مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ انہوں نے ابوامامہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ بنو قریظہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جب اس جگہ کے قریب آئے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے لیے منتخب کر رکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ اپنے سردار کے لینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا) اپنے سے بہتر شخص کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو قریظہ نے تم کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جتنے لوگ ان میں جنگ کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم نے اللہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا یا یہ فرمایا کہ جیسے بادشاہ (یعنی اللہ) کا حکم تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4121]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4121
حدیث حاشیہ: غزوہ بنوقریظہ درحقیقت ایک اعصابی جنگ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ انھوں نے پچیس روزقلعے میں محصور رہنے کی بنا پر یقین کرلیا تھا کہ ان میں مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں، اس لیے انھوں نے خود کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا۔ قبیلہ اوس کے انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! قبیلہ بنو قینقاع سے آپ نے جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے اور وہ ہمارے بھائی خزرج کے حلیف تھے اور بنوقریظہ ہمارے حلیف ہیں، لہذا ان پر احسان فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آپ لوگ اس پر راضی نہیں کہ ان کے متعلق آپ ہی کا ایک آدمی فیصلہ کرے؟“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ معاملہ سعد بن معاذ ؓ کے حوالے ہے۔ “ قبیلہ اوس کے انصار نے کہا: ہم اس پر راضی ہیں۔ بنوقریظہ کو بھی ان سے سابقہ تعلقات کی بنا پر توقع تھی کہ وہ ہماری رعایت کریں گے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے جو فیصلہ کیا وہ حدیث میں صراحت سے موجود ہے۔ ان کے فیصلے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے ان کے متعلق وہی فیصلہ کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ “حضرت سعد ؓ کا یہ فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پر مبنی تھا کیونکہ بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ موت وحیات کے نازک ترین لمحات میں خطرناک غداری کی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دوہزار نیزے، تین زرہیں پانچ سو ڈھالیں مہیا کررکھی تھیں جن پر مسلمانوں نے فتح کے بعد قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد انھیں مدینہ لاکر قتل کردیا گیا جس کی تفصیل اگلی حدیث میں بیان ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4121
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4596
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو قریظہ حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو منگوایا، وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے تو جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: ”اپنے سردار یا اپنے بہترین فرد کے استقبال کے لیے آگے بڑھو۔“ پھر آپﷺ نے فرمایا: ”ان لوگوں نے تیرے فیصلہ پر ہتھیار ڈالے ہیں۔“ حضرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4596]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بنو قریظہ نے جب عہد شکنی کرتے ہوئے، مشرکین کا ساتھ دیا تو جنگ احزاب کے خاتمہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کے کہنے پر بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ حوصلہ ہار بیٹھے، حالانکہ ان کے پاس خوردونوش کا وافر سامان موجود تھا، پانی کے چشمے اور کنویں تھے، مضبوط اور محفوظ قلعے تھے، جبکہ مسلمان میدان میں انتہائی سخت سردی میں، بھوک کی سختیاں سہہ رہے تھے اور جنگ خندق کی مسلسل جنگی مصروفیات کی بنا پر تھکان سے چور چور تھے، بنو قریظہ نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کر دیا کہ آپ جو مناسب سمجھیں، وہ فیصلہ فرمائیں، قبیلہ اوس کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا، وہ آپ کو یاد ہے، بنو قینقاع، ہمارے خزرجی بھائیوں کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا آپ لوگ اس پر راضی ہیں کہ ان کے متعلق آپ ہی کا ایک فرد فیصلہ کرے؟