الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
31. بَابُ مَرْجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِيَّاهُمْ:
31. باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4120
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ , حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ. ح وحَدَّثَنِي خَلِيفَةُ , حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي , عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَانَ الرَّجُلُ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخَلَاتِ حَتَّى افْتَتَحَ قُرَيْظَةَ , وَالنَّضِيرَ , وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ الَّذِي كَانُوا أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ , فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي تَقُولُ: كَلَّا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ , لَا يُعْطِيكَهُمْ وَقَدْ أَعْطَانِيهَا , أَوْ كَمَا قَالَتْ: وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ لَكِ كَذَا , وَتَقُولُ كَلَّا وَاللَّهِ , حَتَّى أَعْطَاهَا حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: عَشَرَةَ أَمْثَالِهِ , أَوْ كَمَا قَالَ".
ہم سے عبداللہ ابی الاسود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ‘ کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بطور ہدیہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے باغ میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چند کھجور کے درخت مقرر کر دیئے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قبائل فتح ہو گئے (تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایا کو واپس کر دیا) میرے گھر والوں نے بھی مجھے اس کھجور کو، تمام کی تمام یا اس کا کچھ حصہ لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور ام ایمن رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی۔ اتنے میں وہ بھی آ گئیں اور کپڑا میری گردن میں ڈال کر کہنے لگیں ‘ قطعاً نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ پھل تمہیں نہیں ملیں گے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عنایت فرما چکے ہیں۔ یا اسی طرح کے الفاظ انہوں نے بیان کئے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے اس کے بدلے میں اتنے لے لو۔ (اور ان کا مال انہیں واپس کر دو) لیکن وہ اب بھی یہی کہے جا رہی تھیں کہ قطعاً نہیں، خدا کی قسم! یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں، میرا خیال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کا دس گنا دینے کا وعدہ فرمایا (پھر انہوں نے مجھے چھوڑا) یا اسی طرح کے الفاظ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4120]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريالرجل يجعل للنبي النخلات حتى افتتح قريظة والنضير فكان بعد ذلك يرد عليهم
   صحيح البخاريلك كذا وتقول كلا والله حتى أعطاها حسبت أنه قال عشرة أمثاله أو كما قال
   صحيح البخاريالرجل يجعل للنبي النخلات حتى افتتح قريظة والنضير فكان بعد ذلك يرد عليهم
   صحيح مسلماتركيه ولك كذا وكذا وتقول كلا والذي لا إله إلا هو فجعل يقول كذا حتى أعطاها عشرة أمثاله أو قريبا من عشرة أمثاله

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4120 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4120  
حدیث حاشیہ:

