ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر پہنچائی عطاء ابن ابی رباح سے، انہوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 398]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:398
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت مرسل ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ کے انر جانا ثابت نہیں، پھر وہ کعبے کے اندر کے حالات کیونکر بیان کرسکتے ہیں؟ لیکن امام مسلم ؒ نے ابن جریج کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ روایت حضر ت اسامہ ؓ بن زید سے سنی ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3237 (1330) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر صرف دعا کی ہے جبکہ حضرت بلال ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے دورکعت نماز بھی پڑھی تھی۔ اس موقع پر سیدنا بلال ؓ کی بات کااعتبار کیا یا ہے اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کی بات کو لاعلمی پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ کےاندر موجود تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تو آپ نے دعا شر وع کی، حضرت اسامہ بھی د عا میں مشغول ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا سے فراغت کے بعد دورکعت ادا فرمالیں، لیکن حضرت اسامہ اپنی دعا ہی میں منہمک ہے۔ چونکہ حضرت بلال ؓ نے آپ کی نماز کامشاہدہ کیا، اس لیے اس مشاہدے کی وجہ سے، اسے ترجیح حاصل ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ قبلے کے متعلق تو معلوم ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ نے ”یہی قبلہ ہے“ کے الفاظ کیوں ارشادفرمائے؟اس کے متعلق علماء کی کئی ایک توجہیات حسب ذیل ہیں:
۔ بیت المقدس سے تحویل قبلہ کاحکم ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اب قبلے کا حکم بیت اللہ پر ثابت ہوچکا ہے۔ اس میں اب نسخ نہیں ہوگا۔
۔ اس وضاحت میں ان لوگوں کا حکم بتایا جو بیت اللہ کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ ان کے لیے بعینہ بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس جو بیت اللہ سے غائب ہیں وہ اپنے اجہتاد سے بھی کام لے سکتے ہیں۔
۔ امام کے لیے کھڑے ہونے کی تلقین فرمائی کہ مواجہ بیت اللہ میں کھڑا ہو۔ باقی جوانب میں بھی امام کاکھڑا ہوناجائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ بیت اللہ کے سامنے کھڑا ہو۔
۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوران نماز میں مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیاہے۔ (البقرة: 149/2) رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ سے وضاحت فرمائی کہ قبلہ صرف بیت اللہ ہے، اس کے اردگرد جو مسجد حرام ہے یا مکہ مکرمہ یا حرم کی حدود میں یہ قبلہ نہیں ہیں۔ نماز کے لیے صرف بیت اللہ کی طرف منہ کیا جائے نہ کہ مسجد حرام کی طرف جو بیت اللہ کے ارد گرد کا علاقہ ہے۔ (فتح الباری: 650/1) 3۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مقصود ہے کہ مقام ابراہیم کی طرف منہ کرناضروری نہیں، اصل قبلہ تو بیت اللہ ہے، لیکن ان الفاظ سے حضرت ابن عباس ؓ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھنی چاہیے، کیونکہ اس طرح پورے بیت اللہ کا استقبال نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ حصے کی طرف پیشت ہوجاتی ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ (فتح الباری: 649/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 398
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2916
´کعبہ کے گوشوں میں تکبیر کہنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی، لیکن اس کے گوشوں میں تکبیر کہی۔ (یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اپنے علم کی بنا پر ہے، کیونکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر نہیں گئے تھے)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2916]
اردو حاشہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بات حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے سن کر بیان فرمائی۔ حدیث نمبر: 2920 اور 2912 میں وضاحت ہو چکی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس سلسلے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی ہے، البتہ کعبے کے اطراف میں تکبیریں کہنا بہر صورت جائز بلکہ مستحب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2916
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3238
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور اس میں چھ ستون تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3238]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے، اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض تمام اطراف و جوانب میں دعا فرمائی ہے نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن تمام محدثین کا اصولی قاعدہ ہے کہ مثبت، منفی پر مقدم ہے یعنی کسی واقعہ کے بارے میں زائد چیز بتانے والے کی بات مانی جائے گی، نفی کرنے والے کی بات نظرانداز کردی جائے گی، کیونکہ ہر ایک اپنے علم کے مطابق بات کرتا ہے اور ایک کا علم دوسرے سے زائد ہو سکتا ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر داخل ہو کر دعا اور نماز دونوں کام کیے ہیں اس لیے ہر ایک نے جو دیکھا تھا بتا دیا، حضرت اسامہ دور دعا میں مشغول رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سے فراغت کے بعد دو خفیف رکعات پڑھیں، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پاس تھے انھوں نے دیکھ لیا، حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دور تھے، دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا اس لیے وہ نہ دیکھ سکے، یا ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودفعہ داخل ہوئے ہوں ایک دفعہ نمازپڑھی اور ایک دفعہ نہ پڑھی اس لیے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نفی اور اثبات دونوں ثابت ہیں، لیکن بیت اللہ میں داخل ہونا اورنماز پڑھنا مناسک حج میں داخل نہیں ہے، اس لیے جمہور کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں کعبہ کے اندر داخل نہیں ہوئے۔ تاکہ لوگ اس کو حج کا حصہ نہ سمجھ لیں، نیز کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں آئمہ کے درمیان اختلاف ہے، اگر کعبہ کا دروازہ بند ہو تو جمہور جس میں، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ داخل ہیں کے نزدیک کعبہ کے کسی بھی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا صحیح ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض نماز، وتر، فجر کی سنتیں اور طواف کی دورکعات صحیح یا جائز نہیں، عام نفل پڑھنا جائز ہے اور بعض اہل ظاہر کے نزدیک کوئی نماز خواہ فرض ہو یا نفل پڑھنا جائز نہیں ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات ہی نقل کرتے تھے۔