ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے توبہ بن کیسان نے، ان سے مورق بن مشمرج نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور عمر پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فرمایا نہیں۔ میرا خیال یہی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1175]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1175
حدیث حاشیہ: بعض شراح کرام کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حدیث اور باب میں مطابقت نہیں ہے۔ علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں: فحمله الخطابي على غلط الناسخ، وابن المنير: على أنه لما تعارضت عنده أحاديثها نفيًا، كحديث ابن عمر هذا، إثباتًا كحديث أبي هريرة في الوصية بها، نزل حديث النفي على السفر، وحديث الإثبات على الحضر.ويؤيد بذلك أنه ترجم لحديث أبي هريرة بصلاة الضحى في الحضر مع ما يعضده من قول ابن عمر: لو كانت مسبحًا لأتممت في السفر. قاله ابن حجر. یعنی خطابی نے اس باب کو ناقل کی غلطی پر محمول کیا ہے اور ابن منیر کا کہنا یہ ہے کہ حضرت اما م بخاری ؒ کے نزدیک نفی اور اثبات کی احادیث میں تعارض تھا، اس کو انہوں نے اس طرح رفع کیا کہ حدیث ابن عمر ؓ کو جس میں نفی ہے سفر پر محمول کیا اور حدیث ابوہریرہ ؓ کو جس میں وصیت کا ذکر ہے اور جس سے اثبات ثابت ہو رہاہے، اس کو حضر پر محمول کیا۔ اس امر کی اس سے بھی تائید ہو رہی ہے کہ حدیث ابوہریرہ پر حضرت امام نے صلوة الضحی في الحضر کا باب منعقد فرمایا اور نفی کے بارے میں حضرت ابن عمر ؓ کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں سفر میں نفل پڑھتا تو نمازوں کو ہی پورا کیوں نہ کرلیتا، پس معلوم ہوا کہ نفی سے ان کی سفر میں نفی مراد ہے اور حضرات شیخین کا فعل بھی سفر ہی سے متعلق ہے کہ وہ حضرات سفر میں نماز ضحی نہیں پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1175
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1175
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ چاشت کی نماز کا سفر میں پڑھنا اور دلیل کے طور پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا ذکر فرماتے ہیں جو کہ نفی پر محمول ہے۔ مگر یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ بڑے دقیق انداز میں جس مسئلہ کا استنباط پیش کیا ہے وہ ایک بہترین تطبیق ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: «فحمله الخطابي على غلط الناسخ، وابن المنير: على انه لما تعارضت عنده أحاديثها نفيًا كحديث ابن عمر هذا واثباتًا كحديث أبى هريرة فى الوصية بها نزل حديث النفي على السفر وحديث الاثبات على الحضر ويؤيد بذالك انه ترجم لحديث أبى هريرة بصلاة الضحيٰ فى الحضر مع ما يعضده من قول ابن عمر لو كنت مسبحًا لأتممت فى السفر قاله ابن حجر» ”یعنی خطابی نے اس باب کو ناقل کی غلطی پر محمول کیا ہے اور ابن المنیر کا کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک نفی اور اثبات کی احادیث میں تعارض تھا اس کو انہوں نے اس طرح دور کیا کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جس میں (چاشت کی نماز) کی نفی ہے سفر پر محمول کیا اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جس میں وصیت کا ذکر ہے (یہ حدیث اس طرح سے ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی میں ان کو کبھی نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ مر جاؤں، ہر ماہ تین روزے رکھنا، چاشت کی نماز پڑھنا، سونے سے قبل وتر پڑھنا۔ [صحيح بخاري، كتاب التهجد رقم 1107]) اور جس سے اثبات ہو رہا ہے، اس کو حضر پر محمول کیا ہے۔ اس امر کی اس سے بھی تائید ہو رہی ہے کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر امام بخاری رحمہ اللہ نے «صلاة الضحيٰ فى الحضر» کا باب منعقد فرمایا ہے اور نفی کے بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے کہ جو انہوں نے فرمایا: اگر میں سفر میں نفل پڑھتا تو نمازوں کو ہی پورا کیوں نہ کر لیتا، پس معلوم ہوا کہ نفی سے مراد ان کا سفر میں نفی کرنا ہے مطلق نہیں۔ لہٰذا شیخین کی بھی نفی سفر ہی پر محمول ہے۔ لہٰذا علامہ قسطلانی کے مفید قول سے مطابقت کے کئی پہلو اجاگر ہوئے۔
