ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ انصاری صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ کھجور کے درخت مخصوص رکھتے تھے (تاکہ اس کا پھل آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے) لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بنو قریظہ اور بنو نضیر پر فتح عطا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پھل واپس فرما دیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4030]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4030
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میرے اہلخانہ نے مجھے بھیجا تاکہ ہماری کھجوریں ہمیں واپس مل جائیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے وہ کھجوریں ام ایمن ؓ کو دے دی تھیں۔ اتنے میں وہ بھی آگئیں اور میری گردن میں کپڑا ڈال کر کہنے لگیں: اللہ کی قسم!یہ پھل تمھیں نہیں ملیں گے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے عنایت کررکھے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دس گنا دینے کے وعدے پر وہ درخت ان سے واگزار فرمائے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4120۔ ) 2۔ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کی جلاوطنی کے بعد انصار سے فرمایا: ”اگر تم چاہوتو میں تمھیں اس مال فے سے حصہ دوں لیکن اس صورت میں مہاجرین تمہاری جائیدادوں پر قابض رہیں گے اور اگر تم چاہوتو مال فے سے انھیں حصہ دو، اس صورت میں وہ تمہارے مکانات اور باغات واپس کردیں گے۔ “ توا نھوں نے دوسری صورت کو اختیار کیا۔ (فتح الباري: 416/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4030
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4604
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کوئی آدمی اپنی زمین سے کچھ کھجوروں کے درخت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیتا حتی کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے علاقے فتح کر لیے گئے تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کو جو اس نے آپﷺ کو دیا، اس کو واپس کرنے لگے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپﷺ سے درخواست کروں کہ میرے گھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4604]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مہاجرین، جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے، تو ان کے مکانات اور جائیدادیں مکہ مکرمہ میں رہ گئیں تھی، اس لیے انصار نے انہیں مکانات فراہم کیے اور انہیں اپنی زمینوں میں شریک کرنے کی پیش کش کی، جس کو مہاجرین نے مزارعت بٹائی یا مساقات (باغبانی) کی صورت میں قبول کیا، لیکن کچھ لوگوں کو کھجوروں کے درختوں کا پھل ان کی ضرورت کے تحت منیحہ کی صورت میں دیا گیا اور جب بنو قریظہ کے علاقے فتح ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جائیدادیں اور باغات مہاجرین میں تقسیم کر دئیے، حضرت ام یمن نے یہ خیال کیا کہ مجھے تو درخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنایت فرمائے ہیں، اس لیے یہ میرے ہیں، حالانکہ ان کو پھلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دئیے گئے تھے، چونکہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے بچپن میں آپ کی پرورش و پرداخت کی تھی، اس لیے آپ نے اس کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا ناز برداشت کیا اور ان کو راضی کر کے، درخت واپس دلوائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4604
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3128
3128. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ انصاری کے آدمی نبی کریم ﷺ کے لیے کھجوروں کے درخت مختص کردیتے تھے۔ جب بنو قریظہ اور بنونضیر کے علاقے فتح ہوگئے تو اس کے بعد آپ نے ان کے درخت ان کو واپس کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3128]
حدیث حاشیہ: جب مہاجرین اول اول مدینہ میں آئے تو اکثر نادار اور محتاج تھے‘ انصار نے اپنے باغات میں ان کو شریک کرلیا تھا‘ آنحضرت ﷺ کو بھی کئی درخت گزرائے گئے تھے۔ جب بنی قریظہ اور نبی نضیر کے باغات بن لڑے بھڑے آنحضرت کے قبضے میں آئے تو وہ آپ کا مال تھے‘ مگر آپ نے ان سے کئی باغ مہاجرین میں تقسیم کردئے اور ان کو یہ حکم دیا کہ اب انصارکے باغ اور درخت جو انہوں نے تم کو ديے تھے‘ وہ ان کو واپس کردو‘ اور کئی باغ آپ نے خاص اپنے لئے رکھے۔ اس میں سے جہاد کا سامان کیا جاتا اور دوسری ضروریات مثلاً آپ کی بیویوں کا خرچہ وغیرہ پورے کئے جاتے‘ حضرت امام بخاری ؒنے یہ حدیث ذکر کرکے اسی پورے خرچ کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے باب کا مطلب بخوبی نکلتاہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3128
