الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد
کتاب: تہجد کا بیان
31. بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ:
31. باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1176
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى , يَقُولُ:" مَا حَدَّثَنَا أَحَدٌ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، فَلَمْ أَرَ صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھ سے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی (صحابی) نے یہ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ صرف ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور پھر آٹھ رکعت (چاشت کی) نماز پڑھی۔ تو میں نے ایسی ہلکی پھلکی نماز کبھی نہیں دیکھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1176]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارييغتسل وفاطمة ابنته تستره من هذه فقلت أنا أم هانئ بنت أبي طالب فقال مرحبا بأم هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثماني ركعات ملتحفا في ثوب واحد فلما انصرف زعم ابن أمي أنه قاتل رجلا قد أجرته فلان ابن هبير
   صحيح البخارييغتسل وفاطمة تستره من هذه فقلت أنا أم هانئ
   صحيح البخارييوم فتح مكة اغتسل في بيتها صلى ثماني ركعات فما رأيته صلى صلاة أخف منها غير أنه يتم الركوع والسجود
   صحيح البخاريدخل بيتها يوم فتح مكة فاغتسل صلى ثماني ركعات فلم أر صلاة قط أخف منها غير أنه يتم الركوع والسجود
   صحيح مسلميغتسل وفاطمة ابنته تستره بثوب
   صحيح مسلمقام رسول الله إلى غسله فسترت عليه فاطمة ثم أخذ ثوبه فالتحف به صلى ثمان ركعات سبحة الضحى
   صحيح مسلمصلى في بيتها عام الفتح ثماني ركعات في ثوب واحد قد خالف بين طرفيه
   صحيح مسلمأتى بعد ما ارتفع النهار يوم الفتح فأتي بثوب فستر عليه فاغتسل ركع ثماني ركعات لا أدري أقيامه فيها أطول أم ركوعه أم سجوده كل ذلك منه متقارب
   صحيح مسلمصلى ثماني ركعات ما رأيته صلى صلاة قط أخف منها غير أنه كان يتم الركوع والسجود
   جامع الترمذييغتسل وفاطمة تستره بثوب من هذه قلت أنا أم هانئ فقال مرحبا بأم هانئ
   جامع الترمذيدخل بيتها يوم فتح مكة فاغتسل سبح ثمان ركعات ما رأيته صلى صلاة قط أخف منها غير أنه كان يتم الركوع والسجود
   سنن أبي داودصلى سبحة الضحى ثماني ركعات يسلم من كل ركعتين
   سنن أبي داوداغتسل في بيتها صلى ثماني ركعات فلم يره أحد صلاهن بعد
   سنن النسائى الصغرىيغتسل قد سترته بثوب دونه في قصعة فيها أثر العجين صلى الضحى فما أدري كم صلى حين قضى غسله
   سنن النسائى الصغرىيغتسل وفاطمة تستره بثوب فسلمت من هذا قلت أم هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثماني ركعات في ثوب ملتحفا به
   سنن ابن ماجهعن صلاة الضحى فلم أجد أحدا يخبرني أنه صلاها يعني النبي غير أم هانئ فأخبرتني أنه صلاها ثمان ركعات
   سنن ابن ماجهصلى سبحة الضحى ثماني ركعات سلم من كل ركعتين
   سنن ابن ماجهأمر بستر فستر عليه فاغتسل سبح ثماني ركعات
   سنن ابن ماجهقام رسول الله إلى غسله فسترت عليه فاطمة ثم أخذ ثوبه فالتحف به
   مسندالحميدييا فاطمة اسكبي لي غسلا
   مسندالحميديرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاها مرة واحدة يوم الفتح ثمان ركعات في ثوب واحد مخالفا بين طرفيه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1176 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1176  
حدیث حاشیہ:
حدیث ام ہانی میں آنحضرت ﷺ کی جس نماز کا ذکر ہے۔
شارحین نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اسے شکرانہ کی نماز قرار دیا ہے۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ضحی کی نماز تھی، ابو داؤد میں وضاحت موجود ہے کہ صلی سبحة الضحی۔
یعنی آپ ﷺ نے ضحی کے نفل نمازادا فرمائے اور مسلم نے کتاب الطهارة میں نقل فرمایا:
ثم صلی ثمانِ رکعات سبحةَ الضُحی۔
یعنی پھر آنحضرت ﷺ نے ضحی کی آٹھ رکعت نفل ادا فرمائی اور تمہید ابن عبد البر میں ہے کہ قالت قدِمَ علیه السلام مکةَ فصلی ثمان رکعات فقلت ما ھذہ الصلوة قال ھذہ صلوةُ الضحی۔
حضرت ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ مکہ شریف تشریف لائے اور آپ نے آٹھ رکعات ادا کیں۔
میں نے پوچھا کہ یہ کیسی نماز ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ضحی کی نمازہے۔
امام نووی ؒ نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ صلاۃ الضحی کا مسنون طریقہ آٹھ رکعات ادا کرنا ہے۔
یوں روایات میں کم وبیش بھی آئی ہیں۔
بعض روایات میں کم سے کم تعداد دو رکعت بھی مذکور ہے۔
بہر حال بہتر یہ ہے کہ صلوۃ الضحی پر مداومت کی جائے کیونکہ طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جنت میں ایک دروازے کا نام ہی باب الضحی ہے جو لوگ نماز ضحی پر مداومت کرتے ہیں، ان کو اس دروازے سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ضحی کی نماز میں سورۃ ﴿والشمسِ وضُحٰھا﴾ اور ﴿والضحی﴾ پڑھا کریں۔
اس نماز کا وقت سورج کے بلند ہونے سے زوال تک ہے۔
(قسطلاني)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1176   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1176  
حدیث حاشیہ:
(1)
عبداللہ بن حارث سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے کہ میں متعدد صحابۂ کرام ؓ سے ملا اور رسول اللہ ﷺ کی نماز چاشت کے متعلق دریافت کرتا رہا۔
مجھے ام ہانی ؓ کے علاوہ کسی نے بھی اس کے متعلق اطلاع نہیں دی۔