دوسرا نکتہ بھی قابل غور ہے جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح کیا آپ فرماتے ہیں: «وفي الجملة ليس فى أحاديث ابن عمر هذه ما يدفع مشروعية صلاة الضحيٰ، لأنه نفيه محمول على عدم روية لا على عدم الوقوع فى نفس الامر أو الذى نفاه صفة مخصوصة كما سيأتي نحوه فى الكلام على حديث عائشة قال عياض وغيره: انما انكر ابن عمر ملازمتها واظهارها فى المساجد وصلاتها جماعة، لا انها مخالفة للسنة ويؤيد ما رواه ابن ابي شيبة عن ابن مسعود رضى الله عنه انه رأي قوما يصلونها فأنكر عليهم ان كان ولابد ففي بيوتكم»[فتح الباري ج4 ص47۔ 48] ”یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے چاشت کی نماز کا ناجائز ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لیے کہ یہ نفی ان کی عدم روئیت پر محمول ہے، یعنی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا اس سے یہ مراد نہیں کہ فی الواقع ہی آپ نے یہ نماز نہیں پڑھی اور یا یہ نفی خاص صفت پر محمول ہے یعنی ان کو مسجد کے ساتھ لازم رکھنا اور جماعت کے ساتھ پڑھنا درست نہیں جیسا کہ آئندہ حدیث میں کلام آئے گا جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
قاضی عیاض وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا انکار کرنا دراصل اس کو مسجد یا جماعت کی صورت میں ادا کرنے پر ہے نہ کہ سنت کی مخالفت کی وجہ سے اور اس کی تائید ابن ابی شیبہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ (مسجد میں) چاشت ادا کر رہے ہیں تو آپ نے انکار کیا اور فرمایا: اگر پڑھنی ہے تو گھروں میں ادا کرو۔
شیخ بدرالدین بن جماعۃ (المتوفي 733ه) رقمطراز ہیں: ”سیدہ ام ھانی رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سفر کی حالت میں تھے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اس بات پر مؤید ہے کہ وہ نفل سفر میں نہیں پڑھتے اور کہتے تھے کہ اگر میں نفل پڑھوں گا تو مکمل پڑھوں گا۔“[مناسبات تراجم البخاري لابن جماعة، ص53] لہٰذا جن احادیث میں انکار ہے وہ سب اسی امر پر محمول ہیں کہ گھروں میں چاشت کو ادا کرو اور ساتھ ہی ساتھ یہ قاعدہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حدیث ہر صحابی تک نہیں پہنچتی لہٰذا جب کسی صحابی سے اثبات کی دلیل مہیّا ہو جائے تو عمل کے لیے کافی ہوتی ہے۔
صاحب ضیاء الساری رقمطراز ہیں: «وفي الجملة ليس فى أحاديث ابن عمر هذه ما يرفع مشروعية صلاة الضحيٰ، لأن نفيه محمول على عدم رؤيته، لا على عدم الوقوع فى نفس الأمر»[ضياء الساري، ج10، ص439] ”حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں اشراق کی نماز کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ نفی عدم رؤیت پر محمول ہوتی ہے اور حقیقتاً وہ نفی امر (کسی چیز کے ہونے پر) عدم وقوع کی دلیل نہیں ہوتی۔“
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وأما حديث ابن عمر، ونفيه المطلق فوجه إيراده هنا أن البخاري حمله على السفر خاصة، لأن قد ثبت صلاتها فى الحضر من حديث ابي هريرة وغيره، أوصاني خليلي بها، فإذا حمل حديث ابن عمر على السفر كان جمعًا بين الأحاديث، وإذا حمل على الاطلاق وقع تعارض والاختلاف، فالجمع أوليٰ . . .»[التوضيح لشرح الجامع الصحيح، ج9، ص182] ”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو حدیث ہے وہ نفی ہے مطلق کی، امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہاں صرف سفر پر خاص ہے، (یعنی نماز اشراق کا سفر میں ادا کرنا) کیونکہ یقیناً حضر میں اشراق کا ادا کرنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سے منقول ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جیسا کے صحيح بخاري، رقم 1178 میں حدیث ہے کہ مجھے میرے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی (اس میں اشراق کا ذکر ہے) لہٰذا اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا اطلاق سفر پر کیا جائے تو دونوں احادیث میں جمع و تطبیق کی صورت بنتی ہے۔ اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو مطلق کیا جائے گا تو تعارض و اختلاف واقع ہو جائے گا (جو کہ مناسبت نہیں ہے لہٰذا) جمع کی صورت اولیٰ ہے۔“
