الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:238
238. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ہم (دنیا میں) آخر میں آنے والے ہیں لیکن (قیامت کو) سبقت کر جانے والے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:238]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کہ ہم آخر میں آنے والے ہیں مگر سبقت کرجانے والے ہیں، اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ بعض شارحین نے مناسبت پیدا کرنے کے لیے دورازکار تاویلات کا سہارا لیا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ نے اسے بطور علامت ذکر کیا ہے تاکہ اس کے ماخذ کی طرف اشارہ ہوجائے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے دوشاگرد ہیں:
* عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج * ہمام بن منبہ۔
ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو احادیث سنیں، انھیں قلم بند کرکے اپنے اپنے صحیفوں میں محفوظ کر لیا۔
امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ ان دونوں کے مرتب کردہ صحیفوں سے احادیث بیان کرتے ہیں۔
امام مسلم ؒ ان سے بیان کرتے وقت پہلے بطور علامت یہ جملہ لاتے ہیں:
(فذكر أحاديث منها)
پھر قال رسول اللہ ﷺ سے حدیث کا آغاز کرتے ہیں، لیکن امام بخاری ؒ ان سے بیان کرتے وقت:
(نحن الآخرون السابقون)
کاجملہ شرو ع میں لاتے ہیں۔
ویسے امام بخاری ؒ نے مستقل طورپرمکمل حدیث کتاب الجمعہ (875)
میں بیان کی ہے۔
حضرت عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے:
الوضوء(حدیث: 238)
، الجہاد (حدیث 2956)
،الدیات (حدیث 6887)
،التوحید (74959)
بعض مقامات پر اس جملے کے بغیربھی احادیث بیان کی ہیں، مثلاً:
کتاب التوحید، حدیث 7506،7501،7504۔
7505۔
شاید باب میں ایک جگہ ذکر کرنے کو کافی خیال کر لیا گیا ہو۔
اسی طرح ہمام بن منبہ کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث: 6624 وکتاب التعبیر، حدیث: 7036)
بعض اوقات اس جملے کے بغیر بھی اس طریق سے احادیث بیان کی ہیں:
احادیث الانبیاء (حدیث: 3472)
التوحید:
(7498)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ اعرج اورہمام کے علاوہ بھی جب حضرت طاؤس کے طریق سے بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ان الفاظ کو شروع میں لاتے ہیں، مثلاً:
کتاب الجمعہ (حدیث: 896)
، احادیث الانبیاء (حدیث: 3486)
2۔
امام بخاری ؒ کا دوسری حدیث بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ اگر رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک راستہ کھل جائے گا، جب اس طرح لوگ اس میں پیشاب کرنے لگیں گے تو ایک نہ ایک دن وہ پانی متغیر ہوکرنجس ہوجائے گا، پھر وہ غسل اور وضو کے قابل نہیں رہے گا، اس لیے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس دروازے کو بند کرنے کے پیش نظر ہے، تاکہ لوگ کثرت سے پیشاب کرنے کی وجہ سے اسے ناقابل استعمال نہ کردیں۔
3۔
حدیث میں الدائم کے بعد الذی لایجري کے الفاظ بطور صفت کاشفہ نہیں، بلکہ انھیں احتراز کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ماء دائم کی دو اقسام ہیں:
* ماء دائم غیر جاری، جیسے تالاب اور جوہڑ وغیرہ * ماء دائم جاری، جیسے کنویں، جن کا پانی بہنے والے سوتوں کےذریعے سے اوپر آتا رہتا ہے۔
لیکن مذکورہ صفت حکم سے متعلق نہیں کہ اس سے ماء دائم جاری میں پیشاب کرنے کی اجازت ثابت کرنے لگیں، کیونکہ مفہوم مخالف ہرجگہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کی قیود کے فوائد دوسرے ہوتے ہیں،مثلاً:
یہاں پانی میں پیشاب کرنے کی قباحت کو نمایاں کرنا مقصود ہے، گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب سے منع کیا، خاص طور پر وہ پانی جو جاری بھی نہ ہو، اس سے پیشاب کرنے کی قباحت کو ظاہرکرنا مقصود ہے۔
4۔
اصحاب ظواہرنے اس حدیث کو اپنے ذوق کے مطابق عجیب معنی پہنائے ہیں، لکھا ہے کہ ممانعت پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔
اگر اس میں کوئی پاخانہ کردے تو کوئی حرج نہیں، نہ اس کی ممانعت ہے، یعنی اس پانی سے خود بھی اور دوسرے بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔
یہ بھی جائز ہے کہ پیشاب کرنے والا کسی برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یا پیشاب قریب میں کرے کہ وہاں سے خودبہہ کر پانی میں چلا جائے تو اس سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(محلی بن حزم: 35/1)
5۔
اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کیوں بیان کی گئی ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں؟ اسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، لیکن”اصحاب تدبر“ کے ہاں احادیث بخاری میں تشکیک پیداکرنا ایک محبوب مشغلہ ہے، اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، چنانچہ لکھا ہے:
لیکن سوال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو بے جوڑ باتوں کو یہاں کیوں لیا ہے جبکہ باب کی رعایت سے ان کا تعلق روایت کے آخری ٹکڑے سے تھا، وہ اس کو لے لیتے اور پہلے ٹکڑے کو چھوڑدیتے۔
“ (تدبرحدیث: 329/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 238
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:876
876. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہم بعد میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنی بات ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم سے قبل کتاب دی گئی، پھر یہی جمعہ کا دن ان کے لیے بھی مقرر تھا مگر وہ اس کے متعلق اختلافات کا شکار ہو گئے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی، اس بنا پر سب لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔ یہود کل (ہفتہ) کے دن اور عیسائی پرسوں (اتوار) کے دن (عبادت کریں گے)۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:876]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے واضح طور پر جمعہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں یہودونصاریٰ پر اس کے فرض ہونے کا ذکر ہے۔
انہوں نے اس سے انحراف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت کے متعلق ہماری رہنمائی فرما دی۔
بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جمعہ کو ہم پر لکھ دیا ہے۔
(فتح الباري: 459/2)
علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ جمعہ فرض عین ہے، فرض کفایہ نہیں کیونکہ اس کی فرضیت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے، پھر ان الفاظ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے:
”ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی اس بنا پر لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔
“ (فتح الباري: 457/2)
واللہ أعلم۔
(2)
دراصل حضرت موسیٰ ؑ نے یہود سے کہا تھا کہ جمعے کا دن باقی ایام سے افضل ہے، لہذا اس کی تعظیم کرو اور اسے عبادت کے لیے وقف کر دو۔
انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے کہا کہ ہفتے کا دن افضل ہے، ہم اس کی تعظیم کریں گے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔
پھر انہوں نے اس دن کا جو حشر کیا وہ أصحاب السبت کے کردار سے واضح ہے۔
شارح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر کوئی دن مقرر نہیں فرمایا بلکہ انہیں یہ کہا تھا کہ وہ ہفتے میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں اور اس میں عبادت کو بجا لائیں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔
یہود نے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا۔
اور نصاریٰ نے اتوار کو پسند کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دن تمام مخلوق کو پیدا کرنے کا آغاز کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے ان کے خود پسند کردہ دنوں (ہفتہ، اتوار)
کی تعظیم کو ان پر لازم کر دیا اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جمعے کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح سے بابرکت ثابت ہوا۔
(فتح الباري: 458/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
(حجة اللہ البالغة: 686/2، طبع مکتبة الکوثر)
بہرحال جمعہ کی فرضیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے متعلق فرمایا:
”بےشک میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے پر مامور کروں پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔
“ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث: 1485(652)
نیز آپ نے فرمایا:
”لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل لوگوں میں شمار ہوں گے۔
“ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2002(865)
بلکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا:
”نماز جمعہ ہر مسلمان پر باجماعت ادا کرنا حق اور واجب ہے۔
“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1067)
اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص نے کسی عذر کے بغیر جمعہ ترک کر دیا اسے چاہیے کہ ایک دینار صدقہ کرے اور اگر ایک دینار موجود نہ ہو تو نصف دینار صدقہ کرے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1053)
لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 876
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3486
3486. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہم تمام امتوں کے آخر میں آئے ہیں لیکن (قیامت کے دن) تمام امتوں سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ انھیں پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں بعد میں کتاب ملی۔ یہ (جمعہ کا) وہ دن ہے جس میں انھوں نے اختلاف کیا، اس لیے یہودیوں کے لیے کل، یعنی ہفتے کا دن اور عیسائیوں کے لیے پرسوں (اتوار) کادن طے ہوا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3486]
حدیث حاشیہ:
اختلاف یہ ہے کہ جمعے کا دن عبادت کے لیے مقرر کیا گیا تھا جس کی صرف اہل اسلام کو توفیق ہوئی۔
یہودیوں نے جمعہ کے بجائے ہفتے کے دن کو اختیار کیا اور عیسائیوں نے اتوار کے دن کو پسند کیا حالانکہ تمام دنوں سے جمعے کا دن بڑی فضیلت کا حامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ ہمارے لیے تہوارکے طور پر جمعہ مقرر ہوا۔
چنانچہ اس وجہ سے جمعے کے دن غسل کرنا سنت قرار دیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3486
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7037
7037. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میں زمین کے خزانے مجھے پیش کیے گئے، نیز میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھ دیے گئے جو مجھے بہت ناگوار گزرے اور انہوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ چنانچہ میری طرف وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑ گئے۔ میں نے ان کی تعبیر دو کذابوں سے کی، جن کے درمیان میں ہوں: ایک صاحب صنعاء اور دوسرا صاحب یمامہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7037]
حدیث حاشیہ:
1۔
اسود عنسی کا ظہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس طرح ہوا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسے کچھ پیروکار میسرآئے جنھوں نے عَلم بغاوت بلند کیا اور انھیں شہرت وغلبہ بھی ملا بالآخر فیروز کے ہاتھوں قتل ہوا۔
اسی طرح مسیلمہ کذاب نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا لیکن اس کا غلبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ظاہر نہ ہوا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیفرکردار تک پہنچایا۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ پھونک مار کر کسی کو اڑانے میں اس کی حقارت مقصود ہے کیونکہ جس چیز کو پھونکا جائے اور وہ پھونکتے ہی اڑ جائے وہ انتہائی حقیر اور کمزور ہوتی ہے جیسا کہ مٹی وغیرہ کو ہاتھوں کے اوپر سے پھونک کے ذریعے سے اڑا دیا جاتا ہے۔
3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونے کے کنگن نظر آئے لیکن پھونک مارتے ہی وہ غائب ہو گئے، اس سے مقصود بھی نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کی حقارت ہے۔
(فتح الباري: 530/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7037