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3128
3128. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ انصاری کے آدمی نبی کریم ﷺ کے لیے کھجوروں کے درخت مختص کردیتے تھے۔ جب بنو قریظہ اور بنونضیر کے علاقے فتح ہوگئے تو اس کے بعد آپ نے ان کے درخت ان کو واپس کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3128]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒنے یہ روایت انتہائی اختصار سے بیان کی ہے۔ قبل ازیں مفصل روایت ان الفاظ میں بیان ہوچکی ہے: جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو ان کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا۔ چونکہ انصار زمینوں والے اور صاحب جائیدادتھے، اس لیے انھوں نے مہاجرین سے یہ معاملہ طے کرلیا کہ وہ باغات میں سے انھیں ہر سال پھل دیا کریں گے اور مہاجرین اس کے عوض ان کے باغات میں کام کریں گے۔ حضرت ام سلیم ؓنے رسول اللہ ﷺ کو کھجوروں کا ایک باغ ہدیہ دیا اور آپ نے وہ باغ حضرت ام ایمن ؓ کو دے دیا، پھر جب رسول اللہ ﷺ غزوہ خیبر سے فارغ ہوئے اورمدینہ طیبہ تشریف لائے تو مہاجرین نے ان کے تحائف واپس کردیے جوانھوں نے پھلوں کی صورت میں دے رکھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کی والدہ ام سلیم ؓ کا باغ بھی واپس کردیا اور حضرت ام ایمن ؓ کو اس کے عوض اپنے باغ سے کچھ درخت عنایت کردیے۔ (صحیح البخاري، الھبة و فضلھا والتحریض علیھا حدیث: 2630) 2۔ بہرحال ان روایات کا خلاصہ یہ ہے بنونضیر کی زمینیں فے کا مال تھیں جو خالص رسول اللہ ﷺکے لیے تھیں جنھیں آپ نے مہاجرین میں تقسیم کردیا اورانھیں حکم دیا کہ انصار نے جو باغات بطور ہمدردی انھیں دیے تھے وہ واپس کر دیں اور انصار کو اس مال فے سے کچھ نہ دیا۔ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے سے بے نیاز ہوگئے، پھر جب بنوقریظہ نے عہد شکنی کی تو ان کا محاصرہ ہوا۔ بالآخر وہ حضرت سعد بن معاذ ؓکے فیصلے پر راضی ہوئے تو ان کی جائیداد کو تمام صحابہ ؓ میں تقسیم کردیا اور اپنے حصے سے اپنی ضروریات مثلاً: اہل وعیال کا نفقہ اور دیگرضروریات میں خرچ کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3128
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4120
4120. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: صحابہ کرام ؓ اپنے باغات میں سے کچھ درخت نبی ﷺ کے لیے مقرر کر دیتے تھے یہاں تک کہ جب بنو قریظہ اور بنو نضیر کو فتح کیا تو میرے اہل خانہ نے مجھے نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ میں آپ سے تمام یا کچھ کھجوروں کی واپسی کا مطالبہ کروں جو انہوں نے آپ کو دے رکھی تھیں۔ نبی ﷺ نے ہماری کچھ کھجوریں حضرت ام ایمن ؓ کو دے رکھی تھیں۔ اس دوران میں وہ بھی تشریف لے آئیں تو انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈال کر کہا: قطعا نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! جو کھجوریں آپ نے مجھے عطا کی ہیں وہ تمہیں ہرگز واپس نہیں ملیں گی یا اس طرح کے کوئی اور کلمات کہے۔ نبی ﷺ (ان سے یہ) فرماتے تھے: ”تمہیں ان کے عوض اتنے درخت دے دیتے ہیں۔“ لیکن وہ کہتیں: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! یہ کھجوریں تمہیں واپس نہیں کروں گی۔ (راوی حدیث معتمر کے والد گرامی سلیمان نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4120]
حدیث حاشیہ: 1۔ ہجرت کے بعد انصار مدینہ نے مہاجرین سے مواسات اور ہمدردی کرتے ہوئے اپنے کھجوروں کے باغات سے کچھ درخت وقتی طور پر نفع اٹھانے کے لیے انھیں دے دیے تھے۔ حضرت ام سلیم ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ کو چند درخت استعمال کے لیے دیے تھے۔ آپ نے ان میں سے کچھ درخت حضرت ام ایمن ؓ کو عطا فرمادیے۔ جب بنوقریظہ اور بنو نضیر کے باغات فتح ہوئے تو مہاجرین ان کے مالک بن گئے، اس لیے انصاری کی طرف سے وقتی طور پر عطا کر دہ درخت انھیں واپس کردیے گئے، لیکن حضرت ام ایمن ؓ نے یہ خیال کیا کہ وہ ان درختوں کی مالک ہیں، اس لیے انھوں نے وہ درخت واپس کرنے سے انکارکردیا۔ چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پرورش کرنے والی اورخدمت گزارتھیں۔ اس لیے حق حضانت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ ان کھجوروں کے عوض تمھیں دس گنا کھجوریں دی جائیں گی تو انھوں نے وہ درخت واپس کردیے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیز کا نفع ہبہ کرنا جائز ہے اگر چہ اصل چیز مالک اپنے پاس ہی رکھے۔ (فتح ا لباري: 513/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4120