محمد بن بشار نے ہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، مخول بن راشد کے واسطے سے، وہ محمد ابن علی سے، وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/حدیث: 255]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:255
حدیث حاشیہ: اسماعیلی نے اضافہ کیا ہے کہ شعبہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ غسل جنابت میں ایسا کرتے تھے جب حضرت جابرؓ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو بنو حاتم میں سے ایک آدمی کے کہا: میرے سر کے بال بہت گھنے ہیں۔ حضرت جابر ؓ جواب دیا: رسول اللہ ﷺ کے بال تیرے بالوں سے زیادہ اور عمدہ تھے۔ (صحیح البخار ي، حدیث: 252) اس سے یہ معلوم ہوا کہ غسل جنابت کے وقت تین مرتبہ سر پر پانی بہا دینا کافی ہے، اگرچہ غسل کرنے والے کے سر پر بال زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ (عمدة القاري: 21/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 255
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 252
´ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا` «. . . عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ وَأَبُوهُ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الْغُسْلِ، فَقَالَ: يَكْفِيكَ صَاعٌ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَكْفِينِي، فَقَالَ جَابِرٌ: " كَانَ يَكْفِي مَنْ هُوَ أَوْفَى مِنْكَ شَعَرًا وَخَيْرٌ مِنْكَ "، ثُمَّ أَمَّنَا فِي ثَوْبٍ . . . .» ”. . . زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے، انہوں نے کہا ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے والد (جناب زین العابدین) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایک صاع کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا یہ مجھے تو کافی نہ ہو گا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پھر جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔ (نوٹ: صاع کے اندر 2.488 کلو گرام ہوتا ہے۔) . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ:: 252]
� تشریح: وہ بولنے والے شخص حسن بن محمد بن حنفیہ تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان کو سختی سے سمجھایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف فضول اعتراض کرنے والوں کو سختی سے سمجھانا چاہئیے اور حدیث کے مقابلہ پر رائے قیاس تاویل سے کام لینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ «والحنفية كانت زوجة على تزوجها بعد فاطمة فولدت لها محمدا فاشتهربالنسبة اليها .»[فتح الباري] یعنی حنفیہ نامی عورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کے نکا ح میں آئیں جن کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 252
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 256
´جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے` «. . . حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَابِرُ: وَأَتَانِي ابْنُ عَمِّكَ يُعَرِّضُ بِالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: كَيْفَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقُلْتُ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ ثَلَاثَةَ أَكُفٍّ وَيُفِيضُهَا عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، فَقَالَ لِي الْحَسَنُ: إِنِّي رَجُلٌ كَثِيرُ الشَّعَرِ، فَقُلْتُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْكَ شَعَرًا " . . . .» ”. . . ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر نے بیان کیا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے (ان کی مراد حسن بن محمد ابن حنفیہ سے تھی) آئے۔ انہوں نے پوچھا کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین چلو پانی لیتے اور ان کو اپنے سر پر بہاتے تھے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے تھے۔ حسن نے اس پر کہا کہ میں تو بہت بالوں والا آدمی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تم سے زیادہ تھے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا:: 256]
� تشریح: چچاکے بیٹے مجازاً کہا۔ دراصل وہ ان کے باپ یعنی زین العابدین کے چچازاد بھائی تھے کیونکہ محمد ابن حنفیہ جناب حسن اور جناب حسین رضی اللہ عنہما کے بھائی تھے۔ جو حسن کے باپ ہیں، جنہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا۔ ترجمۃ الباب اور احادیث واردہ کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت میں سر مبارک پر تین چلو پانی بہاتے تھے۔ پس مسنون طریقہ یہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بہرصورت لائق اتباع ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:252