انہوں نے بتایا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ خوب دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے، غسل فرمایا، پھر آپ نے آٹھ رکعات ادا فرمائیں۔
میں نے آپ کو اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1668(338)
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے نماز چاشت کی آٹھ رکعات ادا فرمائیں اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمة: 234/2) (2)
اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل سے نماز اشراق کی اہمیت و فضیلت ثابت ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:
ہر انسان کو اپنے جسم کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔
سبحان الله کہنا،الحمدلله کہنا، لا إله إلا الله کہنا اور الله أكبر کہنا بھی صدقہ ہے۔
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔
اگر اشراق کی دو رکعت پڑھ لی جائیں تو ان سب کاموں سے کفایت کر جاتی ہیں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1871(720)
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ اس نماز کا اہتمام نہیں کرتے تھے، ہاں! اگر دوران سفر میں گھر جیسی سہولت میسر ہو تو نماز اشراق کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ام ہانی ؓ کے گھر میں سہولیات میسر تھیں تو آپ نے نماز اشراق ادا کی جبکہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
(فتح الباري: 68/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1176   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 415  
´آٹا لگے ہوئے برتن میں پانی بھر کر غسل کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ ایک ٹب سے غسل کر رہے تھے جس میں گندھا ہوا آٹا لگا تھا، اور آپ کو (فاطمہ رضی اللہ عنہا ۱؎) کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، تو جب آپ غسل کر چکے، تو آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور میں نہیں جان سکی کہ آپ نے کتنی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 415]
415۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کے الفاظ: «فَمَا أَدْرِي كَمْ صَلَّى» میں نہیں جانتی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ شاذ ہیں، اگرچہ محقق کتاب نے ساری روایت ہی کو حسن قرار دیا ہے۔ تاہم درست اور صحیح بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایت کے مطابق خود ام ہانی نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی الفاظ کو سنن نسائی میں شاذ قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث226 اور اس فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 415   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 226  
´غسل کرتے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غسل کرتے ہوئے ملے، فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے سے آڑ کیے ہوئے تھیں، (ام ہانی کہتی ہیں) میں نے سلام کیا ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ام ہانی ہوں، تو جب آپ غسل سے فارغ ہوئے، تو کھڑے ہوئے اور ایک ہی کپڑے میں جسے آپ لپیٹے ہوئے تھے آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 226]
226۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں۔
➋ یہ آٹھ رکعت نماز صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) تھی۔
➌ ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس سے کندھوں سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک جسم ڈھانپ لیا جائے، باقی جسم ننگا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
➍ غسل کرنے والا حسب ضرورت کلام کر سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 226   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1290  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1290]
1290. اردو حاشیہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں یہ روایت موجود ہے، لیکن ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ منکر ہیں اور اس کی وجہ سے روایت ضعیف ہے، ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1291  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے سوائے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے، انہوں نے یہ بات ذکر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعتیں ادا کیں، پھر اس کے بعد کسی نے آپ کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1291]
1291۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت پابندی سے نہیں پڑھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کو صلوٰۃ فتح کا نام دیا گیا ہے۔
➋ سفر میں بھی نوافل پڑھنے چاہییں، مگر سنن راتبہ (مؤکدہ) ثابت نہیں ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1291   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث465  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہانے کا ارادہ کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر پردہ کئے رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا کر اپنا کپڑا لیا، اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
(1)
پانی کی طرف جانے کا مفہوم یہ ہے کہ گھر میں ایک طرف برتن میں نہانے کے لیے پانی رکھا گیا اور آپﷺ نہانے کے لیےتشریف لے گئے۔

