ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا مجھ سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہم (دنیا میں) تمام امتوں کے آخر میں آئے لیکن (قیامت کے دن) تمام امتوں سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ انہیں پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں بعد میں ملی اور یہی وہ (جمعہ کا) دن ہے جس کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا۔ یہودیوں نے تو اسے اس کے دوسرے دن (ہفتہ کو) کر لیا اور نصاریٰ نے تیسرے دن (اتوار کو)۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3486]
نحن الآخرون السابقون بينا أنا نائم إذ أوتيت خزائن الأرض فوضع في يدي سواران من ذهب فكبرا علي وأهماني فأوحي إلي أن انفخهما فنفختهما فطارا فأولتهما الكذابين اللذين أنا بينهما صاحب صنعاء وصاحب اليمامة
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3486
حدیث حاشیہ: اختلاف یہ ہے کہ جمعے کا دن عبادت کے لیے مقرر کیا گیا تھا جس کی صرف اہل اسلام کو توفیق ہوئی۔ یہودیوں نے جمعہ کے بجائے ہفتے کے دن کو اختیار کیا اور عیسائیوں نے اتوار کے دن کو پسند کیا حالانکہ تمام دنوں سے جمعے کا دن بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ ہمارے لیے تہوارکے طور پر جمعہ مقرر ہوا۔ چنانچہ اس وجہ سے جمعے کے دن غسل کرنا سنت قرار دیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3486
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2956
´امام (بادشاہ اسلام) کے ساتھ ہو کر لڑنا اور اس کے زیر سایہ اپنا (دشمن کے حملوں سے) بچاؤ کرنا` «. . . أَنَّ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ . . .» ”. . . اعرج نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”ہم لوگ گو دنیا میں سب سے پیچھے آئے لیکن (آخرت میں) جنت میں سب سے آگے ہوں گے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2956]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2956 کا باب: «بَابُ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَيُتَّقَى بِهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت انتہائی مشکل نظر آتی ہے کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ امام کے ساتھ ہو کر لڑنا اور حدیث پیش فرمائی کہ ہم لوگ دنیا میں سب سے پیچھے آئے ہیں مگر جنت میں سب سے آگے ہوں گے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ بڑے ہی دقیق انداز میں استنباط فرما رہے ہیں، مذکورہ بالا حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الجمعہ میں بھی نقل فرمایا ہے۔ «نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ، فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللّٰهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ الْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ.»[صحيح البخاري، كتاب الجمعة، رقم الحديث: 876] ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں آگے رہیں گے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے قبل دی گئی تھی۔ یہی (جمعہ) ان کا دن تھا جو ان پر فرض ہوا ہے لیکن وہ اس میں اختلاف کر گئے اور اللہ تعالی نے ہمیں یہ دن بتایا اس لئے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے، یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاری تیسرے دن۔“ مندرجہ بالا حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں: «فاختلفوا فيه» یعنی وہ اختلاف کر گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں امام بادشاہ کے ساتھ مل کر یعنی اس کی اطاعت کرتے ہوئے لڑنے کے حکم کو واضح فرمایا، لازما جب امام کے ساتھ مل کر لڑا جائے گا تو اس کی تابعداری ضروری ہے، اسی لئے اگلی حدیث میں واضح الفاظ ہیں: «وانما الامام جنة يقاتل من ورائه» امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں جنگ کی جائے۔ یعنی امام کی تابعداری کرنا لازم ہو گا۔ اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ اہل کتاب نے اختلاف کیا اور امت محمدیہ کو امام بادشاہ کے ساتھ اختلاف نہیں کرنا بلکہ تابعداری کے ساتھ جہاد کرنا ہو گا، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سرداران قبائل عرب امارت کے نظام سے ناواقف تھے، وہ اپنے قبیلوں کے سرداروں کے علاوہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے، پھر جب اسلام کے آنے کے بعد ان پر امراء مقرر کئے جانے لگے تو وہ اس سے دل برداشتہ ہو گئے اور بعض نے امراء کی اتباع اور ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ ان امراء کی اطاعت میں میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے، مقصد یہ تھا کہ عرب قبائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور بغاوت و سرکشی نہ کریں۔ [أعلام الحديث للخطابي، ج 2، ص: 122] فائدہ: اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ حاکم وقت یا امیر کی اتباع اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ شریعت کے مطابق فیصلہ کریں، اگر وہ اصول دین، شریعت کی واضح مخالفت کریں، یا وہ کافروں کی مدد کے لئے اور ان سے رشتہ کو مضبوط کرنے کے لئے اگر مسلمانوں کی مخالفت کریں، یا اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں تو ان حالات میں ان کی اطاعت کرنا حرام بلکہ کفر ہے۔ صحیح البخاری کی اس حدیث کی طرف اہل علم ضرور نظر ڈالیں، امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الجہاد میں فرماتے ہیں: ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اور زبیر اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہم کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکلو حتی کہ جب تم لوگ روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا، تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔“ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ دیا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال دیا۔ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے، اس خط کا مضمون یہ تھا: حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی (وہ یہ تھا کہ تم کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جرار لشکر لئے ہوئے تمہارے سر پر آئے ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے آئیں تو بھی اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا، اب تم اپنا بچاؤ کر لو)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حاطب! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا، ان سے میرا کوئی رشتہ ناطہ نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری موجود ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے رشتہ داروں اور مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے، مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبتی تعلق نہیں ہے، اس لئے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کفر اور ارتداد کی وجہ سے ہرگز ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”حاطب نے سچ کہا ہے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اجازت دے دیجئے میں اس منافق کا سر اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ بدر کی لڑائی میں شامل تھے (مسلمانوں کے ساتھ) اور تمہیں معلوم نہیں اللہ تعالی مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود ہی فرما چکا ہے: ”تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔“[صحيح بخاري، كتاب الجهاد، رقم: 3007] مذکورہ واقعہ کی طرف غور کیجئے، اگر سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بدری نہ ہوتے تو وہ یقینا قتل کر دیئے جاتے کیوں کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کافروں کی مدد ارتداد اور کفر ہے، جبکہ حدیث کے متن پر غور فرمائیں خود سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں نے ارتداد اور کفر کی نیت سے نہیں خط لکھا . . .۔ چونکہ وہ بدری صحابی تھے اسی لئے ان کے اس جرم کو معاف کر دیا گیا تھا۔ امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بدر میں حاضر ہوئے ہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ انہوں نے ایسا کام نہیں کیا جو ان کے قتل کو جائز کرتا ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل نہ کرنے کی علت اور وجہ یہ بتائی کہ وہ بدری ہیں اور اہل بدر کو اللہ تعالی نے معاف کیا ہوا ہے۔ پس سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے حق میں اس مانع کا پایا جانا محال اور ناممکن ہے۔ [جامع العلوم و الحكم، ص: 325] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگنے کے واقعے سے جاسوس کو قتل کرنے کی مشروعیت پر دلیل اخذ کی گئی ہے۔ یہی امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے ساتھ موافقت کرنے والے علماء کا قول ہے۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ارادہ قتل کو برقرار رکھا اگر مانع نہ ہوتا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل میں موجود مانع کو بیان کر دیا یعنی سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا بدری ہونا، اور یہ خصوصیت سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے لئے محال اور ناممکن ہے۔ [فتح الباري، ج 8، ص: 810] قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول: ”مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دے دیجئے“، اس میں دلیل ہے کہ مسلمان جاسوس کو قتل کرنا جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات سے انکار نہیں کیا لیکن ان کے عذر کو اس لئے قبول فرمایا کہ وہ بدر میں شریک ہوئے تھے، اور بدری صحابہ کے گناہوں کو اللہ تعالی نے معاف کر دیا ہے۔