الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
102. بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ، وَأَنْ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ:
102. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں۔
حدیث نمبر: 2941
قَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّأْمِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تِجَارًا فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّأْمِ فَانْطُلِقَ بِي وَبِأَصْحَابِي حَتَّى قَدِمْنَا إِيلِيَاءَ فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ وَعَلَيْهِ التَّاجُ، وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، فَقَالَ: لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، قَالَ: أَبُو سُفْيَانَ، فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا، قَالَ: مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ، فَقُلْتُ: هُوَ ابْنُ عَمِّي وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي، فَقَالَ: قَيْصَرُ أَدْنُوهُ وَأَمَرَ بِأَصْحَابِي فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ: لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لِأَصْحَابِهِ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْكَذِبَ لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الْكَذِبَ عَنِّي فَصَدَقْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ، قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ، قَالَ: هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ، قُلْتُ: لَا، فَقَالَ: كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَلَى الْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا، قَالَ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: فَيَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ، قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ، قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ الْآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ لَا أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَتْ حَرْبُهُ وَحَرْبُكُمْ، قُلْتُ: كَانَتْ دُوَلًا وَسِجَالًا يُدَالُ عَلَيْنَا الْمَرَّةَ وَنُدَالُ عَلَيْهِ الْأُخْرَى، قَالَ: فَمَاذَا يَأْمُرُكُمْ، قَالَ: يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالْعَفَافِ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، فَقَالَ: لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ، قُلْتُ: ذَلِكَ لَهُ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ، عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ، هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ، قَالَ: هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ، قُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا، قَالَ: فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ، قُلْتُ: يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ، أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تَخْلِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا يَغْدِرُونَ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ تَكُونُ دُوَلًا وَيُدَالُ عَلَيْكُمُ الْمَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الْأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَتَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالْعَفَافِ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ وَإِنْ يَكُ مَا، قُلْتَ: حَقًّا فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ، تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 64 قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ فَلَا أَدْرِي مَاذَا قَالُوا وَأُمِرَ بِنَا، فَأُخْرِجْنَا فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَوْتُ بِهِمْ، قُلْتُ لَهُمْ: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ هَذَا مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الْإِسْلَامَ، وَأَنَا كَارِهٌ".
