اور ابان نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذات الرقاع میں تھے۔ کہ ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے۔ وہ درخت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص کر دیا کہ آپ وہاں آرام فرمائیں۔ بعد میں مشرکین میں سے ایک شخص آیا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھینچ لی اور پوچھا ‘ تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اس نے پوچھا آج میرے ہاتھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ! پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے ڈانٹا دھمکایا اور نماز کی تکبیر کہی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک جماعت کو دو رکعت نماز خوف پڑھائی جب وہ جماعت (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے) ہٹ گئی تو آپ نے دوسری جماعت کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت نماز ہوئی۔ لیکن مقتدیوں کی صرف دو دو رکعت اور مسدد نے بیان کیا ‘ ان سے ابوعوانہ نے ‘ ان سے ابوبسر نے کہ اس شخص کا نام (جس نے آپ پر تلوار کھینچی تھی) غورث بن حارث تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں قبیلہ محارب خصفہ سے جنگ کی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4136]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4136
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ غورث بن حارث نامی دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس دوران میں حضرت جبرئیل ؑ نے اس کے سینے پر تھپڑ مارا تو تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس تلوار کو اپنے ہاتھ میں لے کرفرمایا: ”بتا اب تجھے کون بتاسکتا ہے؟“ اس نے کہا کہ کوئی نہیں بچائے گا۔ آپ نے فرمایا: ”جا اور اپنا راستہ لے۔ “ آپ نے اسے چھوڑدیا اور کچھ نہ کہا۔ جاتے وقت اس نے کہا کہ آپ مجھ سےبہتر ثابت ہوئے ہیں۔ 2۔ اس قصے سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کافروں سے نرمی کرتے تھے تاکہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ واقدی نے کہا ہے کہ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے اخلاق سے متاثر ہوکرمسلمان ہوگیا اور وہ اپنی قوم میں گیا تو بہت سے لوگ اس کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔ (فتح الباري: 534/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4136