الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3080
3080. حضرت عطاء سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں عبید بن عمیر کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ وہ شبیر پہاڑ کے دامن میں تشریف فرماتھیں۔ انھوں نے ہمیں فرمایا: جب سےاللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ پر فتح دی ہے، اس وقت سے ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3080]
حدیث حاشیہ:
1۔
ثبیر،مزدلفہ کے نزدیک ایک بڑا پہاڑ ہے جو منیٰ کی طرف جانے والے کے بائیں طرف پڑتا ہے۔
اس حدیث میں بھی ایک خاص ہجرت مراد ہے جو مکہ فتح ہونے کے بعد ختم ہوچکی ہے،البتہ طلب علم اورفتنہ وفساد سے محفوظ رہنے کی نیت سے اپنا مالوف وطن چھوڑنا اور اس سے ہجرت کرجانا اب بھی باقی ہے اور اس قسم کی ہجرت ہمیشہ باقی رہے گی۔
2۔
بہرحال اب بھی جہاں کہیں دارالحرب ہے اگر کوئی شخص اپنے دین کو بچانے کی نیت سے ہجرت کرنے پر قادر ہے تو اس پر ہجرت واجب ہے تاکہ ہرقسم کے خطرات سے محفوظ ہوجائے اور اگرعاجز ہوتو کراہت کے ساتھ وہاں اقامت رکھی جاسکتی ہے لیکن اگر مصائب و آلام جھیل کر نکل جائے تو اسے اللہ کے ہاں بہت اجرثواب ملے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3080
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3900
3900. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر لیثی کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے ان سے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب ہجرت نہیں رہی، کیونکہ ایک وقت تھا جب مومن اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتے تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ وہ دین کے بارے میں فتنے میں پڑ جائیں گے۔ اب تو اللہ تعالٰی نے اسلام کو غالب کر دیا ہے۔ آج اہل ایمان جہاں چاہیں اپنے رب کی عبادت کر سکتے ہیں، البتہ جہاد اور اس کی نیت کا ثواب باقی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3900]
حدیث حاشیہ:
فتح مکہ کے بعدمدینے کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اب ہجرت کی مشروعیت ختم ہوچکی ہے کیونکہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے بشرط یہ کہ دین میں خلل کا اندیشہ ہو۔
حضرت عائشہ ؓ کے فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ نہ ہوسکے ایسے ملک سے ہجرت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں۔
اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں اپنا دین ظاہر کرسکتاہے اوربلاروک ٹوک اللہ کی عبادت کرسکتا ہے تو اس کا حکم دارالسلام جیسا ہوگا بلکہ وہاں ٹھہرنا ہجرت سے افضل ہے کیونکہ وہاں قیام رکھنے سے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کے نتیجے میں اسلام میں داخل ہوں گے، اس لیے اس قسم کی احادیث کو مقامی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3900