ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص (کسی غلام یا کسی بھی شخص سے) یہ نہ کہے۔ اپنے رب (مراد آقا) کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، اپنے رب کو پانی پلا“۔ بلکہ صرف میرے سردار، میرے آقا کے الفاظ کہنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے۔ ”میرا بندہ، میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہئے میرا چھوکرا، میری چھوکری، میرا غلام۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِتْقِ/حدیث: 2552]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2552
حدیث حاشیہ: رب کا لفظ کہنے سے منع فرمایا۔ اسی طرح بندہ بندی کا تاکہ شرک کا شبہ نہ ہو، گو ایسا کہنا مکروہ ہے حرام نہیں جیسے قرآن میں ہے ﴿اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ﴾(یوسف42: 12) بعضوں نے کہا پکارتے وقت اس طرح پکارنا منع ہے۔ غرض مجازی معنی جب مراد لیا جائے غایت درجہ یہ فعل مکروہ ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ علماءنے عبدالنبی یا عبدالحسین ایسے ناموں کا رکھنا مکروہ سمجھا ہے اور ایسے ناموں کا رکھنا شرک اس معنی پر کہا ہے کہ ان میں شرک کا ایہام یا شائبہ ہے۔ اگر حقیقی معنی مراد ہو تو بے شک شرک ہے۔ اگر مجازی معنی مراد ہو تو شرک نہ ہوگا مگر کراہیت میں شک نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایسے نام نہ رکھے جائیں۔ کیوں کہ جہاں شرک کا وہم ہو وہاں سے بہر حال پرہیز بہتر ہے۔ خاص طور پر لفظ ''عبد '' ایسا ہے جس کی اضافت لفظ اللہ یا رحمن یا رحیم وغیرہ اسماءالحسنی ہی کی طرف مناسب ہے۔ توحید و سنت کے پیروکاروں کے لیے لازم ہے کہ وہ غیراللہ کی طرف ہرگز اپنی عبدیت کو منسوب نہ کریں۔ إیاک نعبد کا یہی تقاضا ہے۔ واللہ هو الموفق
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2552
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2552
حدیث حاشیہ: (1) اس لفظ کا استعمال اس لیے منع ہے کہ حقیقی ربوبیت تو صرف اللہ کو لائق ہے، لہذا یہ لفظ مخلوق میں سے کسی کے لیے استعمال نہ کیا جائے لیکن قرآن کریم میں اضافت کے ساتھ یہ لفظ غیراللہ کے لیے استعمال ہوا ہے جیسا کہ ﴿اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ﴾(یوسف42: 12) جس سے معلوم ہوا کہ حدیث میں نہی تحریمی نہیں۔ واللہ أعلم (2) امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ اگر عبدي اور أمتي کے الفاظ میں بد اخلاقی اور تکبر پایا گیا تو ان کا استعمال مکروہ ہے اور اگر محض تعریف مراد ہو تو یہ الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 223/5) بہرحال آقا کو چاہیے کہ وہ اپنے غلام اور لونڈی کو پکارتے وقت فخر اور غرور سے پرہیز کرے، اسی طرح غلام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے آقا کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہ کرے جن میں اللہ کی تعظیم جیسا اظہار ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2552
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5874
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی یہ نہ کہے، میرا بندہ، میری باندی، تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمہاری ساری عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں، لیکن یہ کہو، میرا غلام، میری لونڈی، میرا نوکر، میری خادمہ۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5874]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: عبيد: عبد کی جمع ہے، بندہ، اماء، امة کی جمع ہے، باندی۔ فوائد ومسائل: حدیث کا مقصد، انسان کو کبر و نخوت اور تکبر و بڑائی کے غرہ میں مبتلا ہونے سے بچانا ہے اور اس کے اندر، تواضع، فروتنی، عجز و نیاز پیدا کرنا ہے، اس لیے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روکا گیا ہے، جو انسان کے اندر احساس تفوق اور برتری پیدا کر سکتے ہیں، جن کے نتیجہ میں اس کے اندر نخوت اور گھمنڈ یا خود پسندی کا جذبہ اُبھر سکتا ہے، اس لیے انسان کو خود، اپنے غلام اور لونڈی کو میرا غلام، میری لونڈی نہیں کہنا چاہیے، ہاں خود غلام اور لونڈی یہ کہہ سکتے ہیں، أنا عبدك، میں تیرا غلام ہوں، أنا اَمَتُك، میں تیری باندی ہوں اور دوسرے کہہ سکتے ہیں، عَبَدُكَ أَمَتُك، تیرا غلام، تیری لونڈی۔