102. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا تھا کہ اسلامی جھنڈا میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھئیے جھنڈا کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش! انہیں کو مل جائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں بلایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن مبارک ان کی آنکھوں میں لگا دیا اور فوراً ہی وہ اچھے ہو گئے۔ جیسے پہلے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہم ان (یہودیوں سے) اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک یہ ہمارے جیسے (مسلمان) نہ ہو جائیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی ٹھہرو پہلے ان کے میدان میں اتر کر انہیں تم اسلام کی دعوت دے لو اور ان کے لیے جو چیز ضروری ہیں ان کی خبر کر دو (پھر وہ نہ مانیں تو لڑنا) اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2942]
لأعطين الراية غدا رجلا يفتح على يديه يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله بات الناس ليلتهم أيهم يعطى فغدوا كلهم يرجوه أين علي فقيل يشتكي عينيه فبصق في عينيه ودعا له فبرأ كأن لم يكن به وجع فأعطاه فقال أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا فقال انفذ على رسلك
لأعطين الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه أين علي بن أبي طالب فقالوا يشتكي عينيه قال فأرسلوا إليه فأتوني به فلما جاء بصق في عينيه ودعا له فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع فأعطاه الراية أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا قال انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم ثم ادعهم إلى
لأعطين هذه الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله قال فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله كلهم يرجو أن يعطاها فقال أين علي بن أبي طالب فقيل هو يا رسول الله
لأعطين الراية رجلا يفتح الله على يديه فقاموا يرجون لذلك أيهم يعطى فغدوا وكلهم يرجو أن يعطى أين علي فقيل يشتكي عينيه فأمر فدعي له بصق في عينيه فبرأ مكانه حتى كأنه لم يكن به شيء فقال نقاتلهم حتى يكونوا مثلنا فقال على رسلك حتى تنزل بساحتهم
لأعطين هذه الراية رجلا يفتح الله على يديه يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله قال فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها قال فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله كلهم يرجون أن يعطاها فقال أين علي بن أبي طالب فقالوا هو يا رسول الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2942
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ آنحضرتﷺ نے لڑائی شروع کرنے سے پہلے فریق مقابل کے سامنے حضرت علی ؓ کو دعوت پیش کرنے کا حکم فرمایا ساتھ ہی یوں ارشاد ہوا کہ پہلے مخالفین کو راہِ راست پر لانے کی پوری کوشش کرو اور یاد رکھو اگر ایک آدمی بھی تمہاری تبلیغی کوشش سے نیک راستے پر آگیا تو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہے۔ عرب میں کالے اونٹوں کے مقابلے پر سرخ اونٹوں کی بڑی قیمت تھی۔ اس لئے مثال کے طور پر آپﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ اسلام کسی سے جنگ جہاد لڑائی کا خواہاں ہرگز نہیں ہے۔ وہ صرف صلح صفائی امن و امان چاہتا ہے مگر جب مدافعت ناگزیر ہو تو پھر بھرپور مقابلہ کا حکم بھی دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2942
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2942
حدیث حاشیہ: 1۔ سرخ اونٹ عربوں کے ہاں پسندیدہ اور مرغوب سرمایہ تھا۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓسے فرمایا: ”اگر اس قدر محبوب سرمایہ اللہ کی راہ میں صدقہ کروتو بھی اس ثواب کو نہیں پاسکتے ہو جو کسی آدمی کے مسلمان ہونے سے تمھیں ملے گا“ امام بخاری ؒیہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے لڑائی شروع کرنے سے پہلے فریق مقابل کے سامنے حضرت علی ؓ کو دعوتِ اسلام پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کو پہلے راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی جائے کیونکہ ہماری تبلیغی کوشش سے اگر ایک آدمی بھی راہ راست پر آگیا تو اللہ کے ہاں یہ عمل بہت اجروثواب کا باعث ہے۔ 2۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی بنیادی طور پر جنگ وقتال نہیں چاہتا وہ صرف صلح اور امن وامان چاہتا ہے مگر جب دفاع ناگزیر ہوتو پھر بھر پور مقابلے کا حکم بھی دیتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2942