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ وہ ان دنوں شام میں مقیم تھے۔ یہ قافلہ اس دور میں یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش میں باہم صلح ہو چکی تھی۔ (صلح حدیبیہ) ابوسفیان نے کہا کہ قیصر کے آدمی کی ہم سے شام کے ایک مقام پر ملاقات ہوئی اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے (قیصر کے دربار میں بیت المقدس) لے کر چلا پھر جب ہم ایلیاء (بیت المقدس) پہنچے تو قیصر کے دربار میں ہماری بازیابی ہوئی۔ اس وقت قیصر دربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا اور روم کے امراء اس کے اردگرد تھے، اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے نسب کے اعتبار سے ان سے قریب ان میں سے کون شخص ہے؟ ابوسفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں نسب کے اعتبار سے ان کے زیادہ قریب ہوں۔ قیصر نے پوچھا تمہاری اور ان کی قرابت کیا ہے؟ میں نے کہا (رشتے میں) وہ میرے چچازاد بھائی ہوتے ہیں، اتفاق تھا کہ اس مرتبہ قافلے میں میرے سوا بنی عبد مناف کا اور آدمی موجود نہیں تھا۔ قیصر نے کہا کہ اس شخص (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) کو مجھ سے قریب کر دو اور جو لوگ میرے ساتھ تھے اس کے حکم سے میرے پیچھے قریب میں کھڑے کر دئیے گئے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص (ابوسفیان) کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں پوچھوں گا جو نبی ہونے کے مدعی ہیں، اگر یہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہے تو تم فوراً اس کی تکذیب کر دو۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اگر اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر بیٹھیں تو میں ان سوالات کے جوابات میں ضرور جھوٹ بول جاتا جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئے تھے، لیکن مجھے تو اس کا خطرہ لگا رہا کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر دیں۔ اس لیے میں نے سچائی سے کام لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں ان صاحب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب کیسا سمجھا جاتا ہے؟ میں نے بتایا کہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نے پوچھا اچھا یہ نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے بھی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس دعویٰ سے پہلے ان پر کوئی جھوٹ کا الزام تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس نے پوچھا ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے پوچھا تو اب بڑے امیر لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں یا کمزور اور کم حیثیت کے لوگ؟ میں نے کہا کہ کمزور اور معمولی حیثیت کے لوگ ہی ان کے (زیادہ تر ماننے والے ہیں) اس نے پوچھا کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی جا رہی ہے؟ میں نے کہا جی نہیں تعداد برابر بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نے پوچھا کوئی ان کے دین سے بیزار ہو کر اسلام لانے کے بعد پھر بھی گیا ہے کیا؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس نے پوچھا انہوں نے کبھی وعدہ خلافی بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں لیکن آج کل ہمارا ان سے ایک معاہدہ ہو رہا ہے اور ہمیں ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ پوری گفتگو میں سوا اس کے اور کوئی ایسا موقع نہیں ملا جس میں میں کوئی ایسی بات (جھوٹی) ملا سکوں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو۔ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بھی جھٹلانے کا ڈر نہ ہو۔ اس نے پھر پوچھا کیا تم نے کبھی ان سے لڑائی کی ہے یا انہوں نے تم سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، اس نے پوچھا تمہاری لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ میں نے کہا لڑائی میں ہمیشہ کسی ایک گروہ نے فتح نہیں حاصل کی۔ کبھی وہ ہمیں مغلوب کر لیتے ہیں اور کبھی ہم انہیں، اس نے پوچھا وہ تمہیں کن کاموں کا حکم دیتے ہیں؟ کہا ہمیں وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں، ہمیں ان بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے، نماز، صدقہ، پاک بازی و مروت، وفاء، عہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب میں اسے یہ تمام باتیں بتا چکا تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا، ان سے کہو کہ میں نے تم سے ان صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے متعلق دریافت کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تمہارے یہاں صاحب نسب اور شریف سمجھے جاتے ہیں اور انبیاء بھی یوں ہی اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ میں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا نبوت کا دعویٰ تمہارے یہاں اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تھا تم نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایسا دعویٰ پہلے کسی نے نہیں کیا تھا، اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر اس سے پہلے تمہارے یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ صاحب بھی اسی دعویٰ کی نقل کر رہے ہیں جو اس سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا تھا، تم نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص جو لوگوں کے متعلق کبھی جھوٹ نہ بول سکا ہو وہ اللہ کے متعلق جھوٹ بول دے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ تھا، تم نے بتایا کہ نہیں۔ میں نے اس سے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ (نبوت کا دعویٰ کر کے) وہ اپنے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں، میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کی اتباع قوم کے بڑے لوگ کرتے ہیں یا کمزور اور بے حیثیت لوگ، تم نے بتایا کہ کمزور غریب قسم کے لوگ ان کی تابعداری کرتے ہیں اور یہی گروہ انبیاء کی (ہر دور میں) اطاعت کرنے والا رہا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ان تابعداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی بھی ہے؟ تم نے بتایا کہ وہ لوگ برابر بڑھ ہی رہے ہیں، ایمان کا بھی یہی حال ہے، یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جائے، میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد کبھی اس سے پھر بھی گیا ہے؟ تم نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، ایمان کا بھی یہی حال ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو پھر کوئی چیز اس سے مومن کو ہٹا نہیں سکتی۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وعدہ خلافی بھی کی ہے؟ تم نے اس کا بھی جواب دیا کہ نہیں، انبیاء کی یہی شان ہے کہ وہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے کبھی ان سے یا انہوں نے تم سے جنگ بھی کی ہے؟ تم نے بتایا کہ ایسا ہوا ہے اور تمہاری لڑائیوں کا نتیجہ ہمیشہ کسی ایک ہی کے حق میں نہیں گیا۔ بلکہ کبھی تم مغلوب ہوئے ہو اور کبھی وہ۔ انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے وہ امتحان میں ڈالے جاتے ہیں لیکن انجام انہیں کا بہتر ہوتا ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ وہ تم کو کن کاموں کا حکم دیتے ہیں؟ تم نے بتایا کہ وہ ہمیں اس کا حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں تمہارے ان معبودوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے۔ تمہیں وہ نماز، صدقہ، پاک بازی، وعدہ وفائی اور اداء امانت کا حکم دیتے ہیں، اس نے کہا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے میرے بھی علم میں یہ بات تھی کہ وہ نبی مبعوث ہونے والے ہیں۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ تم میں سے وہ مبعوث ہوں گے، جو باتیں تم نے بتائیں اگر وہ صحیح ہیں تو وہ دن بہت قریب ہے جب وہ اس جگہ پر حکمراں ہوں گے جہاں اس وقت میرے دونوں قدم موجود ہیں، اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کی توقع ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی پوری کوشش کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں موجود ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ اس کے بعد قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک طلب کیا اور وہ اس کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا ہوا تھا (ترجمہ) شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کر لے۔ امابعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرو، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہو گی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا (ایک تمہارے اپنے اسلام کا اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہو گی) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منہ موڑ لیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمہ پر آ کر ہم سے مل جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو پروردگار بنائے اب بھی اگر تم منہ موڑتے ہو تو اس کا اقرار کر لو کہ (اللہ تعالیٰ کا واقعی) فرمان بردار ہم ہی ہیں۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ جب ہرقل اپنی بات پوری کر چکا تو روم کے سردار اس کے اردگرد جمع تھے، سب ایک ساتھ چیخنے لگے اور شور و غل بہت بڑھ گیا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے تھے۔ پھر ہمیں حکم دیا گیا اور ہم وہاں سے نکال دئیے گئے۔ جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا آیا اور ان کے ساتھ تنہائی ہوئی تو میں نے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے، بنو الاصفر (رومیوں) کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے، ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اسی دن سے اپنی ذلت کا یقین ہو گیا تھا اور برابر اس بات کا بھی یقین رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور غالب ہوں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بھی اسلام داخل کر دیا۔ حالانکہ (پہلے) میں اسلام کو برا جانتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2941]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلترجمانه سلهم أيهم أقرب نسبا إلى هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم إليه نسبا قال ما قرابة ما بينك وبينه فقلت هو ابن عمي وليس في الركب يومئذ أحد من بني عبد مناف غيري فقال قيصر أدنوه وأمر بأصحابي فجعلوا خلف ظهري عند كتفي ثم قال لترجم
   صحيح البخاريأيكم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم نسبا فقال أدنوه مني وقربوا أصحابه فاجعلوهم عند ظهره ثم قال لترجمانه قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل فإن كذبني فكذبوه فوالله لولا الحياء من أن يأثروا علي كذبا لكذبت عنه ثم كان أول
   سنن أبي داودسلام على من اتبع الهدى
   صحيح مسلمايكم اقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم انه نبي؟، فقال ابو سفيان: فقلت: انا فاجلسوني بين يديه واجلسوا اصحابي خلفي ثم دعا بترجمانه، فقال له: قل لهم إني سائل هذا عن الرجل الذي يزعم انه نبي فإن كذبني فكذبوه
   سلسله احاديث صحيحهبسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، اما بعد: فإني ادعوك بدعاية الإسلام: اسلم تسلم: يؤتك الله اجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين
   سلسله احاديث صحيحهبسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، اما بعد: فإني ادعوك بدعاية الإسلام: اسلم تسلم: يؤتك الله اجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين
   الأدب المفرد للبخاريبسم الله الرحمن الرحيم، من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم، سلام على من اتبع الهدى، اما بعد، فإني ادعوك بدعاية الإسلام، اسلم تسلم، يؤتك الله اجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2941 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2941  
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث "حدیث ہرقل" کے نام سے مشہور ہے۔
امام بخاری ؒنے اس سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے اور اسے متعدد مقامات پر مختصر اور تفصیل سے بیان کیا ہے اس مقام پر اسے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر مسلم حضرات کو دعوت اسلام کس طرح دینی چاہیے اس کی وضاحت کی ہے۔
اس میں شاہ روم ہرقل کو دعوت اسلام دینے کا اسلوب بیان ہوا ہےکہ جہاد وقتال سے پہلے اسلام کی دعوت دینا ضروری ہے۔

اس میں ابو سفیان ؓ اور اس طرح دیگر سرداران قریش کو جو آپ نے دعوت دی تھی اس کا حاصل بیان ہوا ہے۔
چنانچہ حضرت ابو سفیان ؓ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہو گئے اور انھیں مؤلفہ القلوب میں شمار کیا گیا۔
قبل ازیں وہ مشرکین کے کمانڈر کی حیثیت سے غزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں شریک رہے۔
آخرکار اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی حقانیت ان کے دل میں پیوست کردی اور وہ مسلمان ہو گئے۔
اس وقت جو دل میں کراہت تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ نے دل سے نکال دی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2941   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5136  
´ذمی (کافر معاہد) کو کس طرح خط لکھا جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کے نام خط لکھا: اللہ کے رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام، سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔‏‏‏‏ محمد بن یحییٰ کی روایت میں ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوسفیان نے ان سے کہا کہ ہم ہرقل کے پاس گئے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا تو اس میں لکھا تھا: «بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد» ۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5136]
فوائد ومسائل:

خط ہو یا کوئی اوراہم تحریریں اس کی ابتداء میں بسم الله الرحمٰن الرحيم لکھنا سنت ہے۔
اس کی بجائے عدد لکھنا خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہے۔


خط میں پہلے کاتب اپنا نام لکھے اس کے بعد مکتوب الیہ کا

کافر کے نام خط میں مسنون سلام کی بجائے یوں لکھا جائے۔
(وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ) سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کا پیروکار ہو۔


اسلام کی دعوت یا کسی اور شرعی غرض سے قرآن مجید کی آیات لکھ دینا بھی جائز ہے۔
اس وجہ سے کے یہ کافر کے ہاتھ میں جایئں گی۔
آیات تحریر کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
الا یہ کہ خوب واضح ہو کہ وہ آیات قرآنیہ کی ہتک کریں گے۔
اس صورت میں یقیناً نہ لکھی جایئں۔
اور یہی مسئلہ قرآن مجید کا ہے۔
دعوت اسلام کی غرض سے کافر کو قرآن مجید دیا جا سکتا ہے۔


دعوت کے میدان کو حتیٰ الامکان پھیلانا چاہیے۔
اور تحریری میدان میں بھی یہ کارخیر سرانجام دیا جانا چاہیے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5136   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4607  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو سفیان نے روبرو بتایا کہ میں اس معاہدہ کے دوران جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا، میں شام میں ہی تھا کہ شاہ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب لایا گیا اور لانے والے دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اس نے اسے بصریٰ کے حاکم کے حوالہ کیا اور بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل کو دے دیا تو ہرقل نے پوچھا، کیا ادھر اس آدمی کی قوم کا کوئی فرد موجود ہے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4607]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
اس سے مراد وہ عرصہ ہے،
جس میں قریش مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر 6ھ میں دس سال تک لڑائی نہ کرنے کی صلح کی تھی۔
(2)
هِرَقل:
مشہور قول کے مطابق،
ھاء پر زیر ہے اور را پر زبر،
قاف ساکن ہے،
اگرچہ ایک قول کے مطابق را ساکن ہے اور قاف پر زیر ہے،
یعنی هرقل اور یہ روم کے بادشاہ کا نام ہے۔
(3)
ترجمان:
امام نووی کے نزدیک تاء پر زبر اور جیم پر پیش پڑھنا بہتر ہے،
اگرچہ دونوں پر زیر اور دونوں پر پیش پڑھنا بھی درست ہے،
ترجمہ کرنے والا،
مترجم،
ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنے والا۔
(4)
لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ:
اگر اندیشہ نہ ہوتا کہ میری طرف سے جھوٹ نقل کیا جائے گا،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
اسے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ وہ اسے وہاں جھوٹا قرار دیں،
لیکن وہ یہ سمجھتا تھا کہ میں جو یہاں جھوٹی بات کہوں گا مکہ جا کر وہ اسے نقل کریں گے تو لوگ مجھے جھوٹا قرار دیں گے،
اس طرح وہ جھوٹ بولنا اپنے مقام و مرتبہ کے مناسب نہیں سمجھتا تھا،
جب اب صورت حال یہ ہے کہ مسلمان لیڈروں کا اوڑھنا بچھونا ہی جھوٹ ہے اور اس کے بغیر ان کا کام ہی نہیں چل سکتا۔
(5)
أشراف:
شريف کی جمع ہے،
مراد عمومی اور غالب صورت ہے،
کہ عام طور پر اہل نخوت اور چوہدری لوگ ابتداً انبیاء کی مخالفت کرتے ہیں،
اگرچہ کچھ ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔
(6)
سخطة له:
دین کے کسی عیب یا نقص سے ناراض ہو کر مرتد ہونا،
کیونکہ کسی اور سبب سے الگ ہونا ناممکن ہے۔
(7)
تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنا وَبَيْنَهُ سِجَالً:
ا کہ ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی کا اسلوب ڈول کھینچنے کا ہے،
کبھی وہ غالب آتا ہے،
کبھی ہم،
کیونکہ اس وقت تین عظیم جنگیں ہو چکی تھیں،
بدر،
اُحد اور خندق،
بدر میں مسلمان غالب،
اُحد میں بظاہر وہ غالب،
اگرچہ انجام کے اعتبار سے مسلمان فاتح تھے اور خندق میں کافر حملہ آور ہوئے تھے،
لیکن ناکام لوٹے تھے۔
(8)
مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ:
کہ مجھے کہیں ایسا موقعہ نہیں ملا،
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی عیب اور کمزوری منسوب کر سکوں،
لیکن یہاں چونکہ معاہدہ کا تعلق آئندہ زمانہ سے تھا،
اس لیے میں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ عہد شکنی نہیں کرے گا،
اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کے مکان رفیع کو گرانے کی کوشش کی،