“ انہوں نے کہا، کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا: ”تو یہ معاملہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد ہے“، اوس کے لوگوں نے کہا، ہم اس پر راضی ہیں، اس کے بعد آپﷺ نے حضرت سعد کو بھلا بھیجا، کیونکہ وہ جنگ خندق کے دوران بازو کی رگ کٹنے کی وجہ سے لشکر کے ساتھ نہیں آئے تھے، جب وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے تو آپﷺ نے انصار کو ان کے استقبال کا حکم دیا تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا اور کہنے لگے، سعد اپنے حلیفوں کے بارے میں احسان اور بھلائی سے کام لیجئے گا، اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں وہ عادلانہ اور منصفانہ فیصلہ دیا، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ان کے بارے میں وہ فیصلہ دیا ہے، جو بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ “ مجلس میں آنے والے کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا مسئلہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اہل خیر اور اہل فضل کی تعظیم و اکرام کے لیے آگے بڑھ کر استقبال کرنا جائز ہے، علامہ طیبی اس کا معنی کرتے ہیں، قُومُوا وَامشُوا إِلَيْهِ تلقيا و إِكْرَامًا، کھڑے ہو اور ان کے اکرام اور ملاقات کے لیے ان کی طرف جاؤ، اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں ہے کہ آنے والے کے لیے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر تعظیم و اکرام کرنا جائز ہے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃ یہ حکم دیا ہے کہ لَا تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ عَلي مُلُوكِهِم، جس طرح عجمی اپنے بادشاہوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، ان کی طرح تم نہ کھڑے ہوں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی آمد پر جب حضرت عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان رضی اللہ عنہما کھڑے ہوئے تو انہوں نے انہیں بیٹھنے کے لیے کہا اور فرمایا: ”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو انسان اس سے خوش ہو کر کہ لوگ اس کے سامنے سیدھے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“، فتح الباری، ج 11، کتاب الاستئذان اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر صحابہ کرام کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ انداز پسند نہ تھا۔ (ترمذی) تفصیل کے لیے دیکھیے: (تکملہ فتح الملھم ج 3 ص 126-127 فتح الباری ج 11، استیذان الفتح)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4596
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3043
3043. حضرت ابو خدری ؓسے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی ثالثی پر ہتھیار ڈال کر قلعے سے اتر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں پیغام بھیجا، حضرت سعد ؓ وہیں قریب ہی ایک مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے تھے، وہ گدھے پر (سوار ہوکر) تشریف لائے۔ جب قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو“ چنانچہ وہ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ”ان لوگوں (یہودبنی قریظہ)نے آپ کی ثالثی پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔“ حضرت سعد بن معاذ ؓنے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں جو جنگجو ہیں انھیں قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3043]
حدیث حاشیہ: بعض نے کہا کہ حضرت سعد ؓ کچھ بیمار تھے‘ ان کو سواری سے اتارنے کے لئے دوسرے کی مدد درکار تھی‘ اس لئے آپ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ کھڑے ہو کر ان کو اتار لو‘ ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے‘ تو نے وہ حکم دیا جو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سے دیا۔ (وحیدی) حضرت سعد ؓ کا فیصلہ حالات حاضرہ کے تحت بالکل مناسب تھا‘ اور اس کے بغیر قیام امن نا ممکن تھا۔ وہ بنو قریظہ کے یہودیوں کی فطرت سے واقف تھے‘ ان کا یہ فیصلہ یہودی شریعت کے مطابق تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3043
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3804
3804. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (بنو قریظہ کے) لوگ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے فیصلے پر راضی ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے میں سے بہتر یا اپنے سردار کے استقبال کے لیے آگے بڑھو۔“ اور فرمایا: ”اے سعد! ان لوگوں نے تمہارا فیصلہ منظور کر لیا ہے۔“ انہوں نے کہا: میں ان کے متعلق فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کر دیا جائے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے سعد! تو نے اللہ کے حکم کے مطابق، یا (آپ نے فرمایا) بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3804]