ہجرت کے بعد انصار مدینہ نے مہاجرین سے مواسات اور ہمدردی کرتے ہوئے اپنے کھجوروں کے باغات سے کچھ درخت وقتی طور پر نفع اٹھانے کے لیے انھیں دے دیے تھے۔
حضرت ام سلیم ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو چند درخت استعمال کے لیے دیے تھے۔
آپ نے ان میں سے کچھ درخت حضرت ام ایمن ؓ کو عطا فرمادیے۔
جب بنوقریظہ اور بنو نضیر کے باغات فتح ہوئے تو مہاجرین ان کے مالک بن گئے، اس لیے انصاری کی طرف سے وقتی طور پر عطا کر دہ درخت انھیں واپس کردیے گئے، لیکن حضرت ام ایمن ؓ نے یہ خیال کیا کہ وہ ان درختوں کی مالک ہیں، اس لیے انھوں نے وہ درخت واپس کرنے سے انکارکردیا۔
چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پرورش کرنے والی اورخدمت گزارتھیں۔
اس لیے حق حضانت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ ان کھجوروں کے عوض تمھیں دس گنا کھجوریں دی جائیں گی تو انھوں نے وہ درخت واپس کردیے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیز کا نفع ہبہ کرنا جائز ہے اگر چہ اصل چیز مالک اپنے پاس ہی رکھے۔
(فتح ا لباري: 513/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4120   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4604  
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کوئی آدمی اپنی زمین سے کچھ کھجوروں کے درخت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیتا حتی کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے علاقے فتح کر لیے گئے تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کو جو اس نے آپﷺ کو دیا، اس کو واپس کرنے لگے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپﷺ سے درخواست کروں کہ میرے گھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4604]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مہاجرین،
جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے،
تو ان کے مکانات اور جائیدادیں مکہ مکرمہ میں رہ گئیں تھی،
اس لیے انصار نے انہیں مکانات فراہم کیے اور انہیں اپنی زمینوں میں شریک کرنے کی پیش کش کی،
جس کو مہاجرین نے مزارعت بٹائی یا مساقات (باغبانی)
کی صورت میں قبول کیا،
لیکن کچھ لوگوں کو کھجوروں کے درختوں کا پھل ان کی ضرورت کے تحت منیحہ کی صورت میں دیا گیا اور جب بنو قریظہ کے علاقے فتح ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جائیدادیں اور باغات مہاجرین میں تقسیم کر دئیے،
حضرت ام یمن نے یہ خیال کیا کہ مجھے تو درخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنایت فرمائے ہیں،
اس لیے یہ میرے ہیں،
حالانکہ ان کو پھلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دئیے گئے تھے،
چونکہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے بچپن میں آپ کی پرورش و پرداخت کی تھی،
اس لیے آپ نے اس کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا ناز برداشت کیا اور ان کو راضی کر کے،
درخت واپس دلوائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4604   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3128  
3128. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ انصاری کے آدمی نبی کریم ﷺ کے لیے کھجوروں کے درخت مختص کردیتے تھے۔ جب بنو قریظہ اور بنونضیر کے علاقے فتح ہوگئے تو اس کے بعد آپ نے ان کے درخت ان کو واپس کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3128]
حدیث حاشیہ:
جب مہاجرین اول اول مدینہ میں آئے تو اکثر نادار اور محتاج تھے‘ انصار نے اپنے باغات میں ان کو شریک کرلیا تھا‘ آنحضرت ﷺ کو بھی کئی درخت گزرائے گئے تھے۔
جب بنی قریظہ اور نبی نضیر کے باغات بن لڑے بھڑے آنحضرت کے قبضے میں آئے تو وہ آپ کا مال تھے‘ مگر آپ نے ان سے کئی باغ مہاجرین میں تقسیم کردئے اور ان کو یہ حکم دیا کہ اب انصارکے باغ اور درخت جو انہوں نے تم کو ديے تھے‘ وہ ان کو واپس کردو‘ اور کئی باغ آپ نے خاص اپنے لئے رکھے۔
اس میں سے جہاد کا سامان کیا جاتا اور دوسری ضروریات مثلاً آپ کی بیویوں کا خرچہ وغیرہ پورے کئے جاتے‘ حضرت امام بخاری ؒنے یہ حدیث ذکر کرکے اسی پورے خرچ کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے باب کا مطلب بخوبی نکلتاہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3128   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3128  
3128. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ انصاری کے آدمی نبی کریم ﷺ کے لیے کھجوروں کے درخت مختص کردیتے تھے۔ جب بنو قریظہ اور بنونضیر کے علاقے فتح ہوگئے تو اس کے بعد آپ نے ان کے درخت ان کو واپس کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3128]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒنے یہ روایت انتہائی اختصار سے بیان کی ہے۔
قبل ازیں مفصل روایت ان الفاظ میں بیان ہوچکی ہے:
جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو ان کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا۔
چونکہ انصار زمینوں والے اور صاحب جائیدادتھے، اس لیے انھوں نے مہاجرین سے یہ معاملہ طے کرلیا کہ وہ باغات میں سے انھیں ہر سال پھل دیا کریں گے اور مہاجرین اس کے عوض ان کے باغات میں کام کریں گے۔
حضرت ام سلیم ؓنے رسول اللہ ﷺ کو کھجوروں کا ایک باغ ہدیہ دیا اور آپ نے وہ باغ حضرت ام ایمن ؓ کو دے دیا، پھر جب رسول اللہ ﷺ غزوہ خیبر سے فارغ ہوئے اورمدینہ طیبہ تشریف لائے تو مہاجرین نے ان کے تحائف واپس کردیے جوانھوں نے پھلوں کی صورت میں دے رکھے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کی والدہ ام سلیم ؓ کا باغ بھی واپس کردیا اور حضرت ام ایمن ؓ کو اس کے عوض اپنے باغ سے کچھ درخت عنایت کردیے۔
(صحیح البخاري، الھبة و فضلھا والتحریض علیھا حدیث: 2630)

بہرحال ان روایات کا خلاصہ یہ ہے بنونضیر کی زمینیں فے کا مال تھیں جو خالص رسول اللہ ﷺکے لیے تھیں جنھیں آپ نے مہاجرین میں تقسیم کردیا اورانھیں حکم دیا کہ انصار نے جو باغات بطور ہمدردی انھیں دیے تھے وہ واپس کر دیں اور انصار کو اس مال فے سے کچھ نہ دیا۔
اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے سے بے نیاز ہوگئے، پھر جب بنوقریظہ نے عہد شکنی کی تو ان کا محاصرہ ہوا۔
بالآخر وہ حضرت سعد بن معاذ ؓکے فیصلے پر راضی ہوئے تو ان کی جائیداد کو تمام صحابہ ؓ میں تقسیم کردیا اور اپنے حصے سے اپنی ضروریات مثلاً:
اہل وعیال کا نفقہ اور دیگرضروریات میں خرچ کرتے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3128   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4030  
4030. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ انصار کے لوگ نبی ﷺ کے لیے کچھ کھجوریں بطور تحفہ دے دیتے تھے، حتی کہ جب بنو قریظہ اور بنو نضیر کو آپ نے فتح کیا تو اس کے بعد آپ وہ کھجوریں واپس کر دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4030]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میرے اہلخانہ نے مجھے بھیجا تاکہ ہماری کھجوریں ہمیں واپس مل جائیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے وہ کھجوریں ام ایمن ؓ کو دے دی تھیں۔
اتنے میں وہ بھی آگئیں اور میری گردن میں کپڑا ڈال کر کہنے لگیں:
اللہ کی قسم!یہ پھل تمھیں نہیں ملیں گے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے عنایت کررکھے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں دس گنا دینے کے وعدے پر وہ درخت ان سے واگزار فرمائے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4120۔
)


رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کی جلاوطنی کے بعد انصار سے فرمایا:
اگر تم چاہوتو میں تمھیں اس مال فے سے حصہ دوں لیکن اس صورت میں مہاجرین تمہاری جائیدادوں پر قابض رہیں گے اور اگر تم چاہوتو مال فے سے انھیں حصہ دو، اس صورت میں وہ تمہارے مکانات اور باغات واپس کردیں گے۔
توا نھوں نے دوسری صورت کو اختیار کیا۔
(فتح الباري: 416/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4030