الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب الفتن
كتاب الفتن
--. دجال مدینہ طیبہ میں دخل نہیں ہو سکے گا
حدیث نمبر: 5479
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْتِي الدَّجَّالُ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْزِلُ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ رَجُلٌ وَهُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ هَلْ تَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟ فَيَقُولُونَ: لَا فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْيَوْمَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال آئے گا اور اس کے لیے مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا حرام ہے، چنانچہ وہ مدینہ کے قریب شور والی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا، پھر ایک آدمی اس کے پاس جائے گا جو کہ (اس وقت) سب سے بہترین شخص ہو گا، وہ کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بیان فرمایا تھا۔ دجال کہے گا: مجھے بتاؤ اگر میں اس کو قتل کر دوں، پھر اسے زندہ کر دوں تو کیا تم میرے معاملے میں شک کرو گے؟ وہ کہیں گے نہیں، وہ اس کو قتل کرے گا، پھر اسے زندہ کر دے گا تو وہ کہے گا: اللہ کی قسم! تیرے متعلق مجھے آج پہلے سے زیادہ بصیرت حاصل ہو گئی ہے، پھر دجال اسے قتل کرنا چاہے گا، لیکن وہ اس (کے قتل کرنے) پر قادر نہیں ہو سکے گا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5479]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1882) و مسلم (112/ 2938)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. دجال شام میں قتل کر دیا جائے گا
حدیث نمبر: 5480
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ هِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشامِ وهنالك يهلِكُ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال مدینے کے ارادے سے مشرق کی طرف سے آئے گا حتی کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے قیام کرے گا، پھر فرشتے اس کا چہرہ شام کی طرف پھیر دیں گے، اور وہ وہیں ہلاک ہو گا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5480]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (لم أجده) و مسلم (486/ 1380)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا
حدیث نمبر: 5481
وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ رُعْبُ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ لَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ بَابٍ مَلَكَانِ» رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مدینہ (اس کے لوگوں کے دلوں) میں دجال کا رعب داخل نہیں ہو گا، اس دن اس (مدینے) کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5481]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (1879)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم داری کا قصہ بیان کیا
حدیث نمبر: 5482
وَعَن فَاطِمَة بنت قيس قَالَتْ: سَمِعْتُ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ: «لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ» . ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ؟» . قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ بِهِ عَنِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمُ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْر فأرفؤُوا إِلَى جَزِيرَةٍ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ فَجَلَسُوا فِي أقرب سفينة فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ قَالُوا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ قَالَتْ: أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ: لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ: فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أعظمُ إِنسان مَا رَأَيْنَاهُ قطُّ خَلْقاً وأشَدُّهُ وَثَاقاً مجموعةٌ يَده إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ. قُلْنَا: وَيْلَكَ مَا أَنْتَ؟ قَالَ: قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحن أُناس من العربِ ركبنَا فِي سفينةٍ بحريّة فلعِبَ بِنَا الْبَحْر شهرا فَدَخَلْنَا الجزيرة فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا فِي الدَّيْرِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ قَالَ: أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ تُثْمِرُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: أَمَا إِنَّهَا تُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ. قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ قَالَ: هَلْ فِيهَا مَاءٌ؟ قُلْنَا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ. قَالَ: أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ. قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ. قَالُوا: وَعَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ قَالَ: هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ؟ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ؟ قُلْنَا لَهُ: نعم هِيَ كَثِيرَة المَاء وَأَهله يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا. قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ؟ قُلْنَا: قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ. قَالَ: أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ؟ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنَ الْعَرَبِ وأطاعوهُ. قَالَ لَهُم: قد كانَ ذلكَ؟ قُلْنَا: نعم. قَالَ: أَمَا إِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي: إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ وَإِنِّي يُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعُ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ هُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا استقبلَني ملَكٌ بيدهِ السيفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ-: «هَذِه طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ» يَعْنِي الْمَدِينَةَ «أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ؟» فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنِ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ. أَلَا إِنه فِي بَحر الشَّأمِ أَو بحرِ اليمنِ لَا بل من قبل الْمشرق ماهو من قبل الْمشرق ماهو من قبل الْمشرق ماهو وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمشرق. رَوَاهُ مُسلم
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منادی کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا: نماز جمع کرنے والی ہے، میں مسجد کی طرف گئی اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نماز پڑھ چکے تو منبر پر بیٹھ گئے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس رہے تھے، فرمایا: تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں۔ پھر فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کس لیے جمع کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے تمہیں کسی رغبت (مال غنیم�� وغیرہ دینے) کے لیے جمع نہیں کیا ہے نہ کسی خوف کی وجہ سے، بلکہ میں نے تمہیں اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی شخص تھا، وہ آیا اس نے بیعت کی اور مسلمان ہو گیا اس نے مجھے وہ بات بیان کی اور وہ اسی بات کے موافق تھی جو میں تمہیں مسیح دجال کے متعلق بیان کرتا ہوں، اس نے مجھے بتایا کہ وہ لخم و جذام قبیلے کے تیس افراد کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا، موجیں ایک ماہ تک انہیں سمندر میں لیے پھریں (باہر کنارے پر پہنچنے کا موقع نہ ملا) وہ غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرے کے قریب پہنچ گئے، وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے تو کثیر بالوں والا ایک حیوان انہیں ملا، بالوں کی کثرت کی وجہ سے وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا اگلا حصہ کون سا ہے اور پچھلا حصہ کون سا ہے؟ انہوں نے کہا تیری تباہی ہو، تو کیا چیز ہے؟ اس نے عرض کیا: میں (دجال کا) جاسوس ہوں، ہم نے کہا جاسوس سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا، تم گرجا میں اس آدمی کی طرف چلو، کیونکہ وہ تمہیں ملنے کا مشتاق ہے، انہوں نے (تمیم داری) نے فرمایا: جب اس نے اس آدمی کے متعلق ہمیں بتایا تو ہم اس (حیوان) سے ڈر گئے کہ یہ کہیں شیطان نہ ہو، ہم جلدی جلدی چلے حتی کہ ہم گرجے میں داخل ہو گئے، تو وہاں ایک عظیم جثے والا انسان تھا، ہم نے تخلیق و مضبوطی کے لحاظ سے اس جیسا انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، اور اس کے گھٹنوں اور ٹخنوں کے مابین لوہے کی زنجیریں تھیں، ہم نے کہا: تیری تباہی ہو، تو کون ہے؟ اس نے کہا: تم میری خبر (معلوم کرنے) پر تو قدرت پا چکے ہو، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر کی موجیں ایک ماہ تک ہمیں ادھر ادھر پھیراتی رہیں، ہم جزیرے میں داخل ہوئے تو کثیر بالوں والا ایک جانور ہمیں ملا تو اس نے کہا: میں جاسوس ہوں، تم گرجے میں موجود اس شخص کے پاس جاؤ، لہذا ہم جلدی جلدی تیرے پاس پہنچ گئے ہیں، لیکن اس جاسوس سے ہم خوفزدہ ہوئے کہ کہیں وہ شیطان نہ ہو، اس نے کہا: تم مجھے بیسان کے نخلستان کے بارے میں بتاؤ، کیا وہ پھل دیتا ہے؟ ہم نے کہا، ہاں، اس نے کہا، سنو! قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دے گا، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کے متعلق مجھے بتاؤ؟ کیا اس میں پانی ہے؟ ہم نے کہا: اس میں بہت زیادہ پانی ہے، اس نے کہا: قریب ہے کہ اس کا پانی ختم ہو جائے گا، اس نے کہا: مجھے چشمہ زغر کے متعلق بتاؤ کیا چشمے میں پانی ہے، اور کیا وہاں رہنے والے چشمے کے پانی سے زراعت کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں اس میں پانی بھی بہت ہے، اور وہاں کے رہنے والے اس پانی سے زراعت بھی کرتے ہیں، اس نے کہا: مجھے ان پڑھوں (عربوں) کے نبی کے متعلق بتاؤ اس نے کیا کیا؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے ہیں؟ اس نے کہا: کیا عربوں نے اس سے لڑائی کی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے قریب کے عربوں پر غالب آ چکے ہیں، اور انہوں (عربوں) نے آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کی اطاعت اختیار کر لی ہے۔ اس نے کہا: سنو! اگر وہ ان کی اطاعت کریں تو ان کے حق میں یہی بہتر ہے اور میں اب تمہیں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، بے شک قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جائے تو میں نکل آؤں گا، میں زمین پر چلوں گا، اور میں چالیس روز میں زمین پر مکہ اور طیبہ (مدینہ) کے علاوہ ہر بستی میں اتروں گا، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں۔ میں جب بھی ان دونوں میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا تو ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار سونتے ہوئے میرے سامنے آ جائے گا، اور وہ اس میں داخل ہونے سے مجھے روکے گا، اور اس کے ہر راستے اور دروازے پر فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اور آپ نے منبر پر چھڑی ماری: یہ (یعنی مدینہ) طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے۔ سنو! کیا میں نے تمہیں حدیث سنا دی تھی؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں (فرمایا) سنو! وہ شام کے سمندر میں ہے یا وہ یمن کے سمندر میں ہے، نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے نکلے گا۔ اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو اشارہ فرمایا تھا وہ مشرق کی طرف تھا۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5482]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (119/ 2942)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب
حدیث نمبر: 5483
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأَيْتُنِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ قد رجَّلَها فَهِيَ تقطر مَاء متكأ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيح بن مَرْيَمَ قَالَ: ثُمَّ إِذَا أَنَا بَرْجُلٍ جَعْدٍ قَطَطٍ أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ بِابْنِ قَطَنٍ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ فِي الدَّجَّالِ: «رَجُلٌ أَحْمَرُ جَسِيمٌ جَعْدُ الرَّأْسِ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ» وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا» فِي «بَابِ الْمَلَاحِمِ» وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاس فِي «بَاب قصَّة ابْن الصياد» إِن شَاءَ الله تَعَالَى
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج کی رات میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) کعبہ کے پاس دیکھا، میں نے وہاں گندمی رنگ کے ایک آدمی کو دیکھا کہ میں نے گندمی رنگ میں اس سے زیادہ خوبصورت شخص کوئی نہیں دیکھا، اس کے سر کے بال کانوں کی لو تک تھے، میں نے کانوں کی لو تک اس سے زیادہ خوبصورت بال نہیں دیکھے، اس شخص نے ان میں کنگھی بھی کی ہوئی تھی، اور سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے، وہ دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لیے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، میں نے پوچھا، یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا: یہ مسیح بن مریم ؑ ہیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر میں نے بہت ہی گھونگریالے بالوں والے شخص کو دیکھا، اس کی دائیں آنکھ کانی تھی، گویا اس کی آنکھ ابھرے ہوئے انگور کی طرح ہے، اور وہ ابن قطن کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے جنہیں میں نے دیکھا تھا زیادہ مشابہ ہے، وہ بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، میں نے دریافت کیا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا یہ مسیح دجال ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دجال کے متعلق فرمایا: وہ سرخ رنگ کا آدمی ہے، اس کے بال گھونگریالے ہیں، دائیں آنکھ سے کانا ہے، اور وہ سب سے زیادہ ابن قطن سے مشابہت رکھتا ہے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔ باب الملاحم میں بیان ہو چکی ہے اور ہم عنقریب ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ باب قصۃ ابن الصیاد میں ذکر کریں گے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5483]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3440 و الرواية الثانية: 2441) و مسلم (274، 273 / 169 و الرواية الثانية: 277/ 171)
حديث ابن عمر: قام رسول الله ﷺ في الناس يأتي (5494)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. دجال کے برابر میں
حدیث نمبر: 5484
عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فِي حَدِيثِ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ: قَالَتْ: قَالَ: فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَةٍ تَجُرُّ شَعَرَهَا قَالَ: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْقَصْرِ فَأَتَيْتُهُ فَإِذَا رَجُلٌ يَجُرُّ شَعَرَهُ مُسَلْسَلٌ فِي الْأَغْلَالِ يَنْزُو فِيمَا بَيْنُ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنا الدَّجَّال. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے، تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے متعلق بیان کیا کہ انہوں (تمیم داری رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں اچانک ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرا جو اپنے بال کھینچ رہی تھی، انہوں نے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جاسوس ہوں، اس محل کی طرف جاؤ، میں وہاں گیا تو وہاں ایک آدمی اپنے بال کھینچ رہا ہے، وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اس کے ساتھ طوق بھی ہیں، اور وہ زمین و آسمان کے درمیان کود رہا ہے، میں نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں دجال ہوں۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5484]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أبو داود (4325)»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

--. دجال چھوٹے قد کا اور کانا ہے
حدیث نمبر: 5485
وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي حَدَّثْتُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ لَا تَعْقِلُوا. إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ قَصِيرٌ أَفْحَجُ جَعْدٌ أَعْوَرُ مَطْمُوسُ الْعَيْنِ لَيْسَتْ بِنَاتِئَةٍ وَلَا حَجْرَاءَ فَإِنْ أُلْبِسَ عَلَيْكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں دجال کے متعلق حدیث بیان کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم نہیں سمجھ سکے ہو، بے شک مسیح دجال چھوٹے قد کا ہے، اس کے دونوں پاؤں میں اس کے معمول سے زیادہ کشادگی ہو گی، بال گھونگریالے، کانا ہو گا، آنکھ غائب ہو گی، اس کی (دوسری) آنکھ بلند ہو گی نہ دھنسی ہو گی، اگر پھر بھی تمہیں مغالطہ ہو جائے تو جان لو کہ تمہارا رب کانا نہیں۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5485]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أبو داود (4320)»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

--. دجال کے وقت دِلوں کی کیفیت کیا ہو گی
حدیث نمبر: 5486
وَعَن أَي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَ الدجالَ قومَه وإِني أُنذركموه» فرصفه لَنَا قَالَ: «لَعَلَّهُ سَيُدْرِكُهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي أَوْ سَمِعَ كَلَامِي» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «مِثْلُهَا» يَعْنِي الْيَوْمَ «أوخير» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: نوح ؑ کے بعد ہر نبی ؑ نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے، اور میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اس کا تعارف کرایا، فرمایا: عنقریب کوئی جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہے، اسے پا لے گا۔ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس وقت ہمارے دل کیسے ہوں گے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جیسے آج ہیں یا (اس سے) بہتر۔ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5486]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الترمذي (2234 وقال: غريب) و أبو داود (4756)»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

--. دجال خراسان کے مقام سے نکلے گا
حدیث نمبر: 5487
وَعَنْ عَمْرِو ْنِ حُرَيْثٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصّديق قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الدَّجَّالُ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا: خُرَاسَانُ يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ المجانّ المطرقة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عمرو بن حریث نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا: دجال مشرقی سرزمین سے نکلے گا، جسے خراسان کہا جاتا ہے، جو لوگ اس کی اتباع کریں گے ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال جیسے ہوں گے۔ حسن، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5487]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الترمذي (2237 وقال: حسن غريب)»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

--. دجال کے دھوکے سے بچنا
حدیث نمبر: 5488
وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَمِعَ بالدجال فلينأ مِنْهُ فو الله إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ فَيَتَّبِعُهُ مِمَّا يَبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص دجال کے متعلق سنے تو وہ اس سے دور رہے، اللہ کی قسم! آدمی اس کے پاس آئے گا جو خود کو مومن سمجھتا ہو گا، لیکن جن شبہات کے ساتھ دجال بھیجا جائے گا وہ ان کی وجہ سے اس کی اتباع کرے گا۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5488]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4319)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح


Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next