فائدہ: ایک اصولی قاعدے کو دامن گیر فرما لیں کہ علوم حدیث کا ذخیرہ ایک وسیع علم ہے جو وحی پر مشتمل ہے، اس علم کو حاصل کرنے والے ہر صدی میں پیدا ہوئے ہیں، علوم حدیث کے علم کی وسعت کا اندازہ اس زاویہ سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ہر حدیث ہر صحابی یا محدث تک نہیں پہنچی لیکن اس کے باوجود بھی مجموعی اعتبار سے احادیث کا ذخیرہ محفوظ سے محفوظ تر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے جن کے پاس تمام احادیث کا نہ پہنچنا ثابت ہے، اور جوں ہی ان تک احادیث کی رسائی ہوئی انہوں نے اپنی آراء کو چھوڑ کر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع فرما لیا، خطیب البغدادی رحمہ اللہ المتوفي 462 اپنی کتاب الفقيه والمتفقه میں باب قائم کرتے ہیں: «ذكر ما روي من رجوع الصحابة عن ارائهم التى رأوها إلى أحاديث النبى صلى الله عليه وسلم إذا سمعوها ووعوها»[الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي، ص283] ”یعنی اس بات کا ذکر کہ صحابہ کرام اپنی آراء سے رجوع فرما لیا کرتے تھے جب ان تک احادیث پہنچتی جب اسے سنتے اور حفظ کرتے۔“ خیر القرون میں ہمیشہ سنت ہی کو مقدم رکھا گیا ہے۔ تمام مسائل کے حل کے لیے صحابی کی جماعت سے لے کر آپ محدثین کرام رحمہم اللہ تک نظر دوڑائیے، ان کے نزدیک تمام قیاسات اور آراء پر مقدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی ہوا کرتا تھا، لیکن جب زمانہ نے کروٹ بدلی اور بعد کے لوگ پیدا ہوئے جو فقاہت کے نام سے اپنے مذموم عقائد کی برتری میں مصروف ہو گئے بس اس کے بعد اسلام میں ایسے چور دروازے کھولے گئے جو آج تک بند نہ ہو سکے۔ سنت کے دفاع اور محدثین کے منہج کے بارے میں واقعات کی تفصیل کے لئے دیکھیے۔ الطيوريات لشيخ ابي طاهر السلفي رحمه الله، ذم الكلام وهله للامام الهروي رحمه الله
اب ہم اس مسئلے پر دلائل دیں گے جس سے یہ واضح ہو گا کہ تمام احادیث کا ذخیرہ ہر صحابی تک نہیں پہنچا اور جب صحیح حدیث کی صحابہ تک رسائی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آراء و قیاس کو حدیث کی وجہ سے ترک کر دیا کرتے تھے، مثلاً: ➊ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تک انگلیوں کی دیت کے بارے میں احادیث نہیں پہنچیں سو ان تک اس کتاب سے خبر دی گئی جو کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن حزم کے لیے لکھوائی تھی جس میں یہ حدیث تھی کہ ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں جب یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو «فاخذه وتركه امره الاول»”پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے حکم سے رجوع کیا اور حدیث پر عمل کیا۔“[ديكهئيے مصنف عبدالرازق ج9 رقم 17706] ➋ ابوجوزاء رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے براہ راست سنا کہ آپ بیع صرف کا حکم دیتے تھے۔ (بیع صرف اس بیع کو کہتے ہیں کہ جب ایک ہی جنس ہو مثلاً کھجور کے بدلے کھجور، سونے کے بدلے سونا تو کمی بیشی سود نہیں ہوا کرتی۔ مزید تفصیلی بحث کے لیے راقم کی کتاب ”صحیح مسلم میں بظاہر دو احادیث میں تطبیق“ کا مطالعہ بے حد ان شاء اللہ مفید ہوگا۔)(یعنی اسے جائز کہتے تھے) اور ان سے یہ قول روایت کیا جاتا ہے چنانچہ میں ان سے مکہ جاکر ملا اور عرض کیا مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے (صرف کے جواز سے) رجوع کر لیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ہاں! وہ قول میری اپنی رائے تھی۔ اور یہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع صرف سے منع کیا ہے۔ [سنن ماجه، ابواب التجارات رقم 2258] ➌ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے دیت عاقلہ کو ملے گی۔ اور عورت کو اپنے خاوند کی دیت (خون بہا) سے ترکے والا حصہ نہیں ملے گا، یہاں تک کہ سیدنا ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھ کر بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشیم ضبابی رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کے خاوند کی دیت سے ترکہ دلوایا تھا (اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع فرما لیا تھا)۔ [سنن ابن ماجه ابواب الديات رقم الحديث: 22643] ➍ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دادی کے میراث کے قائل نہ تھے پھر انہیں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو چھٹہ حصہ دیا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث کے مطابق فیصلہ دیا اور اپنے فیصلے کو چھوڑ دیا۔ [سنن الترمذي 4/ 419 وابوداؤد فى سنته 2/ 317] ➎ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مجوسی کے جزیہ کا ذکر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ میں کیا کروں ان کے مسلئے میں تو انہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے وہ طریقہ اختیار کریں جو اہل کتاب سے کرتے ہو۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوے سے رجوع فرما لیا۔ [موطا امام مالك 253/1 باب جزيه اهل الكتاب والمجوسي]
SR نوٹ: ER یاد رہے یہاں صرف جزیہ کے بارے میں مجوسیوں کا حکم اہل کتاب کا ہے ہر عمل کا نہیں۔ ➏ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ”بیع صرف“ حدیث کا علم نہ تھا انہیں اس حدیث کی خبر دی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں حدیث سنی ہے۔ [صحيح مسلم كتاب البيع باب الربا سنن ابي ماجه كتاب السنة رقم 18] ➐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: اگر میں جنبی ہو جاؤں اور پانی نہ پاؤں تو کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا: ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں میں اور آپ سفر میں تھے ہمیں غسل کی ضرورت پڑی پانی نہ تھا، آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں زمین پر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ پھر نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے یہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر ان پر پھونک مارتا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے مزید یاد نہیں۔ [رواه البخاري فى”التيمم“ رقم 338] ➑ طلاق ثلاثہ کے بعد عورت کا اپنے خاوند جس سے طلاق ہوئی اس کے گھر میں نہ اس کی عدت ہے اور نہ ہی خاوند کے ذمہ اس عورت کا نان نفقہ و سکنی ہے، یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھی یہاں تک کہ انہیں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی۔ [صحيح مسلم رقم الحديث: 1550] ➒ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے گھر گئے تین بار اجازت مانگی نہ ملنے پر واپس لوٹ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کیوں واپس لوٹ گئے تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے کی انہیں حدیث سنائی جو کہ ان کے علم میں نہ تھی اور اس مسئلے کی حدیث ان تک ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پہنچائی۔ [صحيح البخاري كتاب الاعتصام بالكتاب والسنه رقم: 7262] ➓ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ املاص کی حدیث موجود نہ تھی تو آپ کو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غلام یا کنیز دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ [صحيح البخاري كتاب الديات رقم الحديث 69٠5] ⓫ حج تمتع کی حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچی تھی، مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس ہدی نہ تھی ان کا احرام خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلوا دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود احرام نہیں کھولا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی تھی یہ مسئلہ عمر رضی اللہ عنہ سے مخفی رہا اور پھر آپ نے اپنے موقف سے رجوع فرمایا۔ [صحيح بخاري كتاب المنك رقم الحديث 1559 اعلام الموقعين لابن القيم ج4 ص40] ⓬ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کا نام ”محمد“ رکھنے کے قائل نہ تھے یہاں تک کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابومحمد رکھی تھی۔ [معجم الصحابة للابن قانع رقم 17٠8 الاصابة فى تميز الصحابة 775/6] ⓭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیات پڑھیں: «وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ . . .»[آل عمران 3/ 144] «إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ»[الزمر 29/ 30] جب یہ آیات پڑھی گئیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «والله كأنّي ما سمعتها قط قبل وقتي هذا»”اللہ قسم میں نے گویا کہ اس سے قبل یہ آیات سنی ہی نہیں تھیں۔“[صحيح البخاري، كتاب الجنائز رقم 1242] ⓮ حدیبیہ کے روز اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو مطلق مکے میں داخل ہونے کا حکم دیا اور اس داخلے کا سال متعیّن نہیں فرمایا یہ بات عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح فرمائی ان پر۔ [صحيح البخاري كتاب الشروط رقم 2731۔ 2732] ⓯ عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا بھی علم نہ تھا کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس جگہ تم سنو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر آپ اسی جگہ پر ہو تو مت نکلو وہاں سے، اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور حدیث کی طرف رجوع فرمایا۔ [صحيح البخاري، كتاب الطب، رقم 5729] ⓰ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر حمل کی مدت کی کم سے کم مقدار کا مسئلہ مخفی رہا یہاں تک کہ ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے واضح کیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا»[الاحقاف 46/ 15] ”عورت کا حاملہ ہونا اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس (30) ماہ ہے۔“ «وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ»[البقرة 2/ 233] ”مائیں اپنی اولاد کو دو سال تک دودھ پلائیں۔“ یعنی بچے کی کم سے کم حمل کی مدت چھ ماہ بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ احقاف کی آیت میں تیس ماہ کا ذکر ہے یعنی چوبیس ماہ دودھ پلانے کے اور چھ ماہ حمل کے اس وضاحت کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا۔ [موطأ امام مالك 2؍825، ابن شيبه فى تاريخ المدينه 3؍977، سنن الكبريٰ للبيهقي 7؍442] ⓱ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ نے جواباً فرمایا کہ بہن کو آدھا اور بیٹی کو بھی آدھا ملے گا، اس فتوے کا ذکر پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو آپ نے جواباً فرمایا کہ اگر میں بھی وہی فتویٰ دوں جو ابوموسیٰ نے دیا ہے تو میں سیدھے رستے سے بھٹک جاؤں گا آپ نے فرمایا کہ میرے پاس اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا اس طرح دو تہائی ہو جائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ اس کے بعد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوے سے رجوع فرمایا۔ [صحيح البخاري كتاب الفرائض رقم 6736] ⓲ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث نہ پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز پالتو گدھوں کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے حرام ہونے کی دلیل براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی بحث کی ساتھ ان کو واضع کیا اور وہ قائل ہو گئے۔ [صحيح البخاري كتاب المغازي رقم 7 . 4226] ⓳ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا نکاح ہوا اور بغیر ہم بستری کے شوہر کا انتقال ہو گیا تو کیا وہ عورت عدت گزارے گی، کیا اسے مہر دیا جائے گا، کیا وہ عورت وراثت میں شامل ہو گی؟ اس مسئلے کے بارے میں انہیں علم نہ تھا، صحابی معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو عدت کا بھی حکم دیا مہر کا بھی حکم دیا اور وراثت میں شمولیت کا بھی۔ [سنن ابي داؤد، كتاب النكاح رقم 2114] ⓴ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ تھا کہ حائضہ اور نفاس والی عورتیں حیض و نفاس کے خون بند ہونے تک انتظار کریں اور پاک ہونے پر طواف وداع کر کے رخصت ہوں، مگر جب انہیں یہ حدیث پتہ چلی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کو واپس لوٹنے کی اجازت دی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلک سے رجوع کر لیا۔ [سنن ابي داؤد كتاب المناسك 2004، البيهقي فى المدخل 25، الفقيه والمتفقه 1؍207، مسند أحمد 3؍416] (21) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وہ حدیث مخفی رہی جس میں یہ حکم ہے کہ جب نماز میں شک ہو جائے (یعنی دو رکعت پڑھیں یا چار رکعت) تو انہیں اس حدیث کی خبر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إنه يطرح الشك وبيني على ما استيقن»[مسند أحمد 2/ 72، الدارمي 1502، ابن ماجه 1210] (22) محرم کو احرام سے قبل خوشبو لگانا درست نہ تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے عمرے کا احرام باندھا ہوا تھا اور اس سے خوشبو آ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ خوشبو کو تین بار دھوئے۔ [صحيح بخاري كتاب الحج رقم 1539] اس حدیث میں جو خوشبو دھونے کا واقعہ ہے یہ پہلے کا ہے، امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام باندھنے کے وقت، احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی اور احرام کھولنے کے وقت طواف افاضہ کرنے سے پہلے بھی۔ [ابن ماجه رقم 2926] یہ حدیث جس کی راویہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کو نہیں پہنچی۔ [ديكهئے مجموع فتاويٰ ابن تيميه ج20 ص227] (23) عثمان رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ حدیث نہ تھی کہ بیوہ عورت کہاں عدت گزارے گی چنانچہ انہیں فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی حدیث کے مطابق فیصلہ دیا۔ [سنن ابي داؤد كتاب الطلاق رقم 2300] (24) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مخفی رہی کہ احرام کی حالت میں وہ جانور حرام ہے جو شکار کیا گیا ہو حتی کہ انہیں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اس کی خبر دی۔ [صحيح مسلم كتاب الحج رقم 1190] (25) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زندیق لوگوں کو آگ میں جلوایا حتی کہ انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو عذاب نہ دو یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ کے علم میں نہ تھی۔ [صحيح البخاري كتاب استتابة المرتدين رقم 6922] (26) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پاگل عورت لائی گئی آپ نے مشورے کے بعد اس عورت کو سنگسار کا حکم سنا دیا حتی کہ انہیں علی رضی اللہ عنہ ملے اور آپ نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تین لوگ مرفوع قلم ہیں (یعنی ان پر کوئی گناہ نہیں) مجنو حتی کہ وہ عقل والا ہو جائے، بچے سے حتی کہ وہ جوان ہو جائے، سوتے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ جاگ نہ جائے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر رجوع کر لیا، اور اس عورت کو چھوڑ دیا۔ [صحيح ابن خزيمه رقم 1003] (27) رکوع میں ہاتھ کو گھٹنے پر رکھنا سنت ہے حتی کہ گھٹنوں کو پکڑنا اور یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچی کہ تطبیق منسوخ ہے اور اب ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر اسے پکڑنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ دیکھئے [صحيح مسلم كتاب الصلاة، سنن الترمذي رقم 258 مع تحفة] «قال أبوعيسيٰ الترمذي وحمل هذا على أن ابن مسعود رضى الله عنه لم يبلغه النسخ» (28) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی جس میں زمین کو بٹائی پر دینے کی ممانعت تھی حتی کہ انہیں اس حدیث کی خبر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے دی [سنن ابن ماجه، كتاب البيوع رقم 3394۔ 3395] (29) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اس وقت فرمایا کہ جب آپ محرم نہ تھے مگر یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علم میں نہ تھی اور انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں ان سے نکاح فرمایا۔ [زاد المعاد، ج4، ص1016] (30) فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی مگر یہ حدیث فضل بن عباس رضی اللہ عنہ پر مخفی رہی حتی کہ انہیں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اس کی خبر دی۔ [صحيح البخاري، كتاب المناسك۔ كتاب الذكاة رقم 1482] (31) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ میں اختلاف ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سنائی جو کبار صحابہ پر مخفی رہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جہاں انبیاء کا انتقال ہوتا ہے وہیں ان کو دفنانا چاہیے۔ [صحيح سيرة الانبياء ص727] (32) مہر کی زیادتی کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ پر مسئلہ مخفی رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج مطہرات اور آپ کی بیٹیوں کا کیا مہر تھا، انہیں ایک عورت نے خبر دی اور یہ آیت مبارکہ پڑھی۔ «وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْهُ شَيْئًا»[النساء: 20][رواه سعيد بن منصور فى سنته 598، ابويعليٰ فى مسنده الكبير 757، والحديث ضعيف انظر الارواء للالباني 2/ 248] (33) عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے روایت فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمران اٹھے گا (یعنی ایک قحطانی عرب کا بادشاہ ہو گا) اس حدیث کا علم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ تھا یہاں تک کہ یہ حدیث انہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی۔ [صحيح البخاري، كتاب المناقب، رقم 3500] (34) خلافت فاروقی کے دور میں ایک روز سیدنا حسان رضی اللہ عنہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے اشعار سنا رہے تھے جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روکنا چاہا تو حسان رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل کے جواز کے لیے حدیث پیش کی۔ [الحديث والمحدثون، ص155] (35) جو شخص جنبی ہو اور فجر کا وقت ہو تو وہ غسل کرے اور روزہ رکھ لے، لیکن یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علم میں نہ تھی حتی کہ اس حدیث کو ام المؤمنین عائشہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے بیان فرمائی۔ [الحديث والمحدثون، ص155] (18) عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ شکار کا گوشت ہدیہ کیا گیا (حالت احرام میں) تو آپ نے نوش فرما لیا مگر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی (جس کا علم انہیں نہ تھا) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کو لوٹا دیا تھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کھایا تھا)۔ [الحديث والمحدثون، ص29] (37) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال ورثہ میں تقسیم نہ ہو گا بلکہ وہ صدقہ ہو گا۔ انہیں اس حدیث کی خبر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دی۔ [صحيح البخاري، كتاب الخمس، رقم الحديث: 3093] (38) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ”کعبے کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا۔۔۔“ یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ تک نہ پہنچی جس کا ذکر امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا۔ [صحيح مسلم، رقم 1232] (39) مسح علی الخفین کی حدیث امی عائشہ رضی اللہ عنہا تک نہیں پہنچی، یہاں تک کہ انہیں علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور بعد میں آپ رضی اللہ عنہا نے رجوع بھی کیا۔ [صحيح مسلم: 1؍232، كتاب الآثار للشيباني: 1؍22] یہ چند واقعات صحابہ کے مبارک دور سے ہم نے نقل کئے ہیں جو اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہوں گے کہ ہر حدیث ہر صحابی تک نہیں پہنچی۔ «وبالله التوفيق»
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1175
حدیث حاشیہ: (1) ابن بطال بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اس عنوان سے متعلق نہیں بلکہ اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا: ”جو شخص نماز اشراق نہیں پڑھتا۔ “ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کاتب کی غلطی ہے۔ لیکن ابن منیر نے کہا ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت پیدا کی ہے کیونکہ حدیث ابن عمر میں نفی اور حدیث ابو ہریرہ میں اثبات ہے، اس لیے نفی کو سفر اور اثبات کو حضر پر محمول کیا جائے۔ اسی طرح حدیث ام ہانی ایسے سفر پر محمول کی جائے جس میں حضر جیسی سہولیات ہوں۔ (2) اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جزم و وثوق کے ساتھ نفی نہیں کی بلکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مطلق طور پر سفر میں نماز چاشت کی نفی نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة: 231/2) بلکہ حضرت انس ؓ سے صراحت کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں اشراق کے آٹھ نوافل پڑھے۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ”میں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید وابستہ کرتے ہوئے انہیں پڑھا ہے۔ “(صحیح ابن خزیمة: 231/2) اس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ کی مبنی بر تردد روایت سے حضرت انس ؓ سے مروی یقینی روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے حضرت ابن عباس ؓ نے نماز اشراق کو ایک موقع پر بدعت قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1775) بہرحال ان کا انکار اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے نہیں دیکھا۔ لیکن ابن عمر ؓ کا نہ دیکھنا اس بات کی دلیل نہیں کہ سرے سے اس نماز کا وجود ہی نہیں یا اس کا ادا کرنا بدعت ہے۔ قاضی عیاض وغیرہ نے لکھا ہے اشراق کی فرض نماز جیسی پابندی کرنا یا مسجد میں اس کا ادا کرنا یا باجماعت اہتمام کرنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ نے انکار کیا ہے۔ ان کے انکار کے یہ معنی نہیں کہ نماز اشراق خلاف سنت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم نے اس کا اہتمام کرنا ہے تو اپنے گھروں میں کرو۔ (فتح الباري: 89/3) روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب مکہ آتے یا مسجد قباء جاتے تو نماز اشراق پڑھتے تھے۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی انکار کی وجہ سے نماز اشراق کی مشروعیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی معلومات کے مطابق انکار کیا ہے۔ (فتح الباري: 89/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1175