(2)
نہاتے وقت جسم پر چھوٹا کپڑا موجود ہو تب بھی مزید پردہ کرنا یا غسل خانے میں کپڑا پہن کر نہانا افضل ہے تاہم اگر پردے میں نہاتے وقت جسم پر کوئی کپڑا نہ ہو تب بھی جائز ہے۔

(3)
نہانے کے بعد جب کپڑا جسم سے لپیٹا جائے تو وہ جسم پر موجود قطرات کو جذب کرلیتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے یا تولیے سے جسم خشک کرنا جائز ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 465   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث614  
´غسل کے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عبداللہ بن نوفل کہتے ہیں: میں نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں نفل نماز پڑھی ہے؟ تو مجھے کوئی بتانے والا نہیں ملا، یہاں تک کہ مجھے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال آئے، پھر آپ نے ایک پردہ لگانے کا حکم دیا، پردہ کر دیا گیا، تو آپ نے غسل کیا، پھر نفل کی آٹھ رکعتیں پڑھیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 614]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہاتے وقت پردہ کرلینا چاہیے اگر چہ جسم پر مختصر لباس بھی موجود ہو۔
اس چیز کا اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہ سے بات چیت کی اور ابن ہبیرہ کو امان عطا فرمائی۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ الضحی۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
، حدیث: 336 قبل حدیث: 720)

جب کہ قضائے حاجت کے وقت ستر کھول کر باتیں کرنے پر اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے۔
جیسے کہ حدیث میں بیان ہواہے۔
اس لیے اس موقع پر غسل کرتے ہوئے نبیﷺ نے یقیناً مختصر لباس پہنا ہوا ہوگا ورنہ ام ہانی رضی اللہ عنہ سے کلام نہ فرماتے۔ 2۔
فتح مکہ کے موقع نبیﷺ مکہ مکرمہ میں مسافر کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے، اس کے باوجود نماز ضحی ادا فرمائی جو نفلی نماز ہے، البتہ آپ سفر میں سنن رواتب (فرض نماز پہلے اور بعد میں پڑھی جانے والی سنتیں)
نہیں پڑھتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 614   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1379  
´صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نماز الضحی (چاشت کی نماز) کے متعلق پوچھا اور اس وقت لوگ (صحابہ) بہت تھے، لیکن ام ہانی رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز پڑھی، ہاں ام ہانی رضی اللہ عنہا نے یہ مجھے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت پڑھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1379]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس نماز کی مشروعیت کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے۔
جو حدیث (1374)
کے فائدہ میں ذکر ہوا۔