“[اكمال المعلم شرح صحيح مسلم، ج 7، ص: 538] ان وضاحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص دین اسلام کی بنیادوں کو ڈھانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرتا ہے تو اس کی اتباع نہیں ہو گی بلکہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے والا بالاتفاق کافر و مرتد ہے۔ لہذا حاکموں اور امیروں کی اتباع معروف طریقے سے کی جائے گی، غیر معروف طریقے سے ہرگز نہیں، مکمل شریعت کو لے لیں تمام کتاب و سنت کے احکامات اس مسئلے پر وارد ہیں کہ حاکموں اور امیروں کی اتباع خلاف شریعت ہرگز نہیں ہو گی، خصوصا جب کہ یہ لوگ اسلام کو مٹانے اور کفر کے بڑھانے کے درپے ہوں۔ دو نصیحت آموز واقعات: امام مسلم رحمہ اللہ صحیح میں فرماتے ہیں: «عن على رضي الله عنه أن رسول صلى الله عليه وسلم بعث جيشا.» «و أمر عليهم رجلا، فأوقد نارا، وقال: ادخلوها، فأراد الناس أن يدخلوها وقال الآخرون: أنا قد فررنا منها، فذكر ذالك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال للذين أرادوا أن يدخلوها: لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة، وقال للآخرين قولا حسنا وقال: لا طاعة فى معصية الله إنما الطاعة فى المعروف.»[صحيح مسلم، كتاب الإمارة، رقم الحديث 184] ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس میں ایک امیر کو مقرر فرمایا (پھر اس نے آگ جلانے کا حکم دیا)، جب آگ بھڑک گئی تو اس نے لوگوں سے کہا کہ آگ میں کود جاؤ، بعض لوگ (اس کی اطاعت میں) آگ میں کود جانے کو تیار ہو گئے اور بعض نے کہا کہ ہم نے آگ سے بچنے کے لئے تو (اسلام قبول کیا ہے)، پھر اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو فرمایا جنہوں نے آگ میں کودنے کا ارادہ کیا تھا کہ ”اگر تم آگ میں کود جاتے تو ہمیشہ ہمیشہ آگ ہی میں رہتے“، اور دوسرے لوگوں کیلئے اچھی بات کہی (جنہوں نے انکار کیا تھا) اور فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے، بات یہ ہے کہ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔“ دوسرا واقعہ: جب عمر بن ہبیرہ یزید بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا عامل مقرر ہوا تو اس نے بصرہ اور کوفہ کے فقہاء کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی، ان فقہاء میں امام شعبی رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ بھی تھے۔ عمر بن ہبیرہ نے کہا: امیر المومنین! یزید بن عبدالملک مجھے بعض غیر شرعی امور کا حکم دیتے ہیں، کیا میرے لئے ان کی تعمیل کرنا جائز ہے؟ امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: آپ تو مامور ہیں، آپ ویسے ہی کریں جیسے کہ آپ کو حکم دیا جاتا ہے، گناہ تو حکم دینے والے پر ہے۔ جب امام شعبی رحمہ اللہ اپنی بات مکمل کر چکے تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: «إتق الله يا عمر! فكأنك بملك قد أتاك فاستنذلك فأخرجك من سعة قصرك إلى ضيق قبرك أن الله ينجيك من يزيد و أن يزيد لا ينجيك من الله، فإياك أن تعرض الله بالمعاصي، فإنه لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق.»[اعلام الحديث للخطابي، ج 2، ص: 1417] ”اے عمر! اللہ سے ڈر! موت کا فرشتہ گویا کہ آ چکا ہے اور وہ تجھے تیرے محل کی وسعت سے اتار کر قبر کی تنگی تک پہنچا چکا ہے۔ یقینا اللہ تعالی تجھے یزید سے بچا سکتے ہیں مگر یزید تجھے اللہ تعالی سے نہیں بچا سکتا، خبردار گناہوں سے اللہ کا مقابلہ نہ کرو اس لئے کہ مخلوق کی اطاعت کرتے ہوئے خالق کی نافرمانی کرنا جائز نہیں۔“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 209
´جمعہ کے دن کی فضیلت` «. . . 373- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نحن الآخرون الأولون السابقون يوم القيامة، بيد أنهم أوتوا الكتاب من قبلنا وأوتيناه من بعدهم، فهذا يومهم الذى فرض عليهم فاختلفوا فيه فهدانا الله له، فالناس لنا فيه تبع، اليهود غدا والنصارى بعد غد.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن سبقت لے جانے والے ہوں گے باوجود اس کے کہ انہیں (یہود و نصاریٰ کو) ہم سے پہلے کتاب ملی اور ہمیں ان کے بعد ملی۔ پس یہ دن ان پر فرض کے آ گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا، پھر اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت دی، لہٰذا سب لوگ ہمارے بعد ہیں۔ یہودیوں کا دن کل (ہفتہ) اور نصاریٰ کا پرسوں (اتوار) ہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 209]
تخریج الحدیث: [وأخرجه ابن خزيمه 3/109، 110 ح1720، من حديث مالك به، ورواه البخاري 876، ومسلم 855، من حديث ابي الزناد به]