لیکن ہرقل نے اس کی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں دی،
اس لیے اپنے تبصرہ میں کہا،
تیرا خیال اور قول یہ ہے کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا۔
(9)
إِذاخَالَطَ بشَاشَة القُلَوب:
جب وہ دل کے انشراح اور فردت میں اتر جاتا ہے،
اس میں گھر بنا لیتا ہے تو وہ نکلتا نہیں ہے اور کوئی انسان ایمان سے پھر کر ارتداد اختیار نہیں کرتا۔
(10)
إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا:
اگر تمہاری یہ باتیں سچی ہیں تو پھر یہ زمین جہاں میں کھڑا ہوں،
وہ بھی ان کے اقتدار اور حکومت میں آ جائے گی۔
ہرقل نے انتہائی بصیرت اور زیرکی سے ابو سفیان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی جچے تلے اور بنیادی سوالات کیے اور اس کے جوابات کی روشنی میں،
صحیح صحیح نتائج اخذ کیے اور اسے یقین ہو گیا کہ آپ واقعی نبی ہیں اور چونکہ وہ تورات اور انجیل کا ماہر تھا اور علم نجوم سے آگاہ تھا،
اس لیے اس کو پتہ چل چکا تھا کہ آخری نبی پیدا ہونے والا ہے اور آپ کی علامات سے اس کو آپ کے نبی ہونے کا یقین ہو گیا،
اس لیے اس نے آپ سے انتہائی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا،
لیکن اقتدار کی ہوس اور خواہش نے اسے اندھا کر دیا اور آپ کے اس جملہ اسلم تسلم سے وہ یہ صحیح نتیجہ نہ نکال سکا کہ مسلمان ہونے کے بعد میری حکومت برقرار رہے گی،
اس لیے مسلمان نہ ہوا بلکہ جنگ موتہ 8ھ میں مسلمانوں کے خلاف میدان مقابلہ میں آیا اور آپ نے یہاں سے اسے دوبارہ خط لکھا،
لیکن اس نے پھر بھی اپنے اسلام کا اظہار کیا،
آپ کے جواب میں،
اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا،
لیکن مسلمانوں کے مقابلہ سے پیچھے نہ ہٹا اور اپنی قوم کے سامنے اسلام کا اظہار نہ کیا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس نے جھوٹ لکھا ہے،
وہ عیسائیت پر قائم ہے۔
فوائد ومسائل:
آپﷺ نے ہرقل کے نام کو خط لکھا ہے،
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کافر کو بھی خط لکھا جائے تو اس کا آغاز بسم اللہ سے کیا جائے گا،
پھر لکھنے والا اپنا نام شروع میں لکھ دے گا تاکہ مکتوب الیہ کو پتہ چل جائے لکھنے والا کون ہے اور اس کے مطابق خط کو اہمیت دے،
نیز مکتوب الیہ کے لیے،
اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق مناسب تعظیمی القاب لکھے جائیں گے،
تاکہ وہ شروع ہی سے نفرت و غضب کا شکار نہ ہو جائے،
اس لیے آپ نے ہرقل کے لیے عظیم الروم کے الفاظ استعمال کیے اور اس خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر کو سلام کہنے میں پہل نہیں کی جائے گی،
اکثر علماء کا یہی قول ہے اور صحیح احادیث سے اس کا تائید ہوتی ہے،
بلکہ بعض علماء کا خیال تو یہ ہے کہ بدعتی اور فاسق و فاجر کو بھی سلام نہیں کہا جائے گا اور آپﷺ نے اَسلِم تَسلَم کے الفاظ کے ذریعہ انتہائی بلیغ اور مؤثر انداز میں انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ ہر قسم کی دنیوی اور اخروی سلامتی کی ضمانت دے دی تھی اور پوری قوم کے اجروثواب کے سمیٹنے کا شوق اور ترغیب دلائی تھی،
اگر تم مسلمان ہو گئے تو تمہاری رعایا بھی تمہارے سبب مسلمان ہو جائے گی اور تمہیں اس کا اجروثواب ملے گا،
اگر تم مسلمان نہ ہوئے تو تمہارے ڈر اور خوف کی وجہ سے تمہاری کمزور رعایا جن کی اکثریت کاشتکاروں اور کسانوں پر مشتمل ہے،
وہ مسلمان نہیں ہو گی اور ان کا وبال بھی تم پر پڑے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط میں اس کی طرف ایک آیت لکھی جس کے بارے میں دو نظریات ہیں۔
(1)
آپﷺ نے یہ عبارت اپنے کلام کے طور پر لکھی،
کیونکہ یہ خط آپ نے 7ھ میں لکھا جبکہ یہ آیت وفد نجران کی آمد پر 9ھ میں اتری،
گویا آپﷺ کے الفاظ آنے والی آیت کے موافق نکلے۔
(2)
یہ آیت وفد نجران کی آمد سے پہلے اتر چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کی آمد پر ان کو پڑھ کر سنائی،
اس صورت میں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافر کو بھی دعوت و تبلیغ کے لیے خط میں آیات قرآن لکھی جا سکتی ہیں۔
ابن ابی کبشہ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپﷺ کو اس نام سے تعبیر کرنے کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں،
(1)
ابو کبشہ آپ کے نانا یا دادا کا نام تھا اور عربوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ کسی کی تحقیر کرنا چاہتے تو اسے اس کے کسی غیر معروف دادے یا نانے کی طرف منسوب کرتے۔
(2)
آپﷺ کے رضاعی باپ حارث کی بیٹی کبشہ تھی،
اس لیے اسے ابو کبشہ کہا جاتا تھا۔