(2)
اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس نماز کاعلم شاید اس لئے نہیں ہوسکا۔
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔
اورجب پڑھتے تو گھر میں پڑھتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1379   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 764  
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی، میں نے آپﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا، اور آپﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آپﷺ کو ایک کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:764]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر انسان گھر میں کپڑا باندھ کر نہا رہا ہو تو پھر بھی بہتر ہے کہ دوسروں سے اوٹ میں نہائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 764   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1668  
عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں میں نے پوچھا اور میری یہ آرزو اور خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے بتائے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ہے تو مجھے ام ہانی کے سوا کوئی نہ ملا جو مجھے یہ بتاتا۔ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ دن بلند ہونے کے بعد آئے تو کپڑا لا کر آپﷺ کو پردہ مہیا کیا گیا تو آپﷺ نے غسل فرمایا۔ پھر آپﷺ اٹھے اور آٹھ رکعات پڑھیں، میں نہیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1668]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ اُم ہانی کے گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے شکرانہ کے طور پر چاشت کی نماز پڑھی تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1668   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 357  
357. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون عورت ہے؟ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید ہو۔ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک ہی کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی حضرت علی ؓ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دی رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں: یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:357]
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔
ایک باپ ایک ماں۔
ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔
گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی ؓ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔
ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔
اسے حضرت علی ؓ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔
ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یا عبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔
یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔
شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے، یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔
ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔
ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔
ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔
ان کے لیے حضور ﷺ نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔
بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 357   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:280  
280. حضرت ام ہانی بنت ابی طالب‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے آپ کو پردہ کر رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: یہ کون (خاتون) ہیں؟ میں نے خود عرض کیا: میں ام ہانی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:280]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں تنہا اورالگ غسل کرنے کا حکم بتایا تھا، اس باب میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر دوسروں کی موجودگی میں غسل کی حاجت ہو تو تستر(پردہ کرنا)
ضروری ہے۔
یا پردہ ہونے کی قدرت کے باجود برہنہ غسل کرنا حرام ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ دوسروں کی موجودگی میں غسل کرنا ہو تو آڑ اور پردہ کرکے غسل کرنا چاہیے۔
الغرض تستر تو فضا میں بھی مطلوب ہے، اگرچہ کپڑے سے یا کم از کم کسی آڑ ہی سے ہو، ہاں اگر وہاں کسی کے گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتوتستر کے بغیر غسل جائز ہے۔
اسی طرح غسل خانہ اورحمام میں بھی برہنہ غسل کرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے دوروایات پیش کی ہیں:
حدیث میمونہ تو متعدد مرتبہ پہلے آچکی ہے۔
حدیث ام ہانی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن فتح سے فراغت کے بعد حضرت ام ہانی ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے، ان کا مکان مکے سے باہر تھا، حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کیا اورآپ نے غسل فرمایا۔
دوران غسل میں حضرت ام ہانی وہاں پہنچیں تو آپ نے دریافت فرمایا:
کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آ سکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آسکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ اس روایت سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی موجودگی میں غسل کے لیے پردہ کرنا ضروری ہے۔

علامہ عینی نے لکھا ہےکہ مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غسل کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوناضروری ہے، لہذا جس طرح ایک شخص اپنے قابل ستر جسم کو دوسروں کے سامنے بلاوجہ ظاہر نہیں کر سکتا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ قابل سترجسم کو بلاضرورت دیکھیں۔
پھر اس امر پر بھی اجماع ہے کہ مرد اپنی بیوی کا اوربیوی اپنے شوہر کا قابل ستر جسم دیکھ سکتی ہے۔
علامہ نووی نے لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی محرم عورتوں کی موجودگی میں غسل کرسکتا ہے، بشرطیکہ درمیان میں پردہ حائل ہو۔
(عمدۃ القاري: 65/3)

لوگوں کے سامنے نہاتے وقت ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ صرف کپڑا باندھ کر نہانے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ لوگوں کی نگاہوں سے بھی پردہ کرے، جیساکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ برہنہ تو غسل نہیں کررہے تھے، بلکہ کپڑا وغیرہ باندھ کر غسل فرمارہے ہوں گے، اس کے باوجود حضرت فاطمہ ؓ آڑ کیے ہوئے تھیں، وہ بقیہ بدن کے لیے تھی۔
اگرچہ اس کا تستر ضروری نہ تھا، تاہم اس آڑ کا بھی اہتمام کیا۔
وھوالمقصود۔