تفقه: ➊ تمام قوموں پر مسلمانوں کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے تمام انبیاء و رسولوں کو مانا اور ان پر ایمان لائے جبکہ یہود و نصاریٰ نے بعض نبیوں کو مانا اور بعض کا انکار کردیا۔ ➋ عقیدہ اگر صحیح ہو تو تھوڑے عمل پر بھی بہت اجر ملتا ہے۔ ➌ بعض لوگ اس حدیث سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عصر کا وقت دو مثل کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن ان لوگوں کا یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔ دیکھئے: میری کتاب ہدیۃ المسلمین حدیث نمبر7 تکمیلِ فائدہ کے لئے اس تحقیق کی نقل پیشِ خدمت ہے: ◄ ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہودیوں نے دوپہر (نصف النہار) تک عمل کیا، عیسائیوں نے دوپہر سے عصر تک عمل کیا اور مسلمانوں نے عصر سے مغرب تک عمل کیا تو مسلمانوں کو دوہرا اجر ملا دیکھئے: (صحیح بخاری:557) بعض لوگ اس سے استدلال کرکے عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کا دوہرا اجر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرنے والے) تمام یہود و نصاریٰ کے مجموعی مقابلے میں ہے۔ یاد رہے کہ حضرو کے دیوبندی ”دائمی نقشۂ اوقاتِ نماز“ کے مطابق دو سب سے برے اور سب سے چھوٹے دنوں کی تفصیل (حضرو کے وقت کے مطابق) درج ذیل ہے: ● (22 جون) دوپہر 12:11 مثل اول: 3:56 (فرق: 3:45) غروب آفتاب: 7:24 (فرق: 3:28) ● (22 دسمبر) دوپہر 12:08 مثل اول: 2:47 (فرق: 2:39) غروب آفتاب: 5:05 (فرق: 2:18) ◄ اس حسب سے بھی عصر کا وقت ظہر کے وقت سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس حدیث سے بعض الناس کا استدلال مردود ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 373
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 1
´امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی فضیلت` «. . . عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ لَهُ , فَهُمْ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ فَالْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ .» ”سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ”ہم تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی، اور ہمیں ان کے بعد۔ پس یہی (جمعہ) ان کا بھی دن تھا جو ان پر فرض کیا گیا۔ (لیکن) ان لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا، اس لیے وہ (اس میں) ہمارے تابع ہو گئے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے، اور نصاریٰ تیسرے دن۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق: 1]
شرح الحدیث: ہم تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے:
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: «آخِرُونَ» سے مراد زمانہ کے اعتبار سے ہے یعنی ہم آخری امت درجہ میں سب سے پہلے ہیں۔ یہ شرف اس امت کو حاصل ہے کہ وجود کے اعتبار سے یہ امت اگرچہ سب امتوں سے آخر میں آئی ہے، لیکن آخرت میں بقیہ امتوں سے سبقت لے جانے والی ہے، کہ ان کا حشر سب سے پہلے ہو گا، حساب بھی اس امت کا سب سے پہلے ہو گا، سب سے پہلے فیصلہ ان کے بارے میں سنایا جائے گا۔ بقیہ امتوں کی نسبت یہ امت سب سے پہلے جنت میں جائے گی، اس بات کی دلیل سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «نحن الآخرون من اهل الدنيا، والاولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق»[صحيح مسلم، كتاب الجمعه، رقم: 856/22] ”ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے آخر میں ہیں، اور قیامت کے دن درجہ میں سب سے پہلے ہوں گے، سب مخلوقات سے پہلے ہمارے متعلق فیصلہ سنایا جائے گا۔“
آگے امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ”اطاعت و قبول میں سبقت لے جانا۔“ یعنی ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں سبقت لے جانے والے ہیں، جب کہ اس نعمت عظمی سے اہل کتاب محروم تھے، ان کا قول قرآن مجید میں مذکور ہے: «يَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا»[النساء: 46] ”وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔“
فرماتے ہیں ایک اور بھی قول ہے کہ ” «يوم سابق» یعنی جمعہ کے دن“ کی حفاظت کرنا مراد ہے۔ اور پہلا قول زیادہ مضبوط ہے۔ [شرح سنن النسائي: 86,8/1]
ہمارے نزدیک معنوی طور پر تینوں قول ہی درست ہیں، ان میں آپس میں منافات نہیں ہے۔
پس یہ ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا:
اس دن سے مراد جمعہ کا دن ہے کہ جمعہ کا دن پہلے یہودیوں کو دیا گیا۔
ابن ابی حاتم نے سدی کے طریق سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: «إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ»[النحل: 124] ”یقیناً ہفتہ کا دن ان لوگوں کے لیے خاص کیا گیا، جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کر ڈالا۔“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے یہود پر جعہ کا دن فرض کیا (کہ کام کاج سے چھٹی کے دن وہ اللہ کی عبادت کریں) تو یہود موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے، اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن میں کچھ بھی پیدا نہیں فرمایا، لہٰذا آپ ہمارے لیے یہ دن (عبادت کا) مقرر کر دیں، پھر ان کے لیے ہفتہ کا دن مقرر کر دیا گیا۔“[تفسير ابن ابي حاتم: 2307/7 - الدر المنثور: 5/ 174-175]