(3)
ابو کبشہ آپﷺﷺ کی رضاعی ماں حلیمہ کے باپ کی کنیت تھی۔
(4)
ابو کبشہ نامی ایک بت پرست شخص تھا،
جس نے اپنی قوم کے دین بت پرستی کو چھوڑ کر شعریٰ ستارہ کی پرستش شروع کر دی تھی تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرح اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا،
بہرحال ابو سفیان جو اس وقت کافر تھا،
اس نے آپﷺ کی نسبت آپ کے معروف اور مشہور دادے عبدالمطلب کی بجائے کسی ایسی شخصیت کی طرف کی جو گمنام اور غیر معروف تھا،
آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے ابو سفیان کو نوازا،
اس کے دل میں اسلام داخل کر دیا اور اسے مسلمان ہو جانے کی توفیق عنایت فرمائی اور وہ فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4607   

  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1109  
فوائد ومسائل:
(۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو خطوط لکھے تو روم کے بادشاہ ہرقل کو بھی خط لکھا۔ اس نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے۔
(۲) اس میں خط لکھنے کا ادب بھی ذکر ہوا ہے کہ پہلے بسم اللہ لکھی جائے اور خط لکھنے والا اپنا نام اور عہدہ لکھے اور اس کے بعد جس کی طرف خط لکھا جارہا ہے اس کا نام لکھا جائے نیز خط اگر کافر کے نام ہو تو سلام میں یہ انداز اختیار کیا جائے کہ سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
(۳) مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کافر سے محبت کے خطوط لکھے بلکہ مبنی بر دعوت خطوط ہونے چاہئیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1109   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7  
7. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ابوسفیان بن حرب ؓ نے ان سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے انہیں قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا۔ یہ جماعت (صلح حدیبیہ کے تحت) رسول اللہ ﷺ، ابوسفیان اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصہ امن میں ملک شام بغرض تجارت گئی ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایلیاء (بیت المقدس) میں اس کے پاس حاضر ہو گئے۔ ہرقل نے انہیں اپنے دربار میں بلایا۔ اس وقت اس کے اردگرد روم کے رئیس بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا: یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے؟ ابوسفیان ؓنے کہا: میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ تب ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کر کے اس کے پس پشت بٹھاؤ۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو کہ میں اس شخص سے اس آدمی (نبی ﷺ) کے متعلق سوالات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے وحی نزول وحی، اقسام وحی اور زمانہ وحی سے متعلقہ احادیث بیان کی ہیں۔
اب ضرورت تھی کہ جس شخصیت پر وحی کا نزول ہوا ہے اس مبارک ہستی کا بھی تعارف کرایا جائے، چنانچہ اس حدیث میں موحیٰ الیہ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال واعمال اورآپ کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دو زبردست اور ناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں:
ایک ابوسفیان کا بیان، جو اس وقت آپ کا سخت دشمن تھا۔
دوسرے ہرقل کی تصدیق، جو اس وقت ایک عظیم سلطنت کا فرمانروا اور مستند عالم اہل کتاب تھا۔
اس کے علاوہ باب کی غرض عظمت وحی کو بیان کرنا بھی ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اوصاف عالیہ کو بیان کیا گیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی کی ذات ستودہ صفات وحی الٰہی کی حق دار تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت سے وحی الٰہی کی عظمت خود ظاہر ہے۔

ہرقل روم کے بادشاہ کانام تھا اور اس ملک کے بادشاہ کو قیصر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
یہ حدیث اس مناسبت سے حدیث ہرقل کہلاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کی طرف سے بیرونی خلفشار اور اندرونی محاذ آرائی سے فارغ ہوئے توآپ نے مختلف ملوک وسلاطین کو دعوتی خطوط ارسال کیے، چنانچہ آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ ایک خط قیصر روم کو بھی روانہ کیا جو ان دنوں ایفائے نذر کے لیے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔
ہوا یوں کہ اس وقت دنیا کی دو بری حکومتیں فارس اور روم مدت دراز سے آپس میں ٹکراتی چلی آرہی تھیں۔