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6223
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن فرمایا:" کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6223]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يدوكون: وہ گفتگو اور بات چیت کرتے رہے، اس مسئلہ میں مشغول رہے۔ (2) أنفذ علي رسلك: اپنی چال چلتے رہو۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، کسی انسان کو ہدایت اور ایمان پر لے آنا، انسان کے لیے دنیا کی ہر قیمتی متاع سے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ عربوں کے ہاں سرخ اونٹ نفیس ترین مال متصور ہوتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6223
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3009
3009. حضرت سہل بن سعد انصاری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر اعلان کیا: ”میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوگا اور وہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوگا اور اس سے اللہ اور اس کا رسول بھی محبت کرتے ہیں۔“ چنانچہ رات بھر لوگوں نے انتظار میں گزاری کہ دیکھیں آپ جھنڈا کس کو عنایت کرتے ہیں؟ جب صبح ہوئی تو سب اسکے امیدوار تھے لیکن آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”علی کہاں ہیں؟“ عرض کیا گیا کہ انھیں آشوب چشم ہے۔ آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا فرمائی تو انھیں صحت ہوگئی اور کسی قسم کی تکلیف باقی نہ رہی۔ پھر آپ نے انھیں جھنڈا عنایت فرمایا۔ حضرت علی ؓنے عرض کیا: میں ان سے جنگ کروں حتیٰ کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہوجائیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے حال پر رہو یہاں تک کہ تم ان کی سرحد میں اتر جاؤ،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3009]
حدیث حاشیہ: آنحضرتﷺ نے حضرت علی ؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ لڑائی سے قبل دشمنوں کو اسلام کی تبلیغ کریں‘ ان کو راہ ہدایت پیش کریں اور جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آنے دیں۔ لڑائی مدافعت کے لئے آخری تدبیر ہے۔ بغیر لڑائی ہی اگر کوئی دشمن صلح جو ہو جائے یا اسلام ہی قبول کرلے تو یہ نیکی عند اللہ بہت ہی زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ اس حدیث سے حضرت علی ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ اللہ نے جنگ خیبر کی فتح ان کے ہاتھ پر مقدر رکھی تھی۔ ترجمہ باب حدیث کے الفاظ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ سے نکلتا ہے۔ سبحان اللہ! کسی شخص کو راہ پر لانا اور کفر سے ایمان پر لگا دینا کتنا بڑا اجر رکھتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وعظ اور تعلیم اور تلقین میں کوشش بلیغ کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ پیغمبروں کی میراث ہے اور چپ ہو کر بیٹھ رہنا اور زبان اور قلم کو روک لینا عالموں کے لئے غضب کی بات ہے۔ ہمارے زمانہ کے مولوی اور مشائخ جو گھروں میں آرام سے بیٹھ کر چرب لقموں پر ہاتھ مارتے ہیں اور خلاف شرع کام دیکھ کر سکوت کرتے ہیں اور جاہلوں کو نصیحت نہیں کرتے‘ امراء اور دنیا داروں کی خوشامد میں غرق ہیں۔ یہ پیغمبر ؑ کے سامنے قیامت کے دن کیا جواب دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جو علم و فضل کی دولت عطا فرمائی اس کا شکریہ یہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں سرگرم رہیں اور تعلیم و تلقین کو اپنا وظیفہ بنا لیں۔ دیہات کے مسلمانوں کو جو دینی مسائل اور اعتقادات سے ناواقف ہیں‘ ان کو واقف کرائیں اور ہر جگہ دعوت اسلام پہنچائیں۔ افسوس ہے کہ نصاریٰ تو اپنا باطل خیال یعنی تثلیث پھیلانے کے لئے ہر گاؤں ہر بستی اور راستے اور مجمع میں وعظ کہتے پھریں اور مسلمان سچے اعتقاد یعنی توحید پر ہو کر زبان بند رکھیں اور سچا دین پھیلانے میں کوئی کوشش نہ کریں۔ اگر سچے دین کے پھیلانے میں کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کو عین سعادت اور برکت اور کامیابی سمجھنا چاہئے۔ دیکھو ہمارے پیغمبر ﷺ نے دعوت اسلام میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں۔ زخمی ہوئے سر پھوٹے‘ دانت ٹوٹا‘ گالیاں کھائیں‘ یا اللہ! تیری راہ میں اگر ہم کو گالیاں پڑیں تو وہ عمدہ اور شیریں لقموں سے زیادہ ہم کو لذیذ ہیں۔ اور تیرا سچا دین پھیلانے میں اگر ہم مارے جائیں یا پیٹے جائیں تو وہ ان دنیا دار بادشاہوں کی خلعت اور سرفرازی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یا اللہ! مسلمانوں کی آنکھ کھول دے کہ وہ بھی اپنے پیارے پیغمبر کا دین پھیلانے میں ہمہ تن کوشش شروع کریں‘ گاؤں گاؤں وعظ کہتے پھریں۔ دین کی کتابیں اور رسالے چھپوا چھپوا کر مفت تقسیم کریں‘ آمین یا رب العالمین۔ (وحیدی) الحمد للہ اس تبلیغی دورہ بھوج کچھ میں جو حال ہی میں یہاں کے ۲۵ دیہات میں کیا گیا‘ بخاری شریف مترجم اردو کے تین سو سے زائد پارے اور نماز کی کتابیں دو سو اور کئی متفرق تبلیغی رسائل دو سو سے بھی زائد تعداد میں بطور تحائف و تبلیغ تقسیم کئے گئے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔ اور جملہ حصہ لینے والے حضرات کو اس کی بہتر سے بہتر جزائیں عطا کرے۔ کتابی تبلیغ آج کے دور میں ایک ٹھوس تبلیغ ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوسکتے ہیں۔ وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3009
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4210
4210. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا: ”میں کل یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالٰی فتح عطا کرے گا۔ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نیز اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔“ لوگ ساری رات اس امر میں غور کرتے رہے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا دیا جائے گا؟ جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو امید تھی کہ آپ ﷺ جھنڈا اسے دیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ”علی بن ابی طالب کہاں ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کی آںکھوں میں شدید درد ہے۔ آپ نے ان کی طرف کسی آدمی کو بھیجا، چنانچہ انہیں لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لب مبارک ڈالا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ تندرست ہو گئے، گویا ان کی آنکھوں میں کبھی درد ہی نہیں ہوا۔ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4210]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ جنگ اسلام کا مقصود اول نہیں ہے۔ اسلام کا مقصود حقیقی اشاعت اسلام ہے جو اگر تبلیغ اسلام سے ہوجائے تو لڑنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف فرمایا ہے کہ اللہ پاک فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا وہ تو عدل وانصاف اور صلح وامن وامان کا چاہنے والا ہے۔ حضرت علی ؓ کو فاتح خیبر اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آخر میں جھنڈا سنبھالا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کرایا۔ لال اونٹ عرب کے ممالک میں بہت قیمتی ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4210
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3701
3701. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت کرےگا۔“ لوگ رات بھر سوچتے رہے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے؟صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہرایک کی خواہش تھی کہ جھنڈا اسے دیاجائے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: ”علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ان کی آنکھوں میں کوئی شکایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے پیغام بھیج کر بلاؤ۔“ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ اس سے انھیں ایسی شفا ہوئی کہ گویا پہلے کوئی مرض ہی نہیں تھا۔ آپ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا دیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ!میں ان سے جنگ کرتا رہوں حتیٰ کہ وہ سارے ہم جیسے(مسلمان) ہوجائیں؟آ پ نے فرمایا: ”ابھی یوں ہی چلتے رہو۔ جب ان کے میدان میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3701]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آنے پائے، اسلام لڑائی کرنے کا حامی نہیں ہے، اسلام امن چاہتاہے، اس کی جنگ صرف مدافعانہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3701
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3009
