ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ہو سکتا ہے یہ «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ ہو تو انہوں نے فرمایا، معاذاللہ! پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4696]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4696
حدیث حاشیہ: کذبوا تخفیف ذال کے ساتھ پڑھنے سے غالباً مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبروں کو یہ گمان ہوا کہ اللہ نے ان سے جو وعدے کئے تھے وہ سب جھوٹ تھے۔ حالانکہ مشہور قراءت تخفیف کے ساتھ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو یہ گمان ہوا کہ پیغمبروں سے جووعدے فتح ونصرت کے لئے گئے تھے وہ سب جھوٹ تھے یا کافروں کو یہ گمان ہوا کہ پیغمبروں نے جو ان سے وعدے کئے تھے وہ سب جھوٹ تھے: وقد اختار الطبري قراءة التخفیف وقال إنما أخترت ھذا لأن الآیة وقعت عقب قوله فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلھم فکان في ذلك إشارة إلی أن یأس الرسل کان من إیمان قولھم الذین کذبوھم فھلکوا (فتح الباری) خلاصہ اس عبارت کا وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔ وتدبروا فیھا یا أولي الألباب لعلکم تعقلون۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4696
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4696
حدیث حاشیہ: 1۔ مشہور قرآءت ﴿كُذِبُوا﴾(تخفیف کے ساتھ) ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو یہ قراءت نہ پہنچی ہو اور انھوں نے ظن بمعنی یقین خیال کر کے اس قراءت کا انکار کردیا۔ ان کے نزدیک اس قراءت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پیغمبروں سے جو وعدے کیے تھے وہ جھوٹ پر مبنی تھے اس لیے انھوں نے انکار کردیا۔ حالانکہ تخفیف کی صورت میں مطلب یہ ہے کہ کافروں کو یہ گمان ہوا کہ پیغمبروں نے عذاب آنے کے جو وعدے ان سے کیے تھے وہ سب غلط اور جھوٹ ثابت ہوئے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ہاں آپہنچی۔ 2۔ اس کی مکمل بحث ہم نے سورہ بقرہ آیت: 214۔ اورحدیث: 4524۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4696