ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی۔ انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے ‘ انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں عمرو بن سلیم زرقی نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو «اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وأزواجه وذريته، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد".»”اے اللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3369]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3369
حدیث حاشیہ: آل سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ آپ کے اہل بیت یعنی حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین ؓ ہیں۔ درود سے مراد یہ ہے کہ آپ کی نسل برکت کے ساتھ دنیا میں ہمیشہ باقی رہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3369
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3369
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں درود سے مراد دین ودنیا کی وہ برکتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد کو عطا فرمائیں۔ آج بیشتر اقوام عالم کا نسلی تعلق حضرت ابراہیم ؑ سے ملتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہی برکات سیدنا محمد ﷺ کو عطا فرمائی ہیں کہ آپ کا کلمہ پڑھنے والے آج روئے زمین پر لاتعداد موجود ہیں اور روزانہ نماز پنجگانہ کے وقت آپ کی رسالت کا اعلان اس شان سے کیا جاتا ہےکہ دنیا کے تمام پیشوایان مذہب میں اس کی مثال ناممکن ہے۔ 2۔ اس درود میں حضرت ابراہیم ؑ بھی مراد ہیں کیونکہ آل کا لفظ زائد ہے یا ابراہیم ؑ بھی آل میں داخل ہیں یا ابراہیم ؑ بطریق اولیٰ مراد ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پر بطریق اولیٰ اپنی رحمتیں نازل فرما۔ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کی اولاد پر درودمعروف ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنے کی تشبیہ سے مراد شہرت کے اعتبار سے ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ ”اے اہل بہت! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ “(ھود: 73/11) اس آیت کریمہ میں اہل بیت سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کی آل و اولاد ہے جیسا کہ سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3369
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 127
´درود کا بیان` «. . . 313- وبه: عن أبيه عن عمرو بن سليم الزرقي أنه قال: أخبرني أبو حميد الساعدي أنهم قالوا: يا رسول الله، كيف نصلي عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”قولوا: اللهم صل على محمد وعلى أزواجه وذريته كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وأزواجه وذريته كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد.“ . . .» ”. . . سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو «اللهم صل على محمد وعلى أزواجه وذريته كماصليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وأزواجه وذريته كماباركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور اولاد پر درود بھیج جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر درود بھیجا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور اولاد پر برکتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں۔ بے شک تو حمد و ثنا اور بزرگی والا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 127]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3369، ومسلم 407، من حديث مالك به] تفقه: ➊ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر (پہلے) تشہد میں درود پڑھنا مستحب وافضل ہے جبکہ دوسرے تشہد میں ضروری (فرض) ہے۔ ➋ درج ذیل درود بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»[صحيح البخاري 1/477 ح3370] ➌ نیز دیکھئے حدیث سابق: 268 ➍ دین کے ہر مسئلے کے لئے دلیل کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ➎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے لئے خیر کی دعائیں کرنا جزوِ ایمان ہے۔ ➏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس رک کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر درود پڑھتے تھے۔ [الموطأ 1/166 ح398 وسنده صحيح] ◄ امام نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب سفر سے تشریف لاتے تو مسجد (نبوی) میں داخل ہوتے پھر (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) قبر کے پاس آکر فرماتے: «اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَتَاهُ!»[السنن الكبريٰ للبيهقي 5/245 وسنده صحيح، طبقات ابن سعد 4/156، وسنده صحيح] ➐ سلام کہنا دعائیہ کلمات ہیں جن میں میت کو مخاطب کیا جاسکتا ہے مگر چند تخصیصات کے علاوہ یہ ثابت نہیں کہ مرنے والا سنتا ہے۔ اگر وہ سن رہا ہوتا تو سلام کا جواب ضروری تھا لیکن کسی صحیح حدیث سے سلام کا جواب ثابت نہیں ہے۔ سنن ابی داؤد میں ردِ سلام والی جو روایت آئی ہے وہ معلول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ➑ ثابت شدہ کوئی سا بھی درود پڑھنا باعثِ ثواب اور مسنون ہے لیکن واضح رہے کہ من گھڑت اور خود ساختہ درودوں سے اجتناب ضروری ہے۔ ➒ درود لکھی، درود تنجینا اور درود تاج وغیرہ دورودوں کا صحیح ثبوت حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 313
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1295
´صلاۃ (درود و رحمت) کی ایک اور قسم کا بیان۔` ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ پر صلاۃ (درود و رحمت) کیسے بھیجیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو: «اللہم صل على محمد وأزواجه وذريته»، یہ صرف حارث کی روایت میں ہے «كما صليت على آل إبراهيم وبارك على محمد وأزواجه وذريته» ۔ یہ دونوں کی روایت میں ہے «كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: قتیبہ نے اس حدیث کو مجھ سے دو بار بیان کیا، اور شاید کہ ان سے کچھ حصہ اس حدیث کا چھوٹ گیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1295]
1295۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت میں امام صاحب کے دو استاد ہیں۔ قتیبہ اور حارث بن مسکین۔ قتیبہ کی روایت میں بعض الفاظ رہ گئے ہیں جو حارث بن مسکین نے بیان کیے ہیں۔ امام صاحب نے اس کی صراحت کی ہے۔ راویت کے الفاظ پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قتیبہ سے پڑھتے وقت ایک سطر چھوٹ گئی ہے کیونکہ «اللَّهُمَّ صَلِّ» کے بعد (كَمَا بَارَكْتَ» تو نہیں آ سکتا بلکہ «كَمَا صَلَّيْتَ» ہی آ سکتا ہے۔ ➋ مندرجہ بالا احادیث میں درود کے جو الفاظ بیان کیے گئے ہیں، ان میں معمولی لفظی فرق ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان میں سے کوئی سے الفاظ بھی پڑھ لیے جائیں، کوئی حرج نہیں، البتہ درود ابراہیمی ہو جیسا کہ روایات سے ظاہر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1295
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6360
6360. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ آپ نے فرمایا: ”یوں کہو: اے اللہ! محمد (ﷺ) اور آپ کی ازوازج والاد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور عظمت والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6360]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری نے اس باب میں دو احادیث بیان کیا ہیں ایک سے بالاستقلال غیر انبیاء پر اور دوسرے سے تبعا غیر انبیاء پر درود بھیجنے کا جواز نکالا ہے۔ بعض نے غیر انبیاء کے لئے بھی استقلال کو یوں کہنا درست رکھا ہے۔ اللهم صَلِّ علیه اور حضرت امام بخاری کا بھی رجحان اسی طرح معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ صلاۃ کے معنی رحمت کے بھی ہیں۔ تواللهم صَلِّ علیه کامطلب یہ ہوا کہ یا اللہ! اس پر اپنی رحمت اتار اور ابو داؤد اور نسائی کی روایت میں یوں ہے۔ اللهم اجعَل صلواتكَ ورحمتكَ علی آل سعد بن عبادةَ بعض نے یوں کہنا بھی درست رکھا ہے کہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف ہو بعد میں اور کو بھی شریک کیا جائے جیسے یوں کہنا اللهم صل علی محمد و علی الحسن بن علی اور یہی مختار ہے۔ درود شریف میں بعض نے تخصص حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کلام کیا ہے کہ یوں کیوں نہ کہا اللهم صل علی موسیٰ جواب یہ دیا گیا کہ حضرت موسیٰ پر تجلی جلالی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر تجلی جمالی۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کو ترجيح دی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے تجلی جمالی کا سوال ہو۔ ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درجہ بڑا ہے کیونکہ آپ جد الانبیاء ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کا یہ مقام نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے اور حضر ت ابراہیم کو دنیا وآخرت میں جو رفعت وخلت حاصل ہوئی ہے وہ اور کو نہیں۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ایسی ہی رفعت وخلت کا سوال مناسب تھا جو یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل ہوا کیونکہ آج بھی آپ کے نام لینے والوں کی تعداد دنیا میں کروڑہا کروڑ تک پہنچ رہی ہے۔ (اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)(اٰمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6360
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6360
6360. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ آپ نے فرمایا: ”یوں کہو: اے اللہ! محمد (ﷺ) اور آپ کی ازوازج والاد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور عظمت والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6360]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے وقت دوسروں کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس درود کی تلقین فرمائی ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد پاکباز بھی شامل ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6360