بالآخر فارس نے روم کو ایک فیصلہ کن شکست سے دوچار کردیا اور شام، مصر اور ایشیائے کو چک کے تمام ملک رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
ایسے حالات میں قرآن نے پیشین گوئی فرمائی کہ بلاشبہ رومی اہل فارس سے مغلوب ہوچکے ہیں لیکن چند سالوں کے اندر اندر وہ فاتح بن کر ابھریں گے، چنانچہ ہرقل ایسے مایوس کن اور حوصلہ شکن حالات میں اپنا زائل شدہ اقتدار واپس لینے کے لیے سرگرم ہوگیا اور اس وقت نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مجھے فتح وکامرانی دی تو حمص سے پیدل چل کر بیت المقدس پہنچوں گا اور اللہ کا شکر ادا کروں گا۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے رومی اہل کتاب کو ایرانی مجوسیوں پر غالب کردیا، چنانچہ ان دنوں ایفائے نذر کے لیے ہرقل بیت المقدس آیا ہوا تھا۔

ہرقل کے حوالے سے اس حدیث کا تعلق گویا کتاب بدء الوحی اور کتاب الایمان دونوں سے ہے۔
وحی کے ساتھ تعلق بایں طور ہے کہ ہرقل جو عیسائی مذہب کاحامل تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا جو وحی کا نتیجہ ہے۔
اور اس حدیث کا مابعد کتاب، کتاب الایمان سے تعلق اس طرح ہے کہ ایمان کی امتیازی علامت عمل ومتابعت ہے جو ہرقل میں نہ تھی، تصدیق جلی اور اقرار موجود ہے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرنے سے کافر ہی رہا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کو حدیث نیت سے شروع کیا تھا، گویا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ہرقل کی نیت درست تھی تو اسے کچھ فائدہ پہنچنے کی امید ہے، بصورت دیگر اس کے مقدر میں ہلاکت اور تباہی کےسوا کچھ نہیں۔
(فتح الباري: 1؍61)

ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوکبشہ کی طرف منسوب کیا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔
دراصل عرب کا یہ طریقہ ہے کہ کسی کو تحقیر واستہزا کے پیش نظر اسے ایسے شخص کی طرف منسوب کردیتے ہیں جو گمنام ہو لیکن اس مقام پر اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ابوکبشہ نامی ایک شخص بھی گزرا تھا جس نے اپنا آبائی دین چھوڑ کر شعریٰ ستارے کی پرستش شروع کردی تھی۔
چونکہ ابو کبشہ نے ایک نیا دین اختیار کیاتھا۔
اس لیے ہر وہ شخص جو عرب کے آبائی دین سے ہٹ کر نیا دین اختیار کرتا، اسے ابن ابی کبشہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
(فتح الباري: 1؍57)
اس سلسلے میں کچھ اور تاویلات بھی کی گئی ہیں، ان تمام میں قدرمشترک یہی ہے کہ ابوسفیان نے مذاق اور حقارت سے یہ اسلوب اختیار کیا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرکافر کسی لقب سے معروف ومشہور ہوتو مسلمانوں کے لیے اسے اس کے لقب سے پکارنا جائز ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو عظیم الروم کے لقب سے یاد کیا۔
اسلام دشمنوں کےساتھ نرمی اور ملاطفت کاطریقہ سکھاتا ہے، اس لیے کسی قوم کے معززو مکرم شخص کے لیے اونچے القاب استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں۔
اس کا کم از کم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن اگردوستی پر آمادہ نہ ہوتو دشمنی میں کمی ضرور آجاتی ہے ہرقل چونکہ رومیوں کی نظر میں باعظمت تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےمروجہ لقب ہی سے یاد کیا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اختتام پر ایسے الفاظ لاتے ہیں جن سے پڑھنے والے کے لیے اپنی آخرت کے متعلق غوروفکر کرنے کی راہیں کھلتی ہیں وقت گزرجاتا ہے عمرختم ہوجاتی ہے لیکن انسان کے اچھے یا بُرے اعمال کے اثرات ختم نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھائی یا بُرائی کامعاملہ اس کے خاتمے سے ہوتا ہے۔
ہرقل کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا، وہ ایمان نہ لاسکا حالانکہ اسے بہترین مواقع میسر آئے تھے۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو انجام اور خاتمے کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہرقل کا انجام جنت ہوگا یا دوزخ؟ اس سے قطع نظر، تم اپنے خاتمے پر غوروفکر کرو اورآخری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری میں اپنے آپ کو مصروف کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کی چھ احادیث سے یہ سمجھایا ہے کہ آگے کتاب میں جس قدر احکام ومسائل آئیں گے وہ سب وحی الٰہی سے ماخوذ ہیں جو محفوظ عن الخطا اور نہایت ہی عظیم الشان ہیں۔
اور وحی کی عظمت بیان کرنے کے بعد سب سے پہلے کتاب الایمان لائے ہیں جو دین اسلام کی خشت اول ہے اور اسی ایمان پر آخرت میں نجات کامدار ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7