حدیث میمونہ ؓ میں ہے کہ وہ حدیث غسل میں رسول اللہ ﷺ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔
امام اعمش سے یہ الفاظ بیان کرنے میں سفیان اکیلے نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس کے لیے متابعت بیان فرمائی ہے کہ ان الفاظ کو امام اعمش سے ابوعوانہ الوضاح البصری بھی بیان کرتے ہیں، جسے خود امام بخاری ؒ نے حدیث رقم (266)
میں نقل فرمایا ہے۔
اور محمد بن فضیل نے بھی یہ الفاظ اعمش سے بیان کیے ہیں، جیسا کہ صحیح ابوالاعوانہ الاسفرائنی میں ہے۔
(فتح الباري: 503/1)
امام بخاری ؒ نے یہاں صرف دو متابعات کا حوالہ دیا ہے جن میں پردہ کرنے کا ذکر ہے، البتہ ایک تیسری متابعت بھی ہے، جسے امام اعمش سے ابوحمزہ نے بیان کیا ہے، اس میں بھی پردہ کرنے کی صراحت ہے۔
اسے بھی امام بخاری ؒ نے ہی بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 276)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 280   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:357  
357. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون عورت ہے؟ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید ہو۔ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک ہی کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی حضرت علی ؓ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دی رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں: یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:357]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے چوتھی روایت پیش کی ہے جو حضرت ام ہانی ؓ سے مروی ہے۔
اس میں صراحت کے ساتھ انھوں نے اپنا مشاہدہ بیان کیاہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے صرف ایک کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد حدیث کے اسی ٹکڑے سے متعلق ہے۔
جمہور اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒ عظام کا یہی مذہب ہے کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے اگرچہ زائد کپڑے موجود ہوں۔
البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ، طاوس ؒ، امام نخعی ؒ، عبداللہ بن وہب اور محمد بن جریرطبری ؒ سے یہ منقول ہے کہ نمازی کے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہوں تو ایک کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
جمہور کی طرف سے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کی تاکید کو استحباب وافضلیت پر محمول کیاگیا ہے، لہذا اس اختلاف کی چنداں اہمیت نہیں۔
(عمدة القاري: 263/3)

نماز کے بعد ام ہانی ؓ عنہا نے رسول اللہ کی خدمت میں ایک شکایت پیش کی کہ میں نے ابن ہبیرہ کو پناہ دی ہے، جبکہ میرے بھائی حضرت علی ؓ اسے قتل کرنےکا ارادہ رکھتے ہیں۔
وہ میری پناہ کو تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔
ممکن ہے کہ حضرت علی ؓ نے یہ سوچا ہوکہ عورت کو سیاسی معاملات میں بصیرت نہیں ہوتی، اس لیے ضروری نہیں کہ اس کی پناہ کو تسلیم کیاجائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی پناہ کو برقرار رکھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو اپنی پناہ میں لے لے، خواہ یہ مسلمان کسی طبقے کا فرد ہو، مرد ہو یاعورت تو اس کی پناہ تمام مسلمانوں کی طرف سے مانی جائے گی۔
اب کسی مسلمان کو اس کے مال وجان سے بلاوجہ تعرض کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
لیکن اگر امام اس پناہ کو مصلحت کے خلاف خیال کرے تو پہلے اس پناہ کو ختم کرنے کا اعلان کرےگا، پھر کافر کو اتنا موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکے۔
اس مسئلے کے متعلق مکمل تفصیل کتاب الجهاد میں بیان ہوگی۔

بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نمازآٹھ رکعات پڑھی تھیں۔
بعض حضرات نے ان رکعات کو فتح کے شکرانے کی نماز قراردیا ہے۔
بہرحال وقت چاشت ہی کا تھا اورآپ نے چاشت کی آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔
جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1668) (336)
میں اس کی صراحت ہے۔
حضرت ام ہانی ؓ نے اس نماز کی تفصیل بھی بیان کی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات اس طرح ادا فرمائیں کہ ہر دورکعت پر سلام پھیرتے تھے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1290)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ، حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت ابوذر ؓ کو نمازچاشت پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1178 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1675 (722)
و سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2406)

اس کے متعلق مکمل تفصیل آئندہ ذکر کریں گے۔
إن شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 357