الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
33. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النِّيَاحَةِ عَلَى الْمَيِّتِ:
33. باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 1292
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي , عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ"، تَابَعَهُ عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، وَقَالَ آدَمُ عَنْ شُعْبَةَ، الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ.
ہم سے عبد ان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں قتادہ نے ‘ انہیں سعید بن مسیب نے ‘ انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے باپ عمر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے بھی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ عبدان کے ساتھ اس حدیث کو عبدالاعلیٰ نے بھی یزید بن زریع سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے قتادہ نے۔ اور آدم بن ابی ایاس نے شعبہ سے یوں روایت کیا کہ میت پر زندے کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1292]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   سنن النسائى الصغرىالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   سنن النسائى الصغرىيعذب الميت ببكاء أهله عليه
   سنن النسائى الصغرىالميت يعذب في قبره بالنياحة عليه
   سنن النسائى الصغرىصاحب القبر ليعذب وإن أهله يبكون عليه
   صحيح البخاريالميت يعذب في قبره بما نيح عليه
   صحيح البخاريالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   صحيح مسلمالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   صحيح مسلمالميت يعذب في قبره بما نيح عليه
   صحيح مسلمالميت يعذب في قبره بما نيح عليه
   صحيح مسلمالميت يعذب ببكاء الحي
   صحيح مسلمالميت ليعذب ببكاء الحي
   جامع الترمذيالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   سنن ابن ماجهالميت يعذب بما نيح عليه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1292 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1292  
حدیث حاشیہ:
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے تحریم نوحہ کو بیان کرنے سے پہلے تمہیدی طور پر ایک حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا عام انسان کی طرح جھوٹ منسوب کرنے کی طرح نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔
انہوں نے اشارہ فرمایا کہ مذکورہ وعید مجھے اس بات سے روکتی ہے کہ میں نوحے کے متعلق ایسی بات کہوں جو رسول اللہ ﷺ نے بیان نہ کی ہو۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ میت پر رونے کی وجہ سے اسے عذاب ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جسے بیان کرنے والے صرف عبداللہ بن عمر ؓ نہیں بلکہ اس حدیث کو متعدد صحابہ کرام ؓ نے بیان کیا ہے جن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت عمر ؓ بھی ہیں۔
آخر ان سب حضرات کو الفاظ بیان کرنے میں سہو یا نسیان کیسے ہو سکتا ہے؟ بہرحال یہ حدیث ثابت اور صحیح ہے۔
اسے وہم یا سہو پر محمول کرنا صحیح نہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ہے بلکہ اس فرمان نبوی کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے کوئی مناسب توجیہ کی جا سکتی ہے جس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1292   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1851  
´میت پر رونا منع ہے۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1851]
1851۔ اردو حاشیہ: مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں فرمایا۔ حضرت عمر یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کو غلطی لگی۔ بات ی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرنے والی یہودی عورت کے گھر کے پاس سے گزرے تھے، اس کے گھر والے اس پر رو رے تھے، آپ نے فرمایا: ی رو رے ہیں، اس کو عذاب ہو رہا ہے۔ آپ کا مطلب تو یہ تھا کہ اس کو اس کے کفر کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے مگر حضرت عمر یا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو غلطی لگی۔ انہوں نے سمجھا، رونے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ کسی کی غلطی اور گناہ سے دوسرے کو عذاب کیوں ہو؟ روتا کوئی ہے، عذاب میت کو۔ (لا تزر وازرہ وزر اخری) (بنی اسرآءیل 15: 17) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ی بات انتہائی معقول ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ یہ روایت ایک دو سے نہیں بلکہ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ے۔ کیا سب کو غلطی لگ گئی جبکہ حضرت عائشہ رضی الل عنہا تو موقع پر موجود بھی نہ تھیں؟ اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے مجتہد اور فقی صحابی بھی بات نہ سمجھ سکے؟ حضرت عائش رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ بھی صحیح ے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نے دوسرے الفاظ (یعذب المیت……… الخ) ارشاد نہ فرمائے ہوں۔ باقی رہی بات (لا تزر وازرۃ وزر اخری) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ (بنی اسرآءیل 15: 17) کی تو علماء نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ عذاب اس میت کو ہوتا ے جو اپنے گھر والوں کو رونے کا حکم دے کر مرا ہو یا اس نے رونے سے منع نہ کیا ہو جبکہ رونے کا رواج ہو۔ یا جو اپنی زندگی میں ایسے رونے کو اچھا سمجھتا تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس اعتبار سے مرنے والے پر گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کا ہونا آیت (لا تزر وازرۃ ……… الخ) کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس میں اس کا ایمایا پسندیدگی شامل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1851   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1593  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1593]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر مرنے والے نے یہ وصیت کی ہو کہ میرے مرنے پر نوحہ کیا جائے۔
تو وہ نوحہ کرنے والیوں کے گناہ میں شریک ہے۔
اس لئے سزا کا مستحق ہے۔
اسی طرح اگر اس کے خاندان میں بین کرنے، بال نوچنے، گریبان چاک کرنے، اور اس طرح کی حرکات کا رواج ہو۔
اور وہ انہیں منع نہ کرے۔
بلکہ اپنے قول وفعل سے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔
تب بھی زندوں کےنوحہ کرنے کی وجہ سے اس مردے کو عذاب ہوگا۔