حدیث حاشیہ: اس سے حضرت سعد بن معاذ ؓ کی فضیلت ثابت ہوئی۔ ان کا تعلق انصار سے تھا، بڑے دانشمند تھے، یہود بنوقریظہ نے ان کو ثالث تسلیم کیا مگر اطمینان نہ دلایا کہ وہ اپنی جنگ جو فطرت کو بدل کر امن پسندی اختیارکریں گے اور فساد اور سازش کے قریب نہ جائیں گے اور بغاوت سے باز رہیں گے، مسلمانوں کے ساتھ غداری نہیں کریں گے، ان حالات کاجائزہ لے کر حضرت سعد بن معاذ ؓنے وہی فیصلہ دیا جو قیام امن کے لیے مناسب حال تھا۔ آنحضرت ﷺنے بھی ان کے فیصلے کی تحسین فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3804
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6262
6262. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اہل قریظہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو نبی ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے سردار یا اپنی بہتر شخصیت کو لینے کے لیے اٹھو۔“ بہرحال وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لوگ (بنو قریظہ کے یہوری) تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے اتر آئے ہیں۔“ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جو جنگجو ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا: ”آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالٰی نے کیا تھا۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: میرے بعض ساتھیوں نے ابوالولید کے واسطے سے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے قول سے إلیٰ حکمك تک بیان کیا ہے یعنی شروع سے لے کر إلیٰ حکمك تک روایت نقل کی ہے بعد والا حصہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6262]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے کہا میرے بعض ساتھیوں نے ابو الولید سے یوں نقل کیا ہے إلی حکمك یعنی بجائے علی حکمك کے ابوسعید خدری نے یوں ہی کہا بجائے علی کے إلی نقل کیا ہے حق یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ زخمی تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھ کر ان کو سواری سے اتارو اور تعظیم کے لئے کھڑا ہونا منع ہے دوسری حدیث میں ہے کہ ''لاتقومو اکما یَقُومُ الأَعَاجِمُ'' جیسے عجمی لوگ اپنے بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6262
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3043
3043. حضرت ابو خدری ؓسے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی ثالثی پر ہتھیار ڈال کر قلعے سے اتر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں پیغام بھیجا، حضرت سعد ؓ وہیں قریب ہی ایک مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے تھے، وہ گدھے پر (سوار ہوکر) تشریف لائے۔ جب قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو“ چنانچہ وہ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ”ان لوگوں (یہودبنی قریظہ)نے آپ کی ثالثی پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔“ حضرت سعد بن معاذ ؓنے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں جو جنگجو ہیں انھیں قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3043]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں ثالثی فیصلہ جائز ہے چونکہ خوارج کے نزدیک ثالثی فیصلہ کفر ہے اور انھوں نے اس بنیاد پر صحابہ کرام ؓ کی تکفیر کر ڈالی امام بخاری ؒ ان کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے جس چیز کو بنیاد بنا کر ثالثی فیصلے کی حیثیت سے انکار کیا وہ محل نظر ہے خود رسول اللہ ﷺسے ایسا کرنا ثابت ہے چونکہ حضرت سعد ؓ قریظہ کے یہودیوں کی فطرت سے واقف تھے اس لیے ان کا فیصلہ حالات حاضرہ کے عین مطابق تھا اور اس کے بغیر اسلامی ریاست میں قیام امن ناممکن تھا۔ 2۔ بنو قریظہ نے حضرت سعد ؓ کا انتخاب از خود کیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے تسلیم کر لیا بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ بھی سات آسمانوں کے اوپر یہی تھا جیسا کہ روایات میں ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3043
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3804
3804. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (بنو قریظہ کے) لوگ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے فیصلے پر راضی ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے میں سے بہتر یا اپنے سردار کے استقبال کے لیے آگے بڑھو۔“ اور فرمایا: ”اے سعد! ان لوگوں نے تمہارا فیصلہ منظور کر لیا ہے۔“ انہوں نے کہا: میں ان کے متعلق فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کر دیا جائے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے سعد! تو نے اللہ کے حکم کے مطابق، یا (آپ نے فرمایا) بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3804]