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہاں سے مراد یہ ہے کہ یہود و نصاری پر جمعہ کے دن کی تعظیم فرض تھی، تو ان لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا، یہودیوں نے کہا کہ ”تعظیم والا دن“ ہفتہ ہے، اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ (آسمان و زمین کی) تخلیق سے فارغ ہوا تھا، تو اس وجہ سے ہم اس (ہفتہ کے) دن آرام کریں گے، کام کاج نہیں کریں گے، بلکہ اللہ کی عبادت اور اس کا شکر ادا کریں گے۔ اور نصاری نے کہا کہ وہ اتوار کا دن ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دن خلقت کی پیدائش کی ابتداء کی تھی، لہذا یہ دن تعظیم کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اس دن کا مسلمانوں کو بتلا دیا اور وہ ہفتہ اور اتوار سے پہلے ہے۔ [شرح السنة 202/4]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: ”اس حدیث میں جمعہ کی فرضیت، اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی فضیلت کی دلیل موجود ہے۔“[شرح مسلم للنووي: 507/2]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 1
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1368
´جمعہ کی فرضیت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دنیا میں) ہم پیچھے آنے والے ہیں اور (قیامت میں) آگے ہوں گے، صرف اتنی بات ہے کہ انہیں (یعنی یہود و نصاریٰ کو) کتاب ہم سے پہلے دی گئی ہے، اور ہمیں ان کے بعد دی گئی ہے، یہ (جمعہ کا دن) وہ دن ہے جس دن اللہ نے ان پر عبادت فرض کی تھی مگر انہوں نے اس میں اختلاف کیا ۱؎، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے (یعنی جمعہ کے دن سے) ہمیں نواز دیا، تو لوگ اس میں ہمارے تابع ہیں ۲؎، یہود کل کی یعنی ہفتہ (سنیچر) کی تعظیم کرتے ہیں، اور نصاریٰ پرسوں کی (یعنی اتوار کی)۔“[سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1368]
1368۔ اردو حاشیہ: ➊ امت مسلمہ سب سے آخری امت ہے اور اس کے نبی آخری نبی ہیں۔ زمانے کے لحاظ سے تاخیر ان کے مرتبے میں کمی کا سبب نہیں بلکہ آخری ہونے کے لحاظ سے یہ افضل امت ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، افضل نبی ہیں۔ ➋ ”سب سے آگے“ مرتبے کے علاوہ افراد کی تعداد، حشر و نشر، حساب و کتاب، الہٰی فیصلے اور دخول جنت میں بھی سب سے آگے ہو گی۔ جنت میں نصف تعداد امت محمدیہ کی ہو گی اور باقی نصف تعداد دیگر تمام امتیوں کی۔ شرفھا اللہ تعالیٰ۔ دیکھیے: [فتح الباري: 387/11] ➌ ”علاوہ اس بات کے“ یہ ایک الگ فضیلت ہے۔ چونکہ ہماری کتاب ان کتابوں کے بعد نازل ہوئی ہے، لہٰذا ہماری کتاب اور شریعت ان کی کتابوں اور شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ اور ناسخ افضل ہوتا ہے۔ ظاہراً اس جملے کا انداز اہل کتاب کی فضیلت بیان کرنے کا ہے مگر جو کچھ بیان کیا گیا ہے، وہ امت محمدیہ کی فضیلت ہے۔ یہ بھی کسی کی تعریف کرنے کا ایک بلیغ انداز ہے۔ بیدہ کے ایک معنی ”نیز“ بھی ہیں۔ پھر مطلب بالکل واضح ہے۔ ➍ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جمعے کا دن خصوصی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا، اس سے اختلاف کیا، اور یہود نے اس دن کے بجائے ہفتہ اور عیسائیوں نے اتوار کا دن منتخب کیا جب کہ جمعے کا دن افضل ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان امتوں کو اختیار دیا کہ ہفتے کے دنوں میں سے کوئی دن خصوصی عبادت کے لیے مقرر کر لیں۔ یہودیوں نے ہفتہ اختیار کیا کہ اللہ تعالیٰ تخلیق سے جمعے کے دن فارغ ہوا اور ہفتے کو فارغ رہا۔ ہم بھی ہفتے کے دن عبادت کے لیے فارغ رہیں گے۔ عیسائیوں نے اتوار کو اختیار کیا کہ اس دن خلق کی ابتدا ہوئی تھی۔ بطور تشکر ہم اس دن عبادت کریں گے۔ یہ وجوہات خود ساختہ تھیں۔ عبادات سے ان وجوہ کا تعلق نہ تھا جب کہ جمعہ بذات خود افضل دن ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ ➎ ویسے تو دنوں کی ترتیب کسی دن سے بھی شروع کی جا سکتی ہے، مگر عبادت کا مقررہ دن ہونے کے لحاظ سے جمعۃ المبارک ان تینوں میں ترتیب کے لحاظ سے اول ہے۔ ہفتہ دوم اور اتوار سوم۔ اس لحاظ سے بھی امت محمدیہ ان سے مقدم ہے۔ ➏ جمعۃ المبارک کے دن ظہر کی بجائے جمعہ پڑھنا (خطبہ اور نماز) فرض ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے، البتہ اگر کسی سے رہ جائے یا کوئی شخص معذور ہو (مثلاً مریض، مسافر وغیرہ) تو وہ ظہر پڑھے۔ عورتیں اگر جمعہ پڑھنے مسجد میں جائیں تو وہ مردوں کی طرح ان کے ساتھ جمعہ پڑھیں گی، ورنہ گھروں میں ظہر کی نماز پڑھیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1368
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1980
