ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں سے قسم کھانے کے لیے کہا (ایک ایسے مقدمے میں جس کے یہ لوگ مدعیٰ علیہ تھے) قسم کے لیے سب ایک ساتھ آگے بڑھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ”قسم کھانے کے لیے ان میں باہم قرعہ ڈالا جائے کہ پہلے کون قسم کھائے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2674]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2674
حدیث حاشیہ: ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں یوں ہے کہ دو شخصوں نے ایک چیز کا دعویٰ کیا اور کسی کے پاس گواہ نہ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، قرعہ ڈالو اور جس کا نام نکلے وہ قسم کھالے، حاکم کی روایت میں یوں ہے کہ دو آدمیوں نے ایک اونٹ کا دعویٰ کیا اور دنوں نے گواہ پیش کئے۔ آپ ﷺ نے آدھوں آدھ اونٹ دونوں کو دلادیا اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے قرعہ کا حکم دیا اور جس کا نام قرعہ میں نکلا اس کو دلادیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2674
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2674
حدیث حاشیہ: (1) مذکورہ ضابطہ اس صورت میں ہے کہ جب اسبابِ استحقاق میں سب برابر ہوں، مثلاً: ایک چیز دو مدعیوں کے قبضے میں ہے اور ہر ایک پوری چیز لینے کا دعوے دار ہے اور قسم اٹھا کر اسے لینے کا خواہش مند ہے۔ گواہ کسی کے پاس نہیں ہیں تو ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی جس کے نام قرعہ نکلے گا وہ قسم اٹھا کر اس کا حق دار ہو جائے گا۔ (2) ابوداود میں ہے کہ دو آدمیوں نے کسی چیز کے متعلق دعویٰ کیا اور کسی کے پاس گواہ نہیں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے قرعہ اندازی کے ذریعے سے ایک سے قسم لے کر وہ چیز اس کے حوالے کر دی۔ (سنن أبي داود، القضاء، حدیث: 3616)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2674
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1211
´دعویٰ اور دلائل کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم پر قسم پیش کی تو وہ قسم کھانے پر فوراً تیار ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ” ان لوگوں میں قرعہ اندازی کی جائے کہ کون ان میں سے قسم کھائے گا۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1211»
تخریج: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب إذا تسارع قوم في اليمين، حديث:2647.»
تشریح: جس مقدمے کی نوعیت ایسی ہو کہ فریقین مدعی ہوں اور دونوں باہم مدعا علیہ بھی ہوں، بالفاظ دیگر حتمی اور یقینی طور پر اس کا علم نہ ہو سکے کہ مدعی کون ہے اور مدعا علیہ کون؟ تو ایسی صورت میں دونوں کو قسم دینے کا حق پہنچتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی قسم سے انکاری ہو تو فریق مخالف قسم دے کر مال اپنے قبضہ میں لے لے گا اور اگر دونوں فریق قسم اٹھانے پر آمادہ ہوں تو پھر اس صورت میں قرعہ اندازی کی جائے گی۔ قرعہ جس کے نام نکلے وہ قسم دے کر مال لے جانے کا مستحق قرار پائے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1211