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بنوقریظہ نے وعدہ خلافی کرکے قبائل واحزاب کی موافقت کی۔ اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ان کا پچیس دن تک محاصرہ کیا۔ چونکہ وہ قبیلہ اوس کے حلیف تھے۔ اس لیے انھوں نے خیال کیا کہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ؓ ان سے رعایت کریں گے اور ان کے فیصلے پر راضی ہوگئے۔ لیکن حضرت سعد ؓ کی اسلامی غیرت نے اس قسم کی بے جاحمایت سے انکارکردیا اور شاہانہ فیصلہ فرمایا۔ اس فیصلے کی رسول اللہ ﷺ نے بھی تائید فرمائی، پھر اس پر عملدرآمد ہوا۔ 2۔ حدیث میں مسجد سے مراد مسجد نبوی نہیں بلکہ نماز پٖڑھنے کے لیے عارضی مسجد کاذکرہے جوایام محاصرہ کے دوران میں وہاں بنائی گئی تھی۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ فاضل ومشائخ کے استقبال کے لیے کھڑٖا ہونا، یعنی آگے بڑھ کر ملنا جائزہے اوروہ قیام ممنوع ہے جو کسی کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر کیاجاتاہے۔ 4۔ اس حدیث میں حضرت سعد بن معاذ ؓ کی فضیلت اور خوبی کا بیان ہے کہ انھوں نے نہایت دانشمندی سے حالات کا جائز لے کر وہی فیصلہ دیاجو قیام امن کےمناسب حال تھا، پھررسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی تحسین فرمائی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3804
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6262
6262. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اہل قریظہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تو نبی ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے سردار یا اپنی بہتر شخصیت کو لینے کے لیے اٹھو۔“ بہرحال وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ لوگ (بنو قریظہ کے یہوری) تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے اتر آئے ہیں۔“ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جو جنگجو ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا: ”آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالٰی نے کیا تھا۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: میرے بعض ساتھیوں نے ابوالولید کے واسطے سے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے قول سے إلیٰ حکمك تک بیان کیا ہے یعنی شروع سے لے کر إلیٰ حکمك تک روایت نقل کی ہے بعد والا حصہ نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6262]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلۂ اوس کے سردار تھے اور یہ قبیلۂ بنو قریظہ کا حلیف تھا جبکہ انصار کا دوسرا قبیلہ خزرج بنو نضیر کا حلیف تھا۔ چونکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے حلیف تھے، اس لیے انھوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ثالث بنایا۔ (2) غزوۂ احزاب میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، اس لیے وہ گدھے پر سوار ہو کر فیصلہ کرنے کے لیے آئے۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ اور انھیں آرام کے ساتھ سواری سے اتارو۔ “ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں کسی کی آمد پر احترامًا کھڑے ہونے کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق قیام، یعنی کھڑے ہونے کی تین قسمیں ہیں: ٭قیالہ: کوئی بڑا آدمی آئے اور بیٹھے ہوئے لوگ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جائیں، پھر جب وہ اجازت دے یا خود بیٹھ جائے تو دوسرے بیٹھیں۔ اس قسم کی تعظیم بجا لانا ایک عجمی انداز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، حدیث میں ہے: ”جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے سراپا کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ “(جامع الترمذی، الاستیذان، حدیث: 2755) ٭قیام علیہ: بڑا آدمی بیٹھا ہوا ہو اور لوگ داست بستہ، یعنی ہاتھ باندھے اس کے احترام میں کھڑے رہیں اور بڑا آدمی اس انداز سے کھڑے رہنے کو اپنی عظمت خیال کرتا ہو، ایسا کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”اہل فارس اور اہل روم اپنے بادشاہوں کے لیے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں جبکہ وہ بیٹھے ہوتے ہیں، ایسا مت کیا کرو۔ “(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 928(413) ٭ قیام الیہ: آگے بڑھ کر استقبال کرنا، شریعت نے اسے جائز قرار دیا ہے، چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ان کے ہاں جاتے تو وہ بھی آپ کا آگے بڑھ کر استقبال کرتیں۔ (سنن أبی داود، الأدب، حدیث: 5217) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق جو انصار سے فرمایا تھا تو اس کا مطلب بھی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرنا اور انھیں سواری سے اترنے میں مدد دینا تھا جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (مسند أحمد: 141/6، 142)(3) ہمارے ہاں سکولوں میں اساتذہ کی آمد پر لڑکوں اور لڑکیوں کا کھڑے ہونا اور حکم عدولی کرنے والے کو سزا دینا قیام،یعنی کھڑے ہونے کی پہلی قسم ہے جو شرعاً جائز نہیں۔ اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6262