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم آخرمیں ہیں قیامت کے دن اول ہوں گے اور ہم جنت میں داخل ہونے والوں میں اوّل ہوں گے۔ ہاں یہ بات ہے انہیں کتاب ہم سب سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی اور انھوں نے (اجتماع کے دن میں) اختلا ف کیا اور ہماری اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اس حق کے سلسلے میں، جس میں انہوںنے اختلا ف کیا تھا یہ (جمعہ کے دن) وہ دن ہے جو ان کے لیے مقرر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1980]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام ابن ابطال اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہفتہ میں ایک دن اجتماع وعبادت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار یہود کو بھی دیا گیا اور عیسائیوں کو بھی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ اس مقصد کے لیے جمعہ کے دن کا انتخاب کریں لیکن وہ اس انتخاب میں ناکام ہو گئے۔ یہود نے ہفتہ کا دن منتخب کرلیا اورعیسائیوں نے اتوار کا، اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ان کے لیے جمعہ کا دن معین تھا لیکن انہوں نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا کہ کیا ہمارے لیے اس کو تبدیل کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں۔ پھر یہ سمجھ کرکہ تبدیل کرنا جائزہے۔ انہوں نے اس دن کو بدل ڈالا۔ اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے جمعہ دن ہی مقرر تھا لیکن انہوں نے حسب عادت اپنے پیغمبروں کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو تبدیل کرڈالا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو توفیق دی انصار نے ہجرت سے پہلے ہی حضرت سعد بن زرارہ کی سرکردگی میں اس دن جمع ہونا شروع کر دیا تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا جمعہ بنو سالم بن عوف میں پڑھا تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر بعد میں ہوئی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1980
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7037
7037. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میں زمین کے خزانے مجھے پیش کیے گئے، نیز میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھ دیے گئے جو مجھے بہت ناگوار گزرے اور انہوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ چنانچہ میری طرف وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑ گئے۔ میں نے ان کی تعبیر دو کذابوں سے کی، جن کے درمیان میں ہوں: ایک صاحب صنعاء اور دوسرا صاحب یمامہ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7037]
حدیث حاشیہ: صنعاء میں ایک شخص اسود عنسی نامی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے بھی یہی ڈھونگ رچایا۔ اللہ نے ان دونوں کو ہلاک کر دیا لفظ فنفخه کے ذیل میں صاحب فرماتے ہیں وفي ذالك إشارة إلیٰ حقارة أمرھما لأن شان الذي ینفخ فیذھب بالنفخ أن یکون في غایة الحقارة الخ‘ (فتح) یعنی آپ کے پھونک دینے میں ان دونوں کی حقارت پر اشارہ ہے۔ اس لیے پھونک کی کیفیت میں ہے کہ جس چیز کو پھونکا جائے وہ پھونکنے سے چلی جائے وہ چیز انتہائی حقیر اور کمزور ہوتی ہے جیسے ریت مٹی ہاتھوں کے اوپر سے پھونک سے اڑا دیتے ہیں وہ سونے کے کنگن نظر آئے جو پھونکنے سے تو فوراً اڑ گئے وہ ختم ہو گئے۔ اسودہ عنسی کو فیروز نے یمین میں ختم کیا اور مسیلمہ کذاب جنگ یمامہ میں وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ختم ہوا۔ (وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7037
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:238
238. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ہم (دنیا میں) آخر میں آنے والے ہیں لیکن (قیامت کو) سبقت کر جانے والے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:238]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کہ ہم آخر میں آنے والے ہیں مگر سبقت کرجانے والے ہیں، اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ بعض شارحین نے مناسبت پیدا کرنے کے لیے دورازکار تاویلات کا سہارا لیا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اسے بطور علامت ذکر کیا ہے تاکہ اس کے ماخذ کی طرف اشارہ ہوجائے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے دوشاگرد ہیں: * عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج * ہمام بن منبہ۔ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو احادیث سنیں، انھیں قلم بند کرکے اپنے اپنے صحیفوں میں محفوظ کر لیا۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ ان دونوں کے مرتب کردہ صحیفوں سے احادیث بیان کرتے ہیں۔ امام مسلم ؒ ان سے بیان کرتے وقت پہلے بطور علامت یہ جملہ لاتے ہیں: (فذكر أحاديث منها) پھر قال رسول اللہ ﷺ سے حدیث کا آغاز کرتے ہیں، لیکن امام بخاری ؒ ان سے بیان کرتے وقت: (نحن الآخرون السابقون) کاجملہ شرو ع میں لاتے ہیں۔ ویسے امام بخاری ؒ نے مستقل طورپرمکمل حدیث کتاب الجمعہ (875) میں بیان کی ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے: الوضوء(حدیث: 238) ، الجہاد (حدیث 2956) ،الدیات (حدیث 6887) ،التوحید (74959) بعض مقامات پر اس جملے کے بغیربھی احادیث بیان کی ہیں، مثلاً: کتاب التوحید، حدیث 7506،7501،7504۔ 7505۔ شاید باب میں ایک جگہ ذکر کرنے کو کافی خیال کر لیا گیا ہو۔ اسی طرح ہمام بن منبہ کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث: 6624 وکتاب التعبیر، حدیث: 7036) بعض اوقات اس جملے کے بغیر بھی اس طریق سے احادیث بیان کی ہیں: احادیث الانبیاء (حدیث: 3472) التوحید: (7498) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ اعرج اورہمام کے علاوہ بھی جب حضرت طاؤس کے طریق سے بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ان الفاظ کو شروع میں لاتے ہیں، مثلاً: کتاب الجمعہ (حدیث: 896) ، احادیث الانبیاء (حدیث: 3486) 2۔ امام بخاری ؒ کا دوسری حدیث بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ اگر رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک راستہ کھل جائے گا، جب اس طرح لوگ اس میں پیشاب کرنے لگیں گے تو ایک نہ ایک دن وہ پانی متغیر ہوکرنجس ہوجائے گا، پھر وہ غسل اور وضو کے قابل نہیں رہے گا، اس لیے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس دروازے کو بند کرنے کے پیش نظر ہے، تاکہ لوگ کثرت سے پیشاب کرنے کی وجہ سے اسے ناقابل استعمال نہ کردیں۔ 3۔ حدیث میں الدائم کے بعد الذی لایجري کے الفاظ بطور صفت کاشفہ نہیں، بلکہ انھیں احتراز کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ماء دائم کی دو اقسام ہیں: * ماء دائم غیر جاری، جیسے تالاب اور جوہڑ وغیرہ * ماء دائم جاری، جیسے کنویں، جن کا پانی بہنے والے سوتوں کےذریعے سے اوپر آتا رہتا ہے۔ لیکن مذکورہ صفت حکم سے متعلق نہیں کہ اس سے ماء دائم جاری میں پیشاب کرنے کی اجازت ثابت کرنے لگیں، کیونکہ مفہوم مخالف ہرجگہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کی قیود کے فوائد دوسرے ہوتے ہیں،مثلاً: یہاں پانی میں پیشاب کرنے کی قباحت کو نمایاں کرنا مقصود ہے، گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب سے منع کیا، خاص طور پر وہ پانی جو جاری بھی نہ ہو، اس سے پیشاب کرنے کی قباحت کو ظاہرکرنا مقصود ہے۔ 4۔ اصحاب ظواہرنے اس حدیث کو اپنے ذوق کے مطابق عجیب معنی پہنائے ہیں، لکھا ہے کہ ممانعت پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔ اگر اس میں کوئی پاخانہ کردے تو کوئی حرج نہیں، نہ اس کی ممانعت ہے، یعنی اس پانی سے خود بھی اور دوسرے بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ پیشاب کرنے والا کسی برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یا پیشاب قریب میں کرے کہ وہاں سے خودبہہ کر پانی میں چلا جائے تو اس سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (محلی بن حزم: 35/1) 5۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کیوں بیان کی گئی ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں؟ اسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، لیکن”اصحاب تدبر“ کے ہاں احادیث بخاری میں تشکیک پیداکرنا ایک محبوب مشغلہ ہے، اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، چنانچہ لکھا ہے: لیکن سوال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو بے جوڑ باتوں کو یہاں کیوں لیا ہے جبکہ باب کی رعایت سے ان کا تعلق روایت کے آخری ٹکڑے سے تھا، وہ اس کو لے لیتے اور پہلے ٹکڑے کو چھوڑدیتے۔ “(تدبرحدیث: 329/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 238
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:876
876. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہم بعد میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنی بات ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم سے قبل کتاب دی گئی، پھر یہی جمعہ کا دن ان کے لیے بھی مقرر تھا مگر وہ اس کے متعلق اختلافات کا شکار ہو گئے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی، اس بنا پر سب لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔ یہود کل (ہفتہ) کے دن اور عیسائی پرسوں (اتوار) کے دن (عبادت کریں گے)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:876]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے واضح طور پر جمعہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں یہودونصاریٰ پر اس کے فرض ہونے کا ذکر ہے۔ انہوں نے اس سے انحراف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت کے متعلق ہماری رہنمائی فرما دی۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جمعہ کو ہم پر لکھ دیا ہے۔ (فتح الباري: 459/2) علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ جمعہ فرض عین ہے، فرض کفایہ نہیں کیونکہ اس کی فرضیت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے، پھر ان الفاظ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے: ”ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی اس بنا پر لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔ “(فتح الباري: 457/2) واللہ أعلم۔ (2) دراصل حضرت موسیٰ ؑ نے یہود سے کہا تھا کہ جمعے کا دن باقی ایام سے افضل ہے، لہذا اس کی تعظیم کرو اور اسے عبادت کے لیے وقف کر دو۔ انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے کہا کہ ہفتے کا دن افضل ہے، ہم اس کی تعظیم کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ پھر انہوں نے اس دن کا جو حشر کیا وہ أصحاب السبت کے کردار سے واضح ہے۔ شارح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر کوئی دن مقرر نہیں فرمایا بلکہ انہیں یہ کہا تھا کہ وہ ہفتے میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں اور اس میں عبادت کو بجا لائیں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ یہود نے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا۔ اور نصاریٰ نے اتوار کو پسند کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دن تمام مخلوق کو پیدا کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے ان کے خود پسند کردہ دنوں (ہفتہ، اتوار) کی تعظیم کو ان پر لازم کر دیا اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جمعے کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح سے بابرکت ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 458/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة: 686/2، طبع مکتبة الکوثر) بہرحال جمعہ کی فرضیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے متعلق فرمایا: ”بےشک میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے پر مامور کروں پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔ “(صحیح مسلم،المساجد،حدیث: 1485(652) نیز آپ نے فرمایا: ”لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل لوگوں میں شمار ہوں گے۔ “(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2002(865) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: ”نماز جمعہ ہر مسلمان پر باجماعت ادا کرنا حق اور واجب ہے۔ “(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1067) اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص نے کسی عذر کے بغیر جمعہ ترک کر دیا اسے چاہیے کہ ایک دینار صدقہ کرے اور اگر ایک دینار موجود نہ ہو تو نصف دینار صدقہ کرے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1053) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 876
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7037
7037. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میں زمین کے خزانے مجھے پیش کیے گئے، نیز میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھ دیے گئے جو مجھے بہت ناگوار گزرے اور انہوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ چنانچہ میری طرف وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑ گئے۔ میں نے ان کی تعبیر دو کذابوں سے کی، جن کے درمیان میں ہوں: ایک صاحب صنعاء اور دوسرا صاحب یمامہ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7037]
حدیث حاشیہ: 1۔ اسود عنسی کا ظہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس طرح ہوا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسے کچھ پیروکار میسرآئے جنھوں نے عَلم بغاوت بلند کیا اور انھیں شہرت وغلبہ بھی ملا بالآخر فیروز کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اسی طرح مسیلمہ کذاب نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا لیکن اس کا غلبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ظاہر نہ ہوا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیفرکردار تک پہنچایا۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ پھونک مار کر کسی کو اڑانے میں اس کی حقارت مقصود ہے کیونکہ جس چیز کو پھونکا جائے اور وہ پھونکتے ہی اڑ جائے وہ انتہائی حقیر اور کمزور ہوتی ہے جیسا کہ مٹی وغیرہ کو ہاتھوں کے اوپر سے پھونک کے ذریعے سے اڑا دیا جاتا ہے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونے کے کنگن نظر آئے لیکن پھونک مارتے ہی وہ غائب ہو گئے، اس سے مقصود بھی نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کی حقارت ہے۔ (فتح الباري: 530/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7037