البتہ اگر فوت ہونے والا شخص ان کاموں کو پسند نہیں کرتا تھا۔
نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔
بلکہ منع کیا کرتا تھا تو اب دوسرے کے اعمال کی ذمہ داری اس پر نہیں اس لئے اسے عذاب نہیں ہوگا۔ 2۔
ممکن ہے حدیث کا یہ مطلب ہو۔
کہ نوحہ کرنے سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔
اسے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اس کی وفات پر ناجائز کام کیے جارہے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1593   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1304  
1304. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ بیمار ہوئے تو نبی ﷺ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی معیت میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اسے اپنے اہل خانہ کے درمیان پایا تو آپ نے دریافت فرمایا:آیا انتقال ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!نہیں پھر نبی ﷺ روپڑے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو روتا دیکھ کر دوسرے لوگ بھی رونے لگے۔ پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا:کیا تم سنتے نہیں ہو؟اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے غمزدہ ہونے سے عذاب نہیں دیتا بلکہ۔۔۔آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔۔۔اس کی وجہ سے عذاب یا رحم کرتا ہے۔ بے شک میت کو اس کے عزیزوں کے چلا کر گریہ وزاری کرنے سے عذاب دیا جا تاہے۔ حضرت عمرؓ نوحہ کرنے والوں کو لاٹھی اور پتھروں سے ماراکرتے تھے اور ان کے منہ میں خاک [صحيح بخاري، حديث نمبر:1304]
حدیث حاشیہ:
فوجدہ في غاشیة أهله۔
کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے:
دیکھا تو وہ بے ہوش ہیں اور ان کے گردا گرد لوگ جمع ہیں۔
آپ نے لوگوں کو اکٹھا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ شاید سعد ؓ کا انتقال ہوگیا۔
آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرماکر ظاہر فرمایا کہ یہی زبان باعث رحمت ہے، اگر اس سے کلمات خیر نکلیں اور یہی باعث عذاب ہے، اگر اس سے بُرے الفاظ نکالے جائیں۔
اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کے جلال کا بھی اظہار ہوا کہ آپ خلاف شریعت رونے پیٹنے والوں پر انتہائی سختی فرماتے۔
في الواقع اللہ طاقت دے تو شرعی اوامر ونواہی کے لیے پوری طاقت سے کام لینا چاہیے۔
حضرت سعد بن عبادہ انصاری خزرجی ؓ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔
عقبہ ثانیہ میں شرف الاسلام سے مشرف ہوئے۔
ان کا شمار بارہ نقباء میں ہے۔
انصار کے سرداروں میں سے تھے اور شان وشوکت میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے۔
بدر کی مہم کے لیے آنحضرت ﷺ نے جو مشاورتی اجلاس طلب فرمایا تھا اس میں حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔
اللہ کی قسم! اگر آپ ﷺ ہم انصار کو سمندر میں کودنے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر خشکی میں حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں بھی اونٹوں کے کلیجے پگھلاویں گے۔
آپ کی اس پر جوش تقریر سے نبی کریم ﷺ بے حد خوش ہوئے۔
اکثر غزوات میں انصار کا جھنڈا اکثر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔
سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
خاص طور پر اصحاب صفہ پر آپ کے جو دو کرم کی بارش بکثرت برساکرتی تھی۔
نبی کریم ﷺ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی۔
اسی وجہ سے آپ کی اس بیماری میں حضور ﷺ آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ کی بیماری کی تکلیف دہ حالت دیکھ کر حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
15ھ میں بہ زمانہ خلافت فاروقی سرزمین شام میں بمقام حوران آپ کی شہادت اس طرح ہوئی کہ کسی دشمن نے نعش مبارک کو غسل خانہ میں ڈال دیا۔
انتقال کے وقت ایک بیوی اور تین بیٹے آپ نے چھوڑے۔
اور حوران ہی میں سپرد خاک کئے گئے۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1304   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1304  
1304. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ بیمار ہوئے تو نبی ﷺ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی معیت میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اسے اپنے اہل خانہ کے درمیان پایا تو آپ نے دریافت فرمایا:آیا انتقال ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!نہیں پھر نبی ﷺ روپڑے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو روتا دیکھ کر دوسرے لوگ بھی رونے لگے۔ پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا:کیا تم سنتے نہیں ہو؟اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے غمزدہ ہونے سے عذاب نہیں دیتا بلکہ۔۔۔آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔۔۔اس کی وجہ سے عذاب یا رحم کرتا ہے۔ بے شک میت کو اس کے عزیزوں کے چلا کر گریہ وزاری کرنے سے عذاب دیا جا تاہے۔ حضرت عمرؓ نوحہ کرنے والوں کو لاٹھی اور پتھروں سے ماراکرتے تھے اور ان کے منہ میں خاک [صحيح بخاري، حديث نمبر:1304]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں جس رونے سے منع کیا گیا ہے وہ میت پر واویلا کرتے ہوئے رونا دھونا ہے۔
جب کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو جس کی وجہ سے مریض کے زندہ رہنے کی امید نہ ہو تو ایسے حالات میں افسوس کرنا اور آنسو بہانا جائز ہے بصورت دیگر مریض کو تسلی دینی چاہیے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے رنج و صدمہ پر مؤاخذہ نہیں کرے گا، البتہ زبان سے بے جا کلمات نکالنے اور غیر مشروع نوحہ کرنے پر ضرور مؤاخذہ ہو گا اور اس طرح رونے دھونے پر میت سے بھی باز پرس ہو گی بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو یا انہیں روک سکتا تھا لیکن انہیں روکے بغیر ہی دنیا سے چل بسا، لہذا ہمیں اس پہلو سے خبردار رہنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر ؒ کی تصریح کے مطابق یہ واقعہ حضرت ابراہیم ؓ کی وفات کے بعد کا ہے، کیونکہ اس موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ ہمراہ تھے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے آبدیدہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، کیونکہ انہیں پہلے علم ہو چکا تھا کہ مطلق رونے پر کوئی وعید نہیں، جبکہ ابراہیم ؓ کی وفات کے موقع پر آپ نے اعتراض کیا تھا۔
(فتح الباري: 324/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1304