252. حضرت ابوجعفر ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے والد گرامی، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس تھے جبکہ ان کے ہاں اور لوگ بھی تھے۔ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ تجھے ایک صاع کافی ہے۔ اس پر انہی لوگوں میں سے کسی نے کہا: مجھے تو کافی نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: اتنا پانی تو اس ذات گرامی کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال بھی تجھ سے زیادہ تھے اور وہ خود بھی تجھ سے بہتر تھے۔ پھر حضرت جابر ؓ نے ایک کپڑے میں ہماری امامت کرائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:252]
حدیث حاشیہ: 1۔ روایت میں ابو جعفر سے مراد حضرت باقر ہیں جن کا نام محمد بن حسین بن علی بن ابی طالبؒ ہے۔ ان کے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین ہیں دراصل ان حضرات میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کے بارے میں کچھ اختلاف ہوا تو انھوں نے حضرت جابر ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تحقیق کرنی چاہی سوال کرنے والے صرف حضرت باقر ہیں چونکہ تحقیق کی طلب سب حضرات کو تھی اس لیے سوال کی نسبت سب کی طرف کردی گئی ہے۔ جب حضرت جابر ؓ نے بتایا کہ غسل کے لیے ایک صاع کافی ہے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا کہ اتنی سی مقدار غسل کے لیے ناکافی ہے۔ یہ بات کہنے والے حضرت محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حضرت حسن ہیں، چونکہ ان کا انداز مناسب نہیں تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ تمھیں یہ مقدار کافی نہ ہوگی، شاید تمھارے سر میں بال زیادہ ہیں یا تم زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہو۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے لیے تو یہ مقدار کافی تھی، حالانکہ آپ کے سر مبارک پر بال بھی تم سے زیادہ تھے۔ پھر آپ ہر معاملے میں محتاط بھی بہت تھے، اس لیے کافی نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ تم پانی کے استعمال میں اسراف سے کام لیتے ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف جھگڑنے والے کو سختی سے سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 475/1) 2۔ اس روایت کے مطابق حضرت ابو جعفر باقر نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے لیے پانی کی مقدار کے متعلق سوال کیا جس کا حضرت جابر ؓ نے جواب دے دیا کہ ایک صاع کافی ہے۔ حسن بن محمد بن حنفیہ نے کہا کہ مجھے کافی نہ ہو گا تو اس کا بھی جواب دیا۔ آگے حسن بن محمد بن حنفیہ کا غسل کی کیفیت کے بارے میں سوال آرہا ہے کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ تین چلو پانی لیتے اور انھیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے اس پر حسن بن محمد نے کہا میں تو بہت بالوں والا ہوں۔ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 256)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 252
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:256
256. حضرت ابو جعفر ؓ کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا: میرے پاس تمہارے چچا زاد آئے تھے، ان کا اشارہ حسن بن محمد ابن حنفیہ کی طرف تھا، انهوں نے پوچھا: غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا: نبی ﷺ تین چلو لیتے اور انہیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے تھے۔ حسن نے کہا: میں تو بہت بالوں والا شخص ہوں۔ میں نے جواب دیا: نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:256]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور اس مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ پرصفائی کا مدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔ (فتح الباري: 478/1) 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔ (عمدة القاري: 24/3) 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن بن محمد کا یہ سوال ابو جعفر کے ذکر کردہ سوال سے الگ ہے، دونوں واقعات میں حضرت جابر ؓ سے تعرض کرنے والے حسن بن محمد ہیں۔ سابق الذکر میں انھوں نے مقدار پانی پر اعتراض کیا تھا کہ مجھے اتنا کافی نہیں ہوتا اور یہاں انھوں نے کیفیت پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح میرے بال صاف نہیں ہوتے۔ پہلے واقعے کے وقت ابو جعفر موجود تھے، جبکہ اس واقعے کے وقت وہ موجود نہیں تھے۔ (فتح الباري: 478/1) 4۔ حضرت جابر ؓ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین حضرت حسین ؓ کے بیٹے ہیں۔ اورحسن حضرت محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ حضرت علی ؓ کے صاحبزادے ہیں گویا حضرت حسین اور حضرت محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔ لہٰذا حضرت حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت جابر ؓ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔ (فتح الباري: 478/1) 5۔ حنفیہ نامی عورت حضرت علی ؓ کی بیوی تھیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ حضرت علی ؓ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔ واللہ أعلم۔ انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 256