102. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں۔
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے حمید نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک کوئی اقدام نہ فرماتے جب تک صبح نہ ہو جاتی، جب صبح ہو جاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان کی آواز سنائی نہ دیتی تو صبح ہونے کے بعد حملہ کرتے۔ چنانچہ خیبر میں بھی ہم رات میں پہنچے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2943]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2943
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں بھی اشارہ ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہر وہ موقع تلاش کرلینا چاہئے جس سے جنگ کا خطرہ ٹل سکے کیونکہ اسلام کا مقصد جنگ ہرگز نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2943
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2943
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جنگ سے پہلے ہر وہ موقع تلاش کرلینا چاہیے جس سے جنگ کا خطرہ ٹل سکے کیونکہ جنگ وقتال اسلام کے مقاصد سے نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ صبح تک اس لیے انتظار کرتے تھے تاکہ پتہ نہ چل جائے کہ اس علاقے کے لوگ مسلمان ہیں یا نہیں۔ اذان وغیرہ اسلامی شعائر سے ان کا حال معلوم ہوجاتا تھا۔ 2۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم کے متعلق معلوم نہ ہوسکے کہ انھیں دعوت اسلام پہنچی ہے یا نہیں تو صبح تک انتظار کرلیا جائے۔ اگراذان سنائی دے تو حملہ نہ کیاجائے بصورت دیگرحملہ کردیا جائے۔ دعوت اسلام کے متعلق جمہور کا مسلک یہ ہے کہ اگردعوت نہیں پہنچی تو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے،اگرپہنچ چکی ہے تو نئے سرے سے دینا مستحب ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2943