الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6264
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اُسامہ بن زید کو اس کا امیر مقرر فرمایا۔کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا:"تم نےاگر اس(اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی امارت پر اعتراض کیا ہےتواس سے پہلے اس کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کرتے تھے۔اللہ کی قسم! وہ بھی امارت کا اہل تھا اور بلاشبہ میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور ا س کے بعد بلاشبہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6264]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مختلف مواقع پر امیر مقرر کیا تھا اور آخری دفعہ غزوہ موتہ میں امیر مقرر کیا،
جس میں وہ شہادت سے ہم کنار ہو گئے،
چونکہ ان پر غلامی کا داغ لگ چکا تھا،
اس لیے بعض لوگ ان کی امارت پر ناگواری محسوس کرتے اور اس پر اعتراض کرتے اور آپ نے مرض الموت میں حضرت اسامہ کو امیر مقرر کر کے لشکر موتہ کی طرف جانے کا حکم دیا اور ان کی نوخیزی کی بنا پر،
کبار صحابہ کی موجودگی میں امیر مقرر کرنے پر اعتراض ہوا اور یہ لشکر آپ کی بیماری کی شدت کی بنا پر رک گیا تھا اور بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو روانہ کیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6264
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6265
حضرت سالم رحمۃ ا للہ علیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پرفرمایا:"اگر تم اسکی امارت پر اعتراض کررہے ہو آپ کی مراد حضرت اُسامہ بن زید سے تھی۔تو اس سے پہلے تم اس کے باپ کی امارت پر(بھی) اعتراض کرچکے ہو۔اللہ کی قسم!اس کے بعد یہ بھی مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔میں تمھیں اس کے ساتھ ہر طرح کی اچھائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمھارے نیک ترین لوگوں میں سے ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6265]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
کسی کے کوئی کام سپرد کرتے وقت اس کی قابلیت اور اہلیت کو دیکھنا چاہیے کہ وہ یہ کام سر انجام دے بھی سکتا ہے یا نہیں،
اس کے خاندان یا عمر کا لحاظ نہیں ہونا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6265
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4250
4250. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو ایک قوم پر امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت کو ہدف تنقید بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر آج تمہیں اس کی امارت پر اعتراض ہے تو تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کر چکے ہو۔ اللہ کی قسم! یقینا وہ اس امارت کے اہل اور حق دار تھے اور بلاشبہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ (اسامہ بن زید ؓ) ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4250]
حدیث حاشیہ:
ان طعنہ کرنے والوں کا سردار عیاش بن ابی ربیعہ تھا وہ کہنے لگا آنحضرت ﷺ نے ایک لڑکے کو مہاجرین کا افسر بنا دیا ہے۔
اس پر دوسرے لوگ بھی گفتگو کرنے لگے۔
یہ خبر حضرت عمرؓ کو پہنچی۔
انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا اور آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی۔
آپ بہت خفا ہوئے اور یہ خطبہ مذکورہ سنایا۔
اسی کو جیش اسامہ کہتے ہیں۔
مرض الموت میں آپ نے وصیت فرمائی کہ اسامہ کا لشکر روانہ کر دینا۔
اسامہ ؓ کے سردارمقرر کرنے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد ان کافروں کے ہاتھوں سے مارے گئے تھے۔
اسامہ کی دلجوئی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد کی شہادت یاد کرکے ان کافروں سے دل کھول کرلڑیں گے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی سرداری جائز ہے۔
کیو نکہ ابو بکر اور عمر ؓ یقینا اسامہ ؓ سے افضل تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4250
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7187
7187. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا لیکن جب ان کی امارت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد کے لائق تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور ا ن کے بعد اسامہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7187]
حدیث حاشیہ:
کہ بوڑھے بوڑھے لوگ ہوتے ہوئے آپ نے ایک چھو کرے کو سردار بنا یا۔
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل مصلحت اور دور اندیشی سے خالی نہ تھا۔
ہوا یہ تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ان رومی کافروں کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔
آپ نے ان کے بیٹے کو اس لیے سردار بنایا تھا کہ وہ اپنے باپ کے مارنے والوں کو بڑے جوش کے ساتھ لڑیں گے۔
دوسرے یہ کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے دل کو ذرا تسلی ہوگی۔
اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹا بنایا تھاجب وہ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے تو ایک اکلوتا بیٹا اسامہ رضی اللہ عنہ چھوڑ گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بے انتہا چاہتے تھے۔
یہاں تک کہ ایک ران پر ان کو بٹھاتے اور ایک ران پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اور فرماتے یا اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اس حدیث کے لانے سے یہاں یہ غرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لغوطعن وتشنیع پر کچھ خیال نہیں کیا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو سرداری سے علیحدہ نہیں کیا۔
اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے اصل شکایات پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کیوں معزول کر دیا کیونکہ ہر زمانہ اور ہر موقع کی مصلحت جدا گانہ ہوتی ہے گو سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیں تو بے اصل نکلیں مگر کسی فتنے یا فساد کے ڈر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا علیحدہ ہی کر دینا قرین مصلحت نظر آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کسی فتنہ اور فساد کا اندیشہ نہ تھا۔
بہر حال یہ امر امام کی رائے کی طرف مفوض ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7187
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3730
3730. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اور اس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگرتم اسامہ بن زید ؓ کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو تو تم نے قبل ازیں اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم!وہ سرداری کے لیے نہایت ہی موزوں شخص تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے بعد یہ اسامہ ؓ مجھے لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3730]
حدیث حاشیہ:
یہ لشکر آنحضرت ﷺ نے مرض الموت میں تیار کیا تھا اور حکم فرمایا تھا کہ فوراً ہی روانہ ہوجائے مگر بعد میں جلدہی آپ کی وفات ہوگئی۔
لشکر مدینہ کے قریب ہی سے واپس لوٹ آیا۔
پھرحضرت ابوبکر ؓنے اپنی خلافت میں اس کو تیار کرکے روانہ کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3730
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3730
3730. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اور اس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگرتم اسامہ بن زید ؓ کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو تو تم نے قبل ازیں اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم!وہ سرداری کے لیے نہایت ہی موزوں شخص تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے بعد یہ اسامہ ؓ مجھے لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3730]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو امیر مقرر کیا اور ان کے ہاتھ میں جھنڈا دیا تو کچھ لوگوں نے اس بنا پر اعتراض کیا کہ یہ تو آزاد کردہ غلام ہیں انھیں ہمارا قائد مقرر کردیا گیا ہے۔
اس لشکر میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے۔
حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ اگر کسی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ ؓ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ انھیں امیر مقرر فرماتے۔
بالآخر غزوہ موتہ کے وقت لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ حضرت زید بن حارثہ ؓ ہی اطاعت کے لائق ہیں اور اسی جنگ میں آپ کی شہادت ہوئی اس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض الموت میں روم کی طرف جانے کے لیے ایک لشکر تیار کیا جس کے امیر حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے ان پر بھی لوگوں نے اعتراض کیا جیسا کہ حدیث میں ہے۔
وہ لشکر ابھی مدینہ طیبہ کے قریب ہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو وہ واپس آگیا پھر حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت اسامہ ؓ کی سر براہی میں اسے روانہ کیا۔
(فتح الباري: 111/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3730
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4250
4250. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو ایک قوم پر امیر مقرر فرمایا تو کچھ لوگوں نے ان کی امارت کو ہدف تنقید بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر آج تمہیں اس کی امارت پر اعتراض ہے تو تم ہی کچھ دن پہلے اس کے باپ کی امارت پر اعتراض کر چکے ہو۔ اللہ کی قسم! یقینا وہ اس امارت کے اہل اور حق دار تھے اور بلاشبہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے جس طرح یہ (اسامہ بن زید ؓ) ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4250]
حدیث حاشیہ:
1۔
جس لشکر کا حضرت اسامہ ؓ کو امیر مقرر کیا گیا تھا اسے جیش اسامہ کہا جاتا ہے۔
