�
فقہ الحدیث منکرین حدیث اس پر اعتراض کرتے ہیں:
پس دیکھئے کہ اس حدیث سے مسجد پر قبر بنانے کی کراہیت، جس کا باب میں دعویٰ کیا گیا ہے، مطلق ثابت نہیں ہوتی۔
{أقول:} اللہ اکبر! کس قدر دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے؟ دعویٰ تو یہ کیا کہ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں، اور پیش کیا باب اور ترجمہ باب!
اے جناب! حسن بن حسین کی وفات کا واقعہ کیا حدیث ہے؟ کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو
«حدثنا» کے بعد ذکر کیا ہے؟
ہرگز نہیں، بلکہ حدیث تو اس کے بعد خود علیحدہ ہے کہ
«لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مسجدا» جس سے قبروں پر مسجد بنانے کی ممانعت صاف عیاں ہے، وفات حسن کا واقعہ تو ترجمہ باب میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ حدیث ہے، جسے آپ نے حدیث کر کے لکھا ہے، جس سے آپ کی حدیث دانی کا راز طشت ازبام ہو گیا۔
افسوس کہ جس کو حدیث کی تعریف معلوم نہ ہو اور یہ تمیز نہ کر سکے کہ حدیث کون سی ہے؟ وہ بھی اس میدان میں قدم مارنے کو آمادہ ہو؟ ہاں اگر یہ سوال کرتے کہ اس باب اور ترجمہ باب میں مطابقت نہیں ہے، تو کسی قدر قابل التفات ہوتا، اور ہم جواب دیتے کہ اس کے نیچے صاف لکھا ہے: یعنی
”وہ قبر پر قبہ نصب کر کے جب ایک سال تک مقیم رہی۔
“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومناسبة هذا الأثر لحديث الباب أن المقيم فى الفسطاط لا يخلو من الصلاة هناك، فيلزم اتخاذ المسجد عند القبر، وقد يكون القبر فى جهة القبلة، فتزداد الكراهة.» نیز فرماتے ہیں:
«وإنما ذكره البخاري لموافقته للأدلة الشرعية، لا لأنه دليل برأسه.» [فتح الباري 200/3] تو پنج وقتی نماز کے لیے خاص مصلٰی کے طور پر ضرور کوئی جگہ مقرر کی ہو گی، اور اس میں نماز ادا کرتی ہو گی، یہ نماز اس کی اس میں ناجائز ہوئی۔
افسوس کہ جس کتاب سے آپ اعتراض کرتے ہیں، اسی کے نیچے مطابقت بتلا دی گئی ہے۔