ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ابن ابی بکر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہیں معلوم نہیں کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ کی (نئی) تعمیر کی تو کعبہ کی ابراہیمی بنیاد کو چھوڑ دیا۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیمی بنیادوں کے مطابق دوبارہ اس کی تعمیر کیوں نہیں کر دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا ہی کرتا) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں رکنوں کے، جو حجر اسود کے قریب ہیں، بوسہ لینے کو صرف اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں بنا ہے (یہ دونوں رکن آگے ہٹ گئے ہیں) اسماعیل بن ابی اویس نے اس حدیث میں عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3368]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3368
حدیث حاشیہ: یعنی عبداللہ کو ابوبکر کا پوتا کہا ہے۔ بعض نسخوں میں عبداللہ بن ابی بکر ہے۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ اس روایت میں ان کا نام عبداللہ مذکور ہے اور تنیسی کی روایت میں صرف ابن ابی بکر تھا۔ اسماعیل کی روایت کو خود مؤلف نے تفسیر میں وصل کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3368
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3368
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کی دیواروں کے متعلق دریافت کیا: آیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”ہاں! لیکن تیری قوم کے پاس اس قدر اخراجات نہیں تھے کہ وہ اسے بیت اللہ میں شامل کر کے تعمیر کرتے۔ “(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1584) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ”اگر مجھے تیری قوم کے جذبات کی پاسداری مقصود نہ ہوتی اور میرے پاس اخراجات کا بندوبست بھی ہوتا تو میں حطیم والی جگہ بیت اللہ میں شامل کردیتا اور اسے زمین کے برابر کر کے اس میں دو دروازے رکھ دیتا ایک داخل ہونے کے لیے اور ایک نکلنے کے لیے لیکن مذکورہ امور کی بنا پر میں اسے موجودہ حالت پر چھوڑتا ہوں۔ “(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3245(1333) 2۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی اٹھائی ہوئی بیت اللہ کی بنیادوں کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3368
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 301
´دوران طواف میں حطیم کے اندر طواف جائز نہیں` «. . . رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا ان البيت لم يتم على قواعد إبراهيم . . .» ”. . . رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (حطیم) والے دونوں ارکان(کونوں، دیواروں) جو (طواف میں) صرف اسی لئے نہیں چھوا تھا کہ بیت اﷲ کی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 301]
تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري 4484، و مسلم 1333/399، من حديث مالك به، من رواية يحيٰ بن يحيٰ و فى الاصل: قالج، خطا مطبعي]
تفقہ: ➊ اگر دو کام جائز ہوں اور کتاب و سنت سے ثابت ہوں تو شر و فساد سے بچنے کے لئے ان میں سے ایک کام چھوڑا جا سکتا ہے۔ ➋ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں حجر (حطیم کے اندر) میں نماز پڑھوں یا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھوں۔ [المؤطا رولية يحيٰ، 364/1 ح، 864 و سنده صحيح] یعنی حطیم کے اندر نماز پڑھنا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے مترادف ہے۔ ➌ جو شخص حطیم کے اندر سے طواف کرتا ہے تو قولِ راجح میں اس کا طواف نہیں ہوتا۔ ➍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اس صحیح حدیث کا علم نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے کہ بڑے بڑے علماء سے بھی بعض احادیث مخفی رہ سکتی ہیں۔ ➎ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تمام دلائل شرعیہ کا احاطہ کر لیا ہے تو ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ ➏ بیت اللہ کی تعمیر اول میں اختلاف ہے کہ کس کے ہاتھوں ہوئی۔ قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ بیت اللہ کی بنیادیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اٹھائی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ تو آپ نے فرمایا: مسجد حرام، پوچھا گیا اس کے بعد کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ، پوچھا گیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس (سال)۔ دیکھئے: [صحيح بخاري ح3425، و صحيح مسلم ح520] ➐ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین پر قوم نوح اور قوم ابراہیم گھروں میں رہتی تھی تاہم بیت اللہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ دیکھئے: [المختارة للضياء المقدسي 60/2 ح 438،] اور [المستدرك للحاكم 292/2، 293، و سنده حسن] ➑ لوگوں کو بلا ضرورت آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 60
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1583
1583. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”آیاتو نہیں جانتی کہ تیری قوم نے جب بیت اللہ تعمیر کیا توحضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر اسے استوار کرنے سے قاصر رہی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ بیت اللہ کو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر نہیں جاسکتے؟آپ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں ضرور کردیتا۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نےفرمایا: اگر حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات ر سول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو میرے خیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ کاحطیم سے متصل بیت اللہ کے دو کونوں کااستلام نہ کرنا اس وجہ سے تھاکہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر پورا تعمیر نہیں ہواتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1583]
حدیث حاشیہ: کیونکہ حطیم حضرت ابراہیم ؑ کی بنا میں کعبہ میں داخل تھا۔ قریش نے پیسہ کم ہونے کی وجہ سے کعبہ کو چھوٹا کردیا اور حطیم کی زمین کعبہ کے باہر چھٹی رہنے دی۔ اس لئے طواف میں حطیم کو شامل کر لیتے ہیں (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1583
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4484
4484. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم دیکھتی نہیں ہو کہ جب تمہاری قوم نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تو اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں سے کم کر دیا؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق پورا کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم ابھی نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا۔“ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: اگر حضرت عائشہ ؓ نے واقعی رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کونوں کو جو حطیم کے قریب ہیں طواف کے وقت چھونا اسی لیے ترک کر دیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر اساس ابراہیمی کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ (اور وہ کونے اصلی نہیں ہیں۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4484]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں وجہ مطابقت یہ ہے کہ اس میں ابراہیمی بنیادوں کا ذکر وارد ہوا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4484
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4484
4484. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم دیکھتی نہیں ہو کہ جب تمہاری قوم نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تو اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں سے کم کر دیا؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق پورا کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تیری قوم ابھی نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا۔“ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: اگر حضرت عائشہ ؓ نے واقعی رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کونوں کو جو حطیم کے قریب ہیں طواف کے وقت چھونا اسی لیے ترک کر دیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر اساس ابراہیمی کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ (اور وہ کونے اصلی نہیں ہیں۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4484]
حدیث حاشیہ: عنوان اور حدیث میں وجہ مطابقت یہ ہے کہ اس حدیث میں ابراہیمی بنیادوں کا ذکر ہوا ہے اس کی ہم درج ذیل نقشے سے وضاحت کرتے ہیں۔ حطیم کے متصل دو کونوں کو رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ لگانا چھوڑدیا کیونکہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ کی رکھی ہوئی بنیادوں پر پوری نہیں ہوئی تھی بلکہ چھ گز کے قریب جگہ چھوڑی گئی تھی جسے حطیم کہا جاتا ہے اور یہ حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے جسے مالی کمی کی وجہ سے کفار قریش نے چھوڑدیا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4484