حضرت اسامہ ؓ کو امیر بنانے میں یہ مصلحت تھی کہ ان کے والد گرامی حضرت زید بن حارثہ ؓ غزوہ موتہ میں کافروں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے حضرت اسامہ ؓ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے والد گرامی کی شہادت کو یاد کر کے بے جگری سے لڑیں گے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو کئی لڑائیوں میں سردار مقرر کیا تھا حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے سات لڑائیاں ان کی زیر امارت لڑی ہیں انھیں پہلے نجد کی طرف پھر بنو سلیم کی طرف پھرقریش کے تجارتی قافلوں کی طرف پھر بنو ثعلبہ کی طرف پھر حسمی کی طرف پھر وادی القری کی طرف اور آخر میں بنو فزارہ کی طرف امیر بنا کر روانہ کیا گیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ آخری غزوہ ہے۔
اس میں بڑے بڑے مہاجر اور انصار شریک تھے۔
حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو عبیدہ ؓ وغیرہ صحابہ ان کی زیر کمان تھے۔
3۔
رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ تھاکہ زمانہ جاہلیت کے دستور کو مٹا کر جس میں قابلیت ہو اس کو امیر بنایا جائے۔
(فتح الباري: 624/7)
کسی فارسی شاعر نے خوب کہا ہے۔
بزرگی بعقل است نہ بہ سال۔
۔
۔
تونگری بدل است نہ بمال
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4250
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6627
6627. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بنایا۔ کچھ لوگوں نے حضرت اسامہ کی امارت پر اعتراض کیا تو رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اگر تم اسامہ کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو تم قبل ازیں اس کے والد کی امارت بھی اعتراض کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! وہ (زید ؓ) امیر بنائے جانے کے قابل تھے اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اوریہ (اسامہ) ان کے بعد مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6627]
حدیث حاشیہ:
(1)
لفظ ''أيم'' کے متعلق اہل لغت کا اختلاف ہے کہ اس کا ماخذ کیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اگر اس لفظ کی اضافت لفظ اللہ کی طرف کر دی جائے تو اس سے قسم منعقد ہو جاتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ أيم الله کے معنی حق الله ہیں اور جب یہ مطلق بولا جائے تو اس سے قسم ہی مراد ہوتی ہے۔
اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا تھا:
”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر وہ ان شاءاللہ کہہ دیتے تو سب بچے زندہ رہتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے۔
“ (صحیح البخاری، الایمان والنذور، حدیث: 6639)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (و أيم الذي نفس محمد بيده)
کہا۔
(فتح الباري: 336/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6627
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7187
7187. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس پر سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا لیکن جب ان کی امارت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے اس کے والد کے لائق تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور ا ن کے بعد اسامہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7187]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت پر طعن کیا گیا تھا کہ کبار اور مشائخ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں اسے امیر کیوں بنایا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پروپیگنڈے کی کوئی پروانہ کی اور انھیں امارت سے الگ نہ کیا بلکہ ان کی تعریف فرمائی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے پروپیگنڈے کے پیش نظر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کی امارت سے معزول کر دیاتھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کوفے کے حالات ایسے تھے کہ انھیں معزول کرنا ضروری تھا۔
اگرامارت سے انھیں الگ نہ کیاجاتا توحالات کے بگڑ جانے کا خطرہ تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کی وضاحت بھی فرمائی، لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق حالات کے خراب ہونے اور کسی قسم کے فتنے کا خطرہ نہ تھا۔
2۔
ان کے امیر مقرر کیے جانے کا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرکوبی کے لیے جو لشکر تشکیل دیا اس کی امارت حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کی تاکہ انھیں تسلی ہو اور رومیوں سے بے جگری سے لڑیں اور پورے جوش سے ان کا مقابلہ کریں۔
بہرحال حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اس قدر پختہ کار ہوکر غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر کوئی اقدام نہ کرے بلکہ حالات کا کھلی آنکھ سے جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچے۔
(فتح الباري: 233/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7187