الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كتاب الفتن
كتاب الفتن
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم داری کا قصہ بیان کیا
حدیث نمبر: 5482
وَعَن فَاطِمَة بنت قيس قَالَتْ: سَمِعْتُ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ: «لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ» . ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ؟» . قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ بِهِ عَنِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمُ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْر فأرفؤُوا إِلَى جَزِيرَةٍ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ فَجَلَسُوا فِي أقرب سفينة فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ قَالُوا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ قَالَتْ: أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ: لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ: فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أعظمُ إِنسان مَا رَأَيْنَاهُ قطُّ خَلْقاً وأشَدُّهُ وَثَاقاً مجموعةٌ يَده إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ. قُلْنَا: وَيْلَكَ مَا أَنْتَ؟ قَالَ: قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحن أُناس من العربِ ركبنَا فِي سفينةٍ بحريّة فلعِبَ بِنَا الْبَحْر شهرا فَدَخَلْنَا الجزيرة فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا فِي الدَّيْرِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ قَالَ: أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ تُثْمِرُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: أَمَا إِنَّهَا تُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ. قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ قَالَ: هَلْ فِيهَا مَاءٌ؟ قُلْنَا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ. قَالَ: أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ. قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ. قَالُوا: وَعَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟ قَالَ: هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ؟ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ؟ قُلْنَا لَهُ: نعم هِيَ كَثِيرَة المَاء وَأَهله يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا. قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ؟ قُلْنَا: قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ. قَالَ: أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ؟ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنَ الْعَرَبِ وأطاعوهُ. قَالَ لَهُم: قد كانَ ذلكَ؟ قُلْنَا: نعم. قَالَ: أَمَا إِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي: إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ وَإِنِّي يُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعُ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ هُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا استقبلَني ملَكٌ بيدهِ السيفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ-: «هَذِه طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ» يَعْنِي الْمَدِينَةَ «أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ؟» فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنِ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ. أَلَا إِنه فِي بَحر الشَّأمِ أَو بحرِ اليمنِ لَا بل من قبل الْمشرق ماهو من قبل الْمشرق ماهو من قبل الْمشرق ماهو وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمشرق. رَوَاهُ مُسلم
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منادی کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا: نماز جمع کرنے والی ہے، میں مسجد کی طرف گئی اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نماز پڑھ چکے تو منبر پر بیٹھ گئے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس رہے تھے، فرمایا: تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں۔ پھر فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کس لیے جمع کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے تمہیں کسی رغبت (مال غنیم�� وغیرہ دینے) کے لیے جمع نہیں کیا ہے نہ کسی خوف کی وجہ سے، بلکہ میں نے تمہیں اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی شخص تھا، وہ آیا اس نے بیعت کی اور مسلمان ہو گیا اس نے مجھے وہ بات بیان کی اور وہ اسی بات کے موافق تھی جو میں تمہیں مسیح دجال کے متعلق بیان کرتا ہوں، اس نے مجھے بتایا کہ وہ لخم و جذام قبیلے کے تیس افراد کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا، موجیں ایک ماہ تک انہیں سمندر میں لیے پھریں (باہر کنارے پر پہنچنے کا موقع نہ ملا) وہ غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرے کے قریب پہنچ گئے، وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے تو کثیر بالوں والا ایک حیوان انہیں ملا، بالوں کی کثرت کی وجہ سے وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا اگلا حصہ کون سا ہے اور پچھلا حصہ کون سا ہے؟ انہوں نے کہا تیری تباہی ہو، تو کیا چیز ہے؟ اس نے عرض کیا: میں (دجال کا) جاسوس ہوں، ہم نے کہا جاسوس سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا، تم گرجا میں اس آدمی کی طرف چلو، کیونکہ وہ تمہیں ملنے کا مشتاق ہے، انہوں نے (تمیم داری) نے فرمایا: جب اس نے اس آدمی کے متعلق ہمیں بتایا تو ہم اس (حیوان) سے ڈر گئے کہ یہ کہیں شیطان نہ ہو، ہم جلدی جلدی چلے حتی کہ ہم گرجے میں داخل ہو گئے، تو وہاں ایک عظیم جثے والا انسان تھا، ہم نے تخلیق و مضبوطی کے لحاظ سے اس جیسا انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، اور اس کے گھٹنوں اور ٹخنوں کے مابین لوہے کی زنجیریں تھیں، ہم نے کہا: تیری تباہی ہو، تو کون ہے؟ اس نے کہا: تم میری خبر (معلوم کرنے) پر تو قدرت پا چکے ہو، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر کی موجیں ایک ماہ تک ہمیں ادھر ادھر پھیراتی رہیں، ہم جزیرے میں داخل ہوئے تو کثیر بالوں والا ایک جانور ہمیں ملا تو اس نے کہا: میں جاسوس ہوں، تم گرجے میں موجود اس شخص کے پاس جاؤ، لہذا ہم جلدی جلدی تیرے پاس پہنچ گئے ہیں، لیکن اس جاسوس سے ہم خوفزدہ ہوئے کہ کہیں وہ شیطان نہ ہو، اس نے کہا: تم مجھے بیسان کے نخلستان کے بارے میں بتاؤ، کیا وہ پھل دیتا ہے؟ ہم نے کہا، ہاں، اس نے کہا، سنو! قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دے گا، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کے متعلق مجھے بتاؤ؟ کیا اس میں پانی ہے؟ ہم نے کہا: اس میں بہت زیادہ پانی ہے، اس نے کہا: قریب ہے کہ اس کا پانی ختم ہو جائے گا، اس نے کہا: مجھے چشمہ زغر کے متعلق بتاؤ کیا چشمے میں پانی ہے، اور کیا وہاں رہنے والے چشمے کے پانی سے زراعت کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں اس میں پانی بھی بہت ہے، اور وہاں کے رہنے والے اس پانی سے زراعت بھی کرتے ہیں، اس نے کہا: مجھے ان پڑھوں (عربوں) کے نبی کے متعلق بتاؤ اس نے کیا کیا؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے ہیں؟ اس نے کہا: کیا عربوں نے اس سے لڑائی کی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے قریب کے عربوں پر غالب آ چکے ہیں، اور انہوں (عربوں) نے آپ (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کی اطاعت اختیار کر لی ہے۔ اس نے کہا: سنو! اگر وہ ان کی اطاعت کریں تو ان کے حق میں یہی بہتر ہے اور میں اب تمہیں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، بے شک قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جائے تو میں نکل آؤں گا، میں زمین پر چلوں گا، اور میں چالیس روز میں زمین پر مکہ اور طیبہ (مدینہ) کے علاوہ ہر بستی میں اتروں گا، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں۔ میں جب بھی ان دونوں میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا تو ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار سونتے ہوئے میرے سامنے آ جائے گا، اور وہ اس میں داخل ہونے سے مجھے روکے گا، اور اس کے ہر راستے اور دروازے پر فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اور آپ نے منبر پر چھڑی ماری: یہ (یعنی مدینہ) طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے۔ سنو! کیا میں نے تمہیں حدیث سنا دی تھی؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں (فرمایا) سنو! وہ شام کے سمندر میں ہے یا وہ یمن کے سمندر میں ہے، نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے نکلے گا۔ اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو اشارہ فرمایا تھا وہ مشرق کی طرف تھا۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5482]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (119/ 2942)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح