حدیث حاشیہ: 1۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں انھیں اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔
"
(الأنعام: 59) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر بیان فرمائی ہے آیت کریمہ سےمعلوم ہوا کہ غیب کے سب علوم ایک مخصوص مقام پر خزانوں کی صورت میں سربمہر بند ہیں، پھر انھیں مقفل کر دیا گیا ہے۔
ان تالوں کی چابیاں صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، ان خزانوں پر مطلع ہونا تو درکنار ان چابیوں کا علم بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
جہاں یہ خزانے سربمہر ہیں وہاں ہرچیز کی مقادیراللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دی ہیں۔
اسی مقام کوقرآن مجید میں لوح محفوظ، ام الکتاب، امام مبین، کتاب مکنون اور کتاب مبین کہا گیا ہے۔
یہی مقادیر تمام مخلوقات کا مبدا یا نقطہ آغاز ہیں۔
ان خزانوں تک ان خزانوں کے مالک کے علاوہ اور کسی کی رسائی ممکن نہیں۔
ان خزانوں کی وسعت کو عام لوگوں کے ذہن نشین کرانے کےلیے اللہ تعالیٰ نے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بحروبر
(خشکی اور تری) میں جو کچھ ہے اسے وہی جانتا ہے کوئی پتا
(بھی) نہیں گرتا مگروہ اسے جانتا ہے نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہی ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو۔
تر اور خشک جو کچھ بھی ہے سب کتاب مبین میں موجود ہے۔
“ (الأنعام 59) 2۔
کائنات میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے ان تمام باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ تفصیلی علم رکھتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر پانچ چیزوں کے متعلق اس طرح وضاحت کی ہے:
”بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔
وہی بارش برساتا ہے اور وہی
(یقینی طور پر) جانتا ہے جو کچھ رحموں
(ماؤں کے پیٹوں) میں ہے۔
اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا ہے ہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔
بے شک اللہ ہی ہے جو سب کچھ جاننے والا پوری خبررکھنے والا ہے۔
“ (لقمان 31/34) مذکورہ امور غیب ایسے ہیں جن کا علم کسی انسان کو نہیں ہو سکتا۔
ان پانچ چیزوں میں گویا سارے جہاں سمٹ آئے ہیں۔
قیامت سے مراد امور آخرت ہیں۔
ان میں سے صرف قیامت کا ذکر کیا ہے جو دنیا کے زیادہ قریب ہے۔
اس قیامت کے متعلق کسی کو علم نہیں کہ وہ کب آئے گی، چہ جائیکہ اس کے بعد واقع ہونے والے واقعات کا کسی کو علم ہو۔
نفع والی بارش کے متعلق بھی کسی کو علم نہیں، اس سے عالم بالا کی طرف اشارہ کیا ہے، ان میں سے بارش کا ذکر کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں لیکن اس کے باوجود قطعی علم کسی کو نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں بھی ظن وتخمین اور اندازوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
ماں کے پیٹ میں کیا کچھ ہے؟ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ اس کی عمر، اس کی روزی، خوشحال ہوگا یا تنگ دست، نیز یہ کہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت، یہ تمام باتیں رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں۔
اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہرمادہ جو کچھ اپنے پیٹ میں اٹھائے ہوئے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے اور جو کچھ ان کے پیٹوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے وہ اسے بھی جانتاہے۔
“ (الرعد 8) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں کہ رحم مادہ میں نطفے پر کیا کچھ تغیرات واقع ہوتے ہیں اور اس سے شکل وصورت کیسے بنتی ہے۔
چوتھی بات کہ وہ کل کیا کرے گا، اس زمانے کے انواع اور اس میں ہونے والے حوادث کی طرف اشارہ ہے۔
ان میں
”آئندہ کل
“ کا ذکر کیا ہے جو انسان کے بہت قریب ہے۔
جو مستقبل قریب میں ہونے والے حادثات کو نہیں جانتا وہ مستقبل بعید کے واقعات کو کیسے معلوم کر سکتا ہے، یعنی انسان کو کوئی پتا نہیں ہے کہ اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں بلکہ اسے کل تک جینا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔
آخری بات یہ کہ اس نے کب اور کہاں مرنا ہے؟ اس سے عالم زیریں کی طرف اشارہ ہے ان میں سے صرف کسی سرزمین میں مرنے کا ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں موت آتی ہے لیکن اس کے باوجود موت کے وقت قدرت اسے کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
موت آنے کے بعد بھی پتا نہیں ہوتا کہ اس نے دفن ہونا ہے یا نہیں، اگر ہوتا ہے تو کفن میں یا اس کے بغیر اور کسی جگہ پر یا بے گوروکفن درندوں اور پرندوں کی خوراک بننا ہے۔
یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
یہ پانچ امور ایسے ہیں جن سے ہر انسان کو دلچپسی ہوتی ہے، اس لیے خاص طور پران کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ بہت سے ایسے امور ہیں جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک کسی انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
3۔
واضح رہے کہ غیب کی دو قسمیں ہیں:
۔
ایک قسم کا تعلق ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفات کے حقائق سے ہے۔
۔
دوسری قسم کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہے۔
ان تمام حقائق کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا ہے اپنے انبیاء علیہم السلام کو اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جس کی اطلاع کر دے وہ غیب نہیں رہتا کیونکہ وہ وحی کے ذریعے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 112/1، 113)