الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
87. بَابُ تَفَرُّقِ النَّاسِ عَنِ الإِمَامِ عِنْدَ الْقَائِلَةِ، وَالاِسْتِظْلاَلِ بِالشَّجَرِ:
87. باب: دوپہر کے وقت درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے فوجی لوگ امام سے جدا ہو کر (متفرق درختوں کے سائے تلے) پھیل سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 2913
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنَا سِنَانُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ وَأَبُو سَلَمَةَ ، أن جابرا أخبره، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْعِضَاهِ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، ثُمَّ نَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ وَهُوَ لَا يَشْعُرُ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَيْفِي، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ، قُلْتُ: اللَّهُ، فَشَامَ السَّيْفَ فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ، ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبْهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے سنان بن ابی سنان اور ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان دونوں حضرات کو جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی۔ اور ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہیں ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، انہیں سنان بن ابی سنان الدولی نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ایک ایسے جنگل میں جہاں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ قیلولہ کا وقت ہو گیا، تمام صحابہ سائے کی تلاش میں (پوری وادی میں متفرق درختوں کے نیچے) پھیل گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار (درخت کے تنے سے) لٹکا دی تھی اور سو گئے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اجنبی موجود تھا۔ اس اجنبی نے کہا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور مجھ سے کہنے لگا تھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکے گا؟ میں نے کہا اللہ (اس پر وہ شخص خود ہی دہشت زدہ ہو گیا) اور تلوار نیام میں کر لی، اب یہ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2913]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريمن يمنعك قلت الله فشام السيف فها هو ذا جالس ثم لم يعاقبه
   صحيح البخاريغزا مع رسول الله قبل نجد فلما قفل رسول الله قفل معه فأدركتهم القائلة في واد كثير العضاه فنزل رسول الله وتفرق الناس في العضاه يستظلون بالشجر ونزل رسول الله تحت سمرة فعلق بها سيفه ق
   صحيح البخاريغزونا مع رسول الله غزوة نجد فلما أدركته القائلة وهو في واد كثير العضاه فنزل تحت شجرة واستظل بها وعلق سيفه فتفرق الناس في الشجر يستظلون وبينا نحن كذلك إذ دعانا رسول الله فجئنا فإذا أعرابي قاعد بين يديه فقال إن هذا أتا
   صحيح البخاريمن يمنعك مني فقلت الله ثلاثا ولم يعاقبه وجلس
   صحيح مسلمالله يمنعني منك قال فتهدده أصحاب رسول الله فأغمد السيف وعلقه قال فنودي بالصلاة فصلى بطائفة ركعتين ثم تأخروا وصلى بالطائفة الأخرى ركعتين قال فكانت لرسول الله أربع ركعات وللقوم ركعتان
   صحيح مسلممن يمنعك مني قال قلت الله ثم قال في الثانية من يمنعك مني قال قلت الله قال فشام السيف فها هو ذا جالس ثم لم يعرض له رسول الله

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2913 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2913  
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہ امر ثابت کرنے کے لئے لائے کہ فوجی لوگ دوپہر میں کہیں چلتے ہوئے جنگل میں قیلولہ کریں تو اپنی پسند کے مطابق سایہ دار درخت تلاش کرسکتے ہیں اور اپنے قائد سے آرام کرنے کے لئے الگ ہوسکتے ہیں اور یہ آداب جنگ کے منافی نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2913   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2913  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس وقت آپ کی حفاظت کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔
اس واقعے کے بعد آپ نے اپنی حفاظت کے اقدامات فرمائے تو آیت نازل ہوئی۔
﴿وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
(المائدة: 5/67)
اس کے بعد آپ نے حفاظتی اقدامات ختم کر دیے اور حفاظت الٰہیہ ہی پر بھروسہ کیا۔

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ فوجی لوگ دوپہر کے وقت کہیں چلتے ہوئے جنگل میں قیلولہ کرنا چاہیں تو اپنی پسند کے مطابق سایہ دار درخت تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے قائد سے آرام کے لیے الگ ہو سکتے ہیں اور یہ آداب جنگ کے منافی نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2913   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1949  
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے حتیٰ کہ جب ہم ذات الرقاع نامی پہاڑ تک پہنچے۔ ہماری عادت تھی کہ جب ہم کسی سایہ دار جگہ پر پہنچتے تو اسے رسول اللہ کے لیے چھوڑ دیتے، ایک مشرک آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت پر لٹکائی گئی تھی، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پکڑ لی، اسے میان سے نکال لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1949]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث میں غورث بن حارث نامی مشرک کا واقعہ انتہائی اختصار سے بیان کیا گیا ہے،
پورا واقعہ اس طرح ہے کہ جب آپﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ مجھے بچائے گا۔
تو تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور بقول ابن اسحاق جبریل علیہ السلام نے اس کو دھکا دیا تو تلوار گر گئی آپﷺ نے تلوار پکڑ کر اسے پوچھا اور فرمایا:
اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا،
آپﷺ اچھے پکڑنے والے بنئیے،
کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں بچا سکتا آپ نے فرمایا:
تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا میں عہد کرتا ہوں کہ میں آپﷺ سے لڑائی نہیں لڑوں گا اور نہ آپﷺ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔
اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی ساتھی پہنچے انھوں نے دیکھا کہ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس بیٹھا ہے،
آپ نے ساتھیوں کو واقعہ سے آگاہ فرمایا،
اس کے بعد اسے چھوڑ دیا،
اس نے واپس جا کر اپنی قوم کو اس واقعہ سے آگاہ کیا اور آپ کی تعریف کی،
بعد میں وہ مسلمان ہو گیا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے ہر گروہ کو الگ الگ دو رکعت نماز پڑھائی اس طرح آپ کا دوسرا دوگانہ نفل تھا لیکن دوسرے گروہ کا فرض تھا تو معلوم ہوا نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
(3)
مصنف نے نماز کی جتنی صورتیں بیان کی ہیں موقع محل کے مطابق سب صورتیں جائز ہیں جس طرح بھی ممکن ہو نماز پڑھی جائے گی اس کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث والے طریقہ کو پسند کیا ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کی حڈیث کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والے طریقہ کو یعنی حدیث نمبر 308 کو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1949   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5950  
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:5950]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
صلتا:
تلوار میان سے نکال لینا۔
(2)
شام السيف:
تلوار کو میان میں ڈال لیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5950   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2910  
2910. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ واپس لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام ؓ بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤکیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سوگئے۔ اس دوران ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ وہ ہمیں پکار رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: اللہ۔ اورآپ نے اسے کوئی سزا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2910]
حدیث حاشیہ:
ابن اسحاق نے مغازی میں یوں روایت کیا ہے کہ کافروں نے اس گنوار سے جس کا نام دعثور تھا‘ یہ کہا کہ اس وقت محمد (ﷺ) اکیلے ہیں اور موقع اچھا ہے۔
چنانچہ وہ آپﷺ کی تلوار لے کر آپﷺ کے سرہانے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اب آپﷺ کو کون بچائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا میرا بچانے والا اللہ ہے۔
آپﷺ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ فوراً حضرت جبرائیل تشریف لائے اور اس گنوار کے سینے پر ایک گھونسا مارا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی‘ جو آپﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا کہ اب تجھ کو کون بچائے گا اس نے کہا کوئی نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2910   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2910  
2910. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ واپس لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام ؓ بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤکیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سوگئے۔ اس دوران ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ وہ ہمیں پکار رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: اللہ۔ اورآپ نے اسے کوئی سزا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2910]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ پر تلوار سونتنے والے شخص کا نام غورث بن حارث تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4136)

امام بیہقی ؒ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جواب سن کر اس دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی رسول اللہ ﷺنے پکڑ کر فرمایا:
اب مجھ سے تجھے کون بچائے گا۔
اس نے کہا:
مجھے آپ سے اچھے برتاؤ کی امید ہے۔
آپ نے فرمایا:
اسلام قبول کرتا ہے؟ اس نے کہا:
اسلام تو قبول نہیں کرتا البتہ آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ سے قتال نہیں کروں گا۔
اور نہ آپ سے قتال کرنے والوں کا ساتھ ہی دوں گا۔
تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔
اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
میں لوگوں میں سے بہتر شخص کے پاس آیا ہوں۔
(دلائل النبوة للبیهقي: 456/3)

اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہتھیاروں سے غافل نہیں ہو نا چاہیے ہاں اگر حالات اتنے سنگین نہ ہوں تو مجاہد اپنا اسلحہ وغیرہ قریب رکھ کر خود آرام کر سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2910   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4139  
4139. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ نجد میں شریک ہوئے۔ جب آپ کو دوپہر کی گرمی نے پا لیا تو آپ اس وقت بہت خاردار درختوں کی وادی میں تھے، چنانچہ آپ نے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے سائے کے لیے قیام کیا اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی۔ صحابہ ؓ بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آواز دی۔ ہم حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اعرابی جب میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اس دوران میں اس نے میری تلوار (مجھ پر) سونت لی۔ جب میں بیدار ہوا تو یہ میری ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا، کہنے لگے: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ۔ پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی اور بیٹھ گیا ور دیکھ لو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4139]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت کے مطابق اس اعرابی نے تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ بچائےگا۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2910)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی خصوصی حفاظت فرمائی، بصورت دیگراعرابی کو باربار پوچھنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ رسول اللہ ﷺ ہتھیار کے بغیر اس کے سامنے بیٹھےہوئے تھے۔
لیکن جب اعرابی کو احساس ہوا کہ انھیں قتل کرنا میرے بس میں نہیں تو خود کو آپ کے حوالے کر دیا۔
(فتح الباري: 534/7)

یہ واقعہ غزوہ بنو مصطلق کے قریب قریب ہوا تھا اس مناسبت سے یہاں بیان کردیا گیا وگرنہ بنیادی طور پر اس کا غزوہ بنو مصطلق سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4139