ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں عمرو بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے عبدالرحمٰن بن عسیلہ صنابحی سے، جناب ابوالخیر نے ان سے پوچھا تھا کہ تم نے کب ہجرت کی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ہجرت کے ارادے سے یمن چلے، ابھی ہم مقام جحفہ میں پہنچے تھے کہ ایک سوار سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان سے مدینہ کی خبر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو پانچ دن ہو چکے ہیں میں نے پوچھا تم نے لیلۃ القدر کے بارے میں کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کے سات دنوں میں (ایک طاق رات) ہوتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4470]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4470
حدیث حاشیہ: یعنی اکیس تاریخ سے ستائیسویں تک کی طاق راتوں میں سے وہ ایک رات ہے یا یہ کہ وہ غالبا ستائیسویں رات ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4470
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4470
حدیث حاشیہ: 1۔ چونکہ مذکورہ واقعہ بھی رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فوراً بعد کا ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ 2۔ ابو الخیر کا نام مرثد بن عبد اللہ اور صنابحی کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ ہے صحیح بخاری میں ان سے مروی صرف یہی ایک حدیث ہے لیلتہ القدر کے متعلق ہماری گزارشات کتاب الصیام میں بیان ہو چکی ہیں۔ (فتح الباري: 191/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4470