ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے محمد بن ابی عتیق نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سنان بن ابی سنان دولی نے ‘ انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اطراف نجد میں غزوہ کے لیے گئے تھے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو وہ بھی واپس ہوئے۔ قیلولہ کا وقت ایک وادی میں آیا ‘ جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں اتر گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم درختوں کے سائے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکا دی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر ہمیں سوئے ہوئے ہوئی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکارا۔ ہم جب خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار (مجھ ہی پر) کھینچ لی تھی ‘ میں اس وقت سویا ہوا تھا ‘ میری آنکھ کھلی تو میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا ‘ تمہیں میرے ہاتھ سے آج کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! اب دیکھو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر کوئی سزا نہیں دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4135]
غزا مع رسول الله قبل نجد فلما قفل رسول الله قفل معه فأدركتهم القائلة في واد كثير العضاه فنزل رسول الله وتفرق الناس في العضاه يستظلون بالشجر ونزل رسول الله تحت سمرة فعلق بها سيفه ق
غزونا مع رسول الله غزوة نجد فلما أدركته القائلة وهو في واد كثير العضاه فنزل تحت شجرة واستظل بها وعلق سيفه فتفرق الناس في الشجر يستظلون وبينا نحن كذلك إذ دعانا رسول الله فجئنا فإذا أعرابي قاعد بين يديه فقال إن هذا أتا
الله يمنعني منك قال فتهدده أصحاب رسول الله فأغمد السيف وعلقه قال فنودي بالصلاة فصلى بطائفة ركعتين ثم تأخروا وصلى بالطائفة الأخرى ركعتين قال فكانت لرسول الله أربع ركعات وللقوم ركعتان