3009. حضرت سہل بن سعد انصاری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر اعلان کیا: ”میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوگا اور وہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوگا اور اس سے اللہ اور اس کا رسول بھی محبت کرتے ہیں۔“ چنانچہ رات بھر لوگوں نے انتظار میں گزاری کہ دیکھیں آپ جھنڈا کس کو عنایت کرتے ہیں؟ جب صبح ہوئی تو سب اسکے امیدوار تھے لیکن آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”علی کہاں ہیں؟“ عرض کیا گیا کہ انھیں آشوب چشم ہے۔ آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا فرمائی تو انھیں صحت ہوگئی اور کسی قسم کی تکلیف باقی نہ رہی۔ پھر آپ نے انھیں جھنڈا عنایت فرمایا۔ حضرت علی ؓنے عرض کیا: میں ان سے جنگ کروں حتیٰ کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہوجائیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے حال پر رہو یہاں تک کہ تم ان کی سرحد میں اتر جاؤ،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3009]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓ کو ہدایت فرمائی وہ لڑائی اور جنگ و قتال سے پہلے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں ان کے سامنے صراط مستقیم پیش کریں جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آنے دیں لڑائی تو صرف دفاع کے لیے آخری تدبیرہے۔ لڑائی کے بغیر اگر دشمن اسلام قبول کر لے یا کم ازکم صلح کرے تو یہ اقدام اللہ کے ہاں بہت قیمت رکھتا ہےیقیناً اگر کسی کی تبلیغی کوشش سے کوئی انسان اسلام قبول کر لے یا وہ راہ راست پر آجائے تو اس کی نیکی کا کیا ٹھکانا ہے!یہ ایسا صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لانا بہت بڑےاجرو ثواب کا باعث ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وعظ و تبلیغ اور تعلیم و تلقین کرنے میں سر گرم عمل رہیں کیونکہ یہ انبیاء ؑ کی سیرت اور اہل اسلام اس کے پاسبان اور نگہبان ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3009
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4210
4210. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا: ”میں کل یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالٰی فتح عطا کرے گا۔ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نیز اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔“ لوگ ساری رات اس امر میں غور کرتے رہے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا دیا جائے گا؟ جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو امید تھی کہ آپ ﷺ جھنڈا اسے دیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ”علی بن ابی طالب کہاں ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کی آںکھوں میں شدید درد ہے۔ آپ نے ان کی طرف کسی آدمی کو بھیجا، چنانچہ انہیں لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لب مبارک ڈالا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ تندرست ہو گئے، گویا ان کی آنکھوں میں کبھی درد ہی نہیں ہوا۔ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4210]
حدیث حاشیہ: 1۔ اسلام کامقصود حقیقی اشاعت دین ہے، جنگ وقتال مقصود حقیقی نہیں۔ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف اور صلح وامن کو پسند کرتا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کافر کی تالیف قلبی کرنا تاکہ وہ مسلمان ہوجائے اسے قتل کرنے سے بہتر ہے۔ (فتح الباري: 597/7) 3۔ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے یہود کو پہلے دعوتِ اسلام دی لیکن انھوں نے اسے مستردکردیا اوراپنے بادشاہ مرحب کی زیر کمان مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ میدان جنگ میں اُترکر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی اور یہ کہتا ہوا نمودار ہوا: ”خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار، جب جنگ شعلہ زن ہو۔ “ اس کے مقابلے میں حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے چچا حضرت عامر ؓ نمودار ہوئے اور فرمایا: ”خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں، ہتھیار پوش، شہ زور اور جنگجو۔ “ پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا لیکن حضرت عامر ؓ میدان میں کام آگئے۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ مقابلے کے لیے تشریف لائے اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے میدان میں اترے: ’ ’میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر(شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک ہوں۔ میں انھیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا، یعنی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا۔ “ اس کے بعد انھوں نے مرحب کے سرپرایسی تلوار ماری کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوا۔ اسی قلعہ سے حضرت صفیہ ؓ کوقید کیا گیا تھا۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4678(1807)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4210