مجھ سے اسحاق بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے، ان سے مجاہد بن جبر مکی نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4311]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4311
حدیث حاشیہ: یہ حکم مدنی ہجرت کی بابت ہے۔ اگر اہل اسلام کیلئے کسی بھی علاقہ میں مکہ جیسے حالات پیدا ہوجائیں تو دار الامان کی طرف وہ اب بھی ہجرت کر سکتے ہیں۔ جس سے ان کو یقینا ہجرت کا ثواب مل سکتا ہے مگر إنما الأعمالُ بالنیاتِ کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4311
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4311
حدیث حاشیہ: 1۔ اس ہجرت سے مراد خاص ہجرت ہے جو فتح مکہ سے پہلے تھی خواہ حبشہ کی طرف ہویا مدینہ طیبہ کی طرف، فتح مکہ کے بعد جب مکہ مکرمہ دارالاسلام بن گیا تو اب یہاں سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ 2۔ حدیث کے الفاظ اگرچہ عام ہیں لیکن اس سے خاص ہجرت مراد ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا دارالحرب ہے جس میں شعائر اسلام کی صحیح طور پر ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ ان پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہو تو اس وقت وہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہوگا۔ اگر شعائر اسلام کماحقہ ادانہ ہوتے ہوں اور اہل اسلام کو مجبورنہ کیا جاتا ہو تو ایسے حالات میں ہجرت مستحب ہے۔ بہرحال مذکورہ احادیث میں ہجرت مکہ مراد ہے مطلق ہجرت کی نفی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4311