یہ لوگ ہفتہ کے دن زیادتی کرنے لگے۔ «شرعا» یعنی «شوارع» ‘ پانی پر تیرتی ہوئی۔ آخر آیت «كونوا قردة خاسئين» تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3417-2]
«الزبر» بمعنی «الكتب» اس کا واحد «زبور» ہے۔ «زبرت» بمعنی «كتبت» میں نے لکھا۔ اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنے پاس سے فضل دیا (اور ہم نے کہا تھا کہ) اے پہاڑ! ان کے ساتھ تسبیح پڑھا کر۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ ( «اوبي معه») کے معنی «سبحي معه» ہے۔ اور پرندوں کو بھی ہم نے ان کے ساتھ تسبیح پڑھنے کا حکم دیا اور لوہے کو ان کے لیے نرم کر دیا تھا کہ اس سے زرہیں بنائیں۔ «سابغات» کے معنی «دروع» کے ہیں یعنی زرہیں۔ «وقدر في السرد» کا معنی ہیں۔ اور بنانے میں ایک خاص انداز رکھ (یعنی زرہ کی) کیلوں اور حلقے کے بنانے میں۔ کیلوں کو اتنا باریک بھی نہ کر کہ ڈھیلی ہو جائیں اور نہ اتنی بڑی ہوں کہ حلقہ ٹوٹ جائے اور اچھے عمل کرو۔ بیشک تم جو بھی عمل کرو گے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3417]
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ انہیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”داؤد علیہ السلام کے لیے قرآن (یعنی زبور) کی قرآت بہت آسان کر دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی سواری پر زین کسنے کا حکم دیتے اور زین کسی جانے سے پہلے ہی پوری زبور پڑھ لیتے تھے اور آپ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے۔“ اس کی روایت موسیٰ بن عقبہ نے کی ‘ ان سے صفوان نے ‘ ان سے عطاء بن یسار نے ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3417]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3417
حدیث حاشیہ: اس قدر جلد زبور پڑھ لینا حضرت داؤد کا ایک معجزہ تھا۔ لیکن اب عام مسلمانوں کےلیے قرآن کاختم تین دن سے پہلے کرنا سنت کےخلاف ہے۔ جس نے قرآن پاک تین دن سے پہلے اورتین دن سےکم میں ختم کیا اس نےقرآن فہمی کاحق ادا نہیں کیا۔ حضرت داؤد اپنے بھائیوں میں پستہ قد تھے اس لیے لوگ ان کو بنظر حقارت دیکھتےتھے۔ لیکن اللہ پاک نے حضرت داؤد کوان کے بھائیوں پرفضیلت دی اور ان پرزبور نازل فرمائی۔ اس لیے لوگ اس طرح انجیل کا یہ فقرہ صحیح ہواکہ جس پتھر کومعماروں نے خراب دیکھ کر پھینک دیاتھا، وہی محل کےکونے کا صدر نشین ہوا۔ حضرت داؤد کواللہ تعالی نے لوہے کا کام بطور معجزہ عطا فرمایا کہ لوہا ان کےہاتھ میں موم ہوجاتا اور ان سے زرہیں اور مختلف سامان بناتے۔ یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ حدیث شریف میں ان کےروزہ کی بھی تعریف کی گئی ہے اور قرآن مجید میں ان کی عبادت و ریاضت اور انابت الی اللہ کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3417
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3417
حدیث حاشیہ: زبور کو قرآن کہا گیا ہے کیونکہ اس میں احکام جمع تھے یا لغوی معنی کے اعتبار سے کہ اسے بکثرت پڑھا جاتا تھا زبور کو اتنی جلدی پڑھ لینا حضرت داؤد ؑ کا معجزہ تھا لیکن ہماری شریعت میں قرآن مجید کو تین دن سے پہلے ختم کرنا خلافت سنت ہے۔ حدیث کے مطابق جس نے قرآن کریم تین دن سے پہلے ختم کیا اس نے قرآن فہمی کا حق ادا نہیں کیا۔ حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی استعمال کرتے تھے۔ ان کی کمائی یہ تھی کہ وہ لوہے کی زرہیں بنا کر فروخت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو ان کے ہاتھوں موم کردیا تھا وہ اس سے مختلف سامان تیار کرتے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3417
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4713
4713. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”حضرت داود ؑ پر قرآن (زبور) کی تلاوت آسان کر دی گئی تھی۔ وہ گھوڑے پر زین رکھنے کا حکم دیتے، پھر زین کسے جانے سے پہلے ہی اسے پڑھ لیتے تھے۔“ یعنی اللہ کی کتاب کو مکمل پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4713]
حدیث حاشیہ: حضرت داؤد کا یہ پڑھنا بطور معجزہ کے تھا۔ قرآن مجید کا تین دن سے کم میں ختم کرنا جائز نہیں۔ بطور کرامت کے معاملہ الگ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4713
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4713
4713. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”حضرت داود ؑ پر قرآن (زبور) کی تلاوت آسان کر دی گئی تھی۔ وہ گھوڑے پر زین رکھنے کا حکم دیتے، پھر زین کسے جانے سے پہلے ہی اسے پڑھ لیتے تھے۔“ یعنی اللہ کی کتاب کو مکمل پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4713]
حدیث حاشیہ: 1۔ زبور میں کچھ مواعظ ونصائح اور دعائیں وتسبیحات وغیرہ تھیں، احکام کے لیے تورات ہی پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ حضرت داؤد ؑ کا زبور کو اتنی جلدی پڑھ لینا ایک معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے زمانہ لپیٹ دیتا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں اسے طی زمان کہتے ہیں، اس سے زیادہ خطرناک اصطلاح طی مکان کی ہے، پھر انھوں نے ان اصطلاحات کی آڑ میں ایسے واقعات بیان کیے ہیں جو عقل ونقل کے خلاف ہیں۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ تھوڑے وقت میں برکت ڈال دیتا ہے کہ اس میں بہت سے کام سرانجام پاجاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4713