہ راضی ہو، تو اسے غیب میں سے جو چاہتا ہے بتا دیتا ہے۔ اگر اُس (یعنی اللہ تعالیٰ) کی رضا مندی ہو۔
[تفسير ابن جرير الطبري 29/77 وسنده صحيح]

حوالہ نمبر 3:
امام ابومحمد حسین بن مسعود البغوی الفراء رحمہ اللہ (متوفی 516ھ) نے سورۂ آل عمران (آیت: 179) کی تفسیر میں فرمایا:
«فَيُطْلِعُهُ عَلَي بَعْضِ عِلْمِ الْغَيْب»
پس وہ (اللہ) اسے (اپنے رسول کو) بعض علم غیب پر مطلع فرماتا ہے۔
[تفسير بغوي ج1ص 378]
امام بغوی کی اس تفسیر سے صاف ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب (کی خبروں) میں سے بعض کا علم عطا فرمایا تھا۔

حوالہ نمبر 4:
امام ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی 468ھ) نے فرمایا:
«والمعني أن من ارتضاه (للرسالة والنبوة) فإنه يطلعه علٰي ما شاء من غيبه»
اور معنی یہ ہے کہ جسے وہ رسالت اور نبوت کے لیے چُن لے تو اُسے اپنے غیب میں سے جس پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔
[الوسيط فى تفسير القرآن المجيد 4/ 369، الجن: 26۔ 27]

حوالہ نمبر 5:
حافظ ابن الجوزی (متوفی 597ھ) نے فرمایا:
«والمعني: أن من ارتضاه للرسالة أطلعه علٰي ماشاء من غيبه»
اور معنی یہ ہے: جسے وہ رسالت کے لئے چُن لے تو اپنے غیب میں سے جس پر چاہے اُسے اطلاع دے دیتا ہے۔
[زاد المسير 8/385، الجن: 26۔ 27]

حوالہ نمبر 6:
قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ عرف ابن العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے منافقین کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
«وأنّ الله يطلعه علٰي ماشاء من غيبه»
اور بے شک اللہ اسے (سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے غیب میں سے جو چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔
[احكام القرآن 2/ 1033، التو به: 127]

حوالہ نمبر 7:
ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی الانصاری (متوفی 671ھ) نے فرمایا:
«فإنه يظهره علٰي مايشاء من غيبه لأنّ الرسل مؤيدون بالمعجرات و منها الإخبار عن بعض الغائبات»
پس وہ انہیں اپنے غیب میں سے جو چاہے اطلاع دیتا ہے، کیونکہ رسولوں کی معجزات کے ساتھ تائید کی گئی اور ان (معجزات) میں سے بعض غیبوں کی خبر دینا (بھی) ہے۔
[تفسير قرطبي 19/ 27۔ 28، الجن: 26۔ 27]
نیز دیکھئے: [تفسير قرطبي ج8ص 299، التو به: 127]

حوالہ نمبر 8:
امام ابوحیان محمد بن یوسف الاندلسی (متوفی 745ھ) نے فرمایا:
«فَإِنَّهُ يُظْهِرُهُ عَلَي مَا يَشَاءُ مِنَ ذَلِكَ»
پس وہ اس (غیب) میں سے جو چاہے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اطلاع دے دیتا ہے۔
[البحر المحيط ج8ص 348، الجن: 26۔ 27]

حوالہ نمبر 9:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی 728ھ) نے بعض انبیاء کے بارے میں فرمایا:
«وَمِنْهُمْ مَنْ أَطْلَعَهُ عَلَي مَا شَاءَ مِنْ غَيْبِهِ»
اور اُن میں سے وہ بھی ہیں جنھیں اُس (اللہ) نے اپنے غیب میں سے بعض پر اطلاع فرمائی۔ [مجموع فتاويٰ 28/ 605]

حوالہ نمبر 10:
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (متوفی 751ھ) نے فرمایا:
«اسْتِدْرَاكٌ لِمَانَفَاهُ مِنَ اطِّلَاعِ خَلْقِهِ عَلَي الْغَيْبِ سِوَي الرُّسُلِ، فَإِنَّهُ يُطْلِعُهُمْ عَلَي مَا يَشَاءُ مِنْ غَيْبِهِ……»
اور لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے نفی پر استدراک ہے کہ اللہ اپنی مخلوقات میں سے رسولوں کے سوا کسی کو غیب پر اطلاع نہیں دیتا، پس وہ جو چاہتا ہے اپنے غیب میں سے انہیں اطلاع دے دیتا ہے۔۔۔
[زاد المعاد ج3ص 220 فضل فى ذكر بعض الحكم والغايات المحمودة۔۔۔۔]
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [تفسير بيضاوي 1/ 195 تفسير ثعلبي 3/ 219 ارشاد القاري للقسطلاني 7/186 الدر المصون فى علوم الكتاب المكنون6/ 399 جلالين ص92 اضواء البيان 2/ 196 اور التفسير الصحيح لحكمت بشير 4/ 548] وغیرہ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک آیت کی تفسیر میں فرمایا:
«فَإِنَّهُ يَقْتَضِي اطِّلَاعَ الرَّسُولِ عَلَي بَعْضِ الْغَيْبِ»
پس اس کا یہ تقاضا ہے کہ رسول کو بعض غیب پر اطلاع دی جائے۔
[فتح الباري 8/ 514 تحت ح 4778]
آثار سلف صالحین، آیاتِ کریمہ اور احادیثِ صحیحہ کا اس مسئلے میں خلاصہ درج ذیل ہے:
1- صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اس کی صفتِ خاصہ ہے جس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔
2- «جميع ماكان و مايكون» یعنی سارا اور کُلی علمِ غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
3- پانچ چیزوں (مثلاًً قیامت وغیرہ) کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور مخلوق میں سے کوئی بھی ان پانچ چیزوں کا علم نہیں جانتا۔
4- رسولوں اور انبیاء کو بعض علمِ غیب کی اطلاع دی گئی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمِ غیب کے بارے میں دو فرقوں کے متضاد نظریات درج ذیل ہیں:
1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکمیلِ قرآن کے بعد «جميع ما كان و جميع ما يكون» کا علم باذن اللہ جانتے ہیں۔
اس نظریے کی کوئی صریح دلیل قرآن، حدیث، ا جماع اور آثارِ سلف صالحین سے ثابت نہیں اور نہ تکمیلِ قرآن کی متعین تاریخ کا علم کسی حدیث یا خبر میں موجود ہے۔
اس جواب کے شروع میں گزر چکا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے فرمایا تھا: اور جس (شخص) نے دعویٰ کیا کہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے جو کل ہو گا، تو اس نے اللہ پر بڑا افتراء باندھا یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا۔ [صحيح ابي عوانه: 304]
ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے یہ بات مسروق تابعی کے سامنے فرمائی تھی، جس سے ثابت ہوا کہ اُن کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تکمیلِ قرآن کے بعد کا ہے۔
2- بعض لوگ ایک فلسفہ گھڑتے ہیں کہ جو غیب وحی یا اللہ کی طرف سے اطلاع و اخبار کے ذریعے سے معلوم ہو، اسے غیب نہیں کہتے، لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا غیب نہیں جانتے تھے بلکہ ایک شخص نے میرے سامنے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذرا برابر غیب بھی نہیں جانتے تھے۔ «أستغفرالله، معاذ الله»
یہ بعض مبتدعہ اور جدید متکلمین کا عقیدہ ہے جس کی کوئی دلیل قرآن، حدیث، اجماع اور آثارِ سلف صالحین میں موجود نہیں، بلکہ یہ عقیدہ سراسر باطل اور صریح گمراہی ہے۔
حافظ ابن عبدالبر الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) نے ایک حدیث کی تشریح میں لکھا:
«وفيه أنه كان صلى الله عليه وسلم لا يعلم الغيب و إنما كان يعلم منه ما يظهره الله عليه»
اور اس حدیث میں یہ (فقہ) ہے کہ بےشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے اور آپ صرف وہ جانتے تھے جواللہ آپ پر ظاہر فرماتا تھا۔
[التمهيد لما فى الموطأ من المعاني والاسانيد ج6ص 251]
ابوالولید الباجی (متوفی 494ھ) نے ایک حدیث کی تشریح میں فرمایا:
«لأنه لا يعلم من الغيب إلا ما اطلع عليه بالوحي»
کیونکہ بے شک آپ غیب میں سے نہیں جانتے تھے سوائے اُس کے جس کی آپ کو وحی کے ذریعے سے اطلاع دی گئی تھی۔
[المنتقيٰ شرح الموطأ ج7ص 129، كتاب الاقضيه باب 1]
آخر میں بطور فائدہ اور بطور تنبیہ عرض ہے کہ مخلوق میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم سب سے زیادہ ہے۔
صحابۂ کرام کا یہ تکیۂ کلام تھا اور وہ کثرت سے فرمایا کرتے تھے کہ «اَللّٰهُ وَ رَسُولُهُ أَعلَم» یعنی اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ دیکھئے [صحيح بخاري 53، 87، 425، 7447، صحیح مسلم 8 [93]، 17 [116]، 30 [143]، 2969 [7439] ]
اور [موطأ امام مالك 1/ 192ح 452۔۔۔]
عبید بن عمیر بن قتادہ اللیثی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک دن (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے کہا: یہ آیت: تمہارے خیال میں کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ تو انہوں نے کہا: «الله أعلم» اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے۔ تو عمر (رضی اللہ عنہ) غصے ہوئے اور فرمایا: کہو ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔۔۔ الخ [صحيح بخاري ج2ص 651ح 4538، فتح الباري ج8ص 202]
یعنی صاف صاف جواب دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد «اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ» نہیں کہنا چاہیے بلکہ صرف «الله أعلم» کہنا چاہئے۔
مستدرک الحاکم (ج3ص 543ح 6307، مخطوط مصور ج3ص 291) کی ایک روایت میں «اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ» کے الفاظ آئے ہیں اور حاکم نے اسے صحیح علٰی شرط الشیخین قرار دیا، لیکن اس کی سند منقطع ہونے کی وجہ ضعیف ہے۔ اس کے راوی عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں اور نہ روایت میں یہ صراحت ہے کہ انہوں نے اسے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا تھا۔ «والله اعلم»
مشہور اہل حدیث عالم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے لکھاہے:
ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کی باتوں پر مطلع فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہو جاتا ہے۔
[احسن البيان ص 163، حاشيه 3، آل عمران: 179]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اللہ ہی عالم الغیب ہے اور وہی الغیب جانتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بعض غیب کی اطلاع فرمائی تھی۔
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . .
ماہنامہ الحدیث شمارہ 102 صفحہ 11 اور فتاویٰ علمیہ باب: توحید و سنت کے مسائل بعنوانہ
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 999   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4697  
حدیث حاشیہ:

درج ذیل آیت میں بھی حدیث کا مضمون بیان ہوا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔
بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔
(لقمان: 31۔
34)


اس حدیث میں جن پانچ چیزوں کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان کا علم کسی مخلوق کو نہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی انھیں جانتا ہے یہ کوئی تخصیص نہیں ہے بصورت دیگر درج آیل آیت سے تعارض ہو جائے گا۔
کہہ دیجیے! آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔
(النمل27۔
65)

یعنی اللہ تعالیٰ علم غیب کے متعلق یکتا و تنہا ہے۔
اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4697   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4778  
4778. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4778]
حدیث حاشیہ:
ان پانچ باتوں کو خزانہ غیب کی کنجیاں کہا گیا ہے جس کا علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے جو کوئی ان میں سے کسی کے جاننے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور جو کسی غیر اللہ کے لئے ایسا عقیدہ رکھے وہ اشراک فی العلم کے شرک کا مرتکب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4778   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1039  
1039. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1039]
حدیث حاشیہ:
جب اللہ تعالی نے صاف قرآن میں اور پیغمبر صاحب نے فرما دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ برسات کب پڑے گی تو جس شخص میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ ان دھوتی بند پنڈتوں کی بات کیوں مانے گا اور جو مانے اور ان پر اعتقاد رکھے معلوم ہوا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور کافر ہے۔
لطف یہ ہے کہ رات دن پنڈتوں کا جھوٹ اور بے تکا پن دیکھتے جاتے ہیں اور پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر کافر لوگ ایسا کریں تو چنداں تعجب نہیں۔
حیرت ہوتی ہے باوجود دعویٰ اسلام مسلمان بادشاہ اور امیر نجومیوں کی باتیں سنتے ہیں اور آئندہ واقعات پوچھتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ ان نام کے مسلمانوں کی عقل کہا ں تشریف لے گئی ہے۔
صدہا مسلمان بادشاہتیں انہیں نجومیوں پہ اعتقاد رکھنے سے تباہ اور برباد ہو چکی ہیں اور اب بھی مسلمان بادشاہ اس حرکت سے باز نہیں آتے جو کفر صریح ہے:
لاحول ولا قوة إلا باللہ العظیم (مولانا وحید الزماں)
آیت کریمہ میں غیب کی پانچ کنجیوں کو بیان کیا گیا ہے جو خاص اللہ ہی کے علم میں ہیں اور علم غیب خاص اللہ ہی کو حاصل ہے۔
جو لوگ انبیاءاولیاء کے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی روسے صریح کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پوری آیت شریفہ یہ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ ) (لقمان: 34)
یعنیبے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے (کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی)
اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔
قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔
اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن نجومی پنڈت ملا کو یہ خاص اللہ پاک ہی جانتا ہے، اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔
الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔
اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں باب کی مناسبت سے اس حدیث کو نقل فرما کر ثابت فرمایا کہ بارش ہونے کا صحیح علم صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے اور کوئی نہیں بتلا سکتا کہ یقینی طور پر فلاں دن فلاں وقت بارش ہو جائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1039   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7379  
7379. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کسی کو پتا نہیں کہ کل کیا ہوگا؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی۔ اللہ کے سوا کسی شخص کو علم نہیں کہ وہ کس زمین میں فوت ہوگا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7379]
حدیث حاشیہ:
اس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ غیب کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ تھا مگر جو بات اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیتا وہ معلوم ہو جاتی۔
ابن اسحاق نے مغازیت میں نقل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی تو ابن صلیت کہنے لگا۔
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
اپنے تئیں پیغمبر کہتے ہیں اور آسمان کے حالات تم سے بیان کرتے ہیں لیکن ان کو اپنی اونٹنی کی خبر نہیں وہ کہاں ہے؟ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو فرمایا کہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے اور تو قسم خدا کی وہی بات جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلائی اور اب اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلا دیا وہ اونٹنی فلاں گھاٹی میں ہے‘ ایک درخت پر اٹکی ہوئی ہے‘ آخر صحابہ گئے اور اس کو لے کر آئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7379   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1039  
1039. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1039]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مرکزی عنوان کے اختتام پر امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک نظریاتی اصلاح کو ضروری خیال کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بارش ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن یا فلاں وقت یقینی طور پر بارش ہو جائے گی۔
محکمۂ موسمیات بھی اپنے ظن و تخمین سے پیش گوئی کرتا ہے جو غلط بھی ہو جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ )
بےشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔
وہی بارش برساتا ہے۔
وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے۔
نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ کل کیا کام کرے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں مرے گا۔
یقینا اللہ یہ سب کچھ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔
(لقمان34: 31) (2)
آج کل رحم مادر کے متعلق بہت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جدید آلات کے ذریعے سے بچے کے نر اور مادہ ہونے کا پتہ لگا لیا جاتا ہے، حالانکہ ماں کے پیٹ میں صرف نر مادہ نہیں بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب فرشتہ جنین میں روح ڈالتا ہے تو اس کی عمر، اس کی روزی، وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت، الغرض یہ تمام باتیں بھی رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں، نیز جدید آلات سے جو کچھ پتہ لگایا جاتا ہے وہ بھی یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔
روز مرہ کے سینکڑوں واقعات و مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں۔
ویسے بھی اس طرح کی معلومات کے متعلق دلچسپی رکھنا بے سود ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کی پیش گوئی کی بنا پر گھر میں تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں کہ اچانک لڑکے کے بجائے لڑکی کی پیدائش ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے، اس لیے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے سے معلومات لینا فضول شوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1039   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4627  
4627. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے: بےشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے۔ وہی بارش برساتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے، نیز کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مرے گا، بلاشبہ اللہ ہی ان باتوں کا خوب علم رکھنے والا خوب خبردار ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4627]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی علامات تو بیان فرمائی ہیں لیکن قیامت کے واقع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ماں کے پیٹ میں مشینی ذرائع سے بچے کے نر مادہ ہونے کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہو لیکن وہ بچہ نیک ہے یا بد، ناقص ہے یا کامل، خوبصورت ہے یا بد صورت کالا ہے یا گورا ان باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و قرآئن سے اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ اندازے کبھی غلط نکلتے اور کبھی صحیح بھی ہو جاتے ہیں حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔

انسان کل کیا کرے گا؟ کسی کو آنے والے کل کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ موت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔
وہ گھر میں آئے گی یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں، اپنی خواہشات کی تکمیل کے بعد آئےگی یا تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی، اس کے متعلق اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔
ان تمام باتوں کے متعلق وہ تفصیلی علم رکھتا ہے گویا کتاب مبین یا لوح محفوظ ایک ایسا نورانی تختہ ہے جس میں ازل سے کائنات کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے، پھر اسی کے مطابق اس جہان میں واقعات ظاہر ہو رہے ہیں اسی کے مطابق اس جہان کا خاتمہ ہو گا پھر روز آخرت قائم ہو گا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4627   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4778  
4778. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: بےشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4778]
حدیث حاشیہ:
ان پانچ باتوں کو غیب کی چابیاں کہا گیا ہے، جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے سوا کسی نبی، فرشتے، ولی یا نیک بندے کو کوئی علم نہیں۔
اگر کوئی ان کے جاننے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا، مکار اور دغاباز ہے۔
جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں اس قسم کا عقیدہ رکھے تو وہ شرک فی العلم کا مرتکب ہے۔
اللہ تعالیٰ اس سے اہل اسلام کو محفوظ رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4778   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7379  
7379. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کسی کو پتا نہیں کہ کل کیا ہوگا؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی۔ اللہ کے سوا کسی شخص کو علم نہیں کہ وہ کس زمین میں فوت ہوگا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7379]
حدیث حاشیہ:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں انھیں اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔
" (الأنعام: 59)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر بیان فرمائی ہے آیت کریمہ سےمعلوم ہوا کہ غیب کے سب علوم ایک مخصوص مقام پر خزانوں کی صورت میں سربمہر بند ہیں، پھر انھیں مقفل کر دیا گیا ہے۔
ان تالوں کی چابیاں صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، ان خزانوں پر مطلع ہونا تو درکنار ان چابیوں کا علم بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
جہاں یہ خزانے سربمہر ہیں وہاں ہرچیز کی مقادیراللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دی ہیں۔
اسی مقام کوقرآن مجید میں لوح محفوظ، ام الکتاب، امام مبین، کتاب مکنون اور کتاب مبین کہا گیا ہے۔
یہی مقادیر تمام مخلوقات کا مبدا یا نقطہ آغاز ہیں۔
ان خزانوں تک ان خزانوں کے مالک کے علاوہ اور کسی کی رسائی ممکن نہیں۔
ان خزانوں کی وسعت کو عام لوگوں کے ذہن نشین کرانے کےلیے اللہ تعالیٰ نے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بحروبر(خشکی اور تری)
میں جو کچھ ہے اسے وہی جانتا ہے کوئی پتا (بھی)
نہیں گرتا مگروہ اسے جانتا ہے نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہی ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو۔
تر اور خشک جو کچھ بھی ہے سب کتاب مبین میں موجود ہے۔
(الأنعام 59)

کائنات میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے ان تمام باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ تفصیلی علم رکھتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر پانچ چیزوں کے متعلق اس طرح وضاحت کی ہے:
بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔
وہی بارش برساتا ہے اور وہی (یقینی طور پر)
جانتا ہے جو کچھ رحموں(ماؤں کے پیٹوں)
میں ہے۔
اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا ہے ہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔
بے شک اللہ ہی ہے جو سب کچھ جاننے والا پوری خبررکھنے والا ہے۔
(لقمان 31/34)
مذکورہ امور غیب ایسے ہیں جن کا علم کسی انسان کو نہیں ہو سکتا۔
ان پانچ چیزوں میں گویا سارے جہاں سمٹ آئے ہیں۔
قیامت سے مراد امور آخرت ہیں۔
ان میں سے صرف قیامت کا ذکر کیا ہے جو دنیا کے زیادہ قریب ہے۔
اس قیامت کے متعلق کسی کو علم نہیں کہ وہ کب آئے گی، چہ جائیکہ اس کے بعد واقع ہونے والے واقعات کا کسی کو علم ہو۔
نفع والی بارش کے متعلق بھی کسی کو علم نہیں، اس سے عالم بالا کی طرف اشارہ کیا ہے، ان میں سے بارش کا ذکر کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں لیکن اس کے باوجود قطعی علم کسی کو نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں بھی ظن وتخمین اور اندازوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
ماں کے پیٹ میں کیا کچھ ہے؟ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ اس کی عمر، اس کی روزی، خوشحال ہوگا یا تنگ دست، نیز یہ کہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت، یہ تمام باتیں رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں۔
اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہرمادہ جو کچھ اپنے پیٹ میں اٹھائے ہوئے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے اور جو کچھ ان کے پیٹوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے وہ اسے بھی جانتاہے۔
(الرعد 8)
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں کہ رحم مادہ میں نطفے پر کیا کچھ تغیرات واقع ہوتے ہیں اور اس سے شکل وصورت کیسے بنتی ہے۔
چوتھی بات کہ وہ کل کیا کرے گا، اس زمانے کے انواع اور اس میں ہونے والے حوادث کی طرف اشارہ ہے۔
ان میں آئندہ کل کا ذکر کیا ہے جو انسان کے بہت قریب ہے۔
جو مستقبل قریب میں ہونے والے حادثات کو نہیں جانتا وہ مستقبل بعید کے واقعات کو کیسے معلوم کر سکتا ہے، یعنی انسان کو کوئی پتا نہیں ہے کہ اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں بلکہ اسے کل تک جینا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔
آخری بات یہ کہ اس نے کب اور کہاں مرنا ہے؟ اس سے عالم زیریں کی طرف اشارہ ہے ان میں سے صرف کسی سرزمین میں مرنے کا ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں موت آتی ہے لیکن اس کے باوجود موت کے وقت قدرت اسے کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
موت آنے کے بعد بھی پتا نہیں ہوتا کہ اس نے دفن ہونا ہے یا نہیں، اگر ہوتا ہے تو کفن میں یا اس کے بغیر اور کسی جگہ پر یا بے گوروکفن درندوں اور پرندوں کی خوراک بننا ہے۔
یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
یہ پانچ امور ایسے ہیں جن سے ہر انسان کو دلچپسی ہوتی ہے، اس لیے خاص طور پران کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ بہت سے ایسے امور ہیں جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک کسی انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

واضح رہے کہ غیب کی دو قسمیں ہیں:
۔
ایک قسم کا تعلق ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفات کے حقائق سے ہے۔
۔
دوسری قسم کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہے۔
ان تمام حقائق کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا ہے اپنے انبیاء علیہم السلام کو اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جس کی اطلاع کر دے وہ غیب نہیں رہتا کیونکہ وہ وحی کے ذریعے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